مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"چین سے براستہ پاکستان یورپ بمقابلہ امارات سے یورپ براستہ اسرائیل ۔۔۔|| اظہر عباس

بہرحال یہ نیا قدم معاہدہ ابراہام کی ایکسٹینش ہے جو یو اے ای سے حیفہ تک جائے گی اور اس میں انڈیا کو اب شامل کیا گیا ہے۔ لیکن قابل غور بات اس میں انڈیا کی زیر سمندر ٹنل کا 1000 کلومیٹر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ آپ کے خیال میں یہ اگلے سال بن جائے گی ؟ نہیں یہ کم از کم 20 سال کا منصوبہ ہے۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھارت میں جی ٹوئنٹی کے اجلاس کے موقع پر الگ سے ایک پیشرفت میں بھارت سے مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ تک تاریخی تجارتی راہداری منصوبے کی نقاب کشائی کی گئی ہے جس میں امریکا بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق چینی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ (جسے جدید شاہراہ ریشم بھی کہاجاتا ہے) کے نعم البدل کے طور پر تیار کیے جانے والے اس راہداری منصوبے کو جدید مصالحہ راہداری کہاجاسکتا ہے۔منصوبے کے تحت دبئی سے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک ریلوے لائن بچھے گی، کنٹینروں کو نہرسوئز سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یورپ سے بھارت تک تجارت کی رفتار 40 فیصد تیز ہوجائےگی۔ امریکا، سعودی عرب، یورپی یونین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے مشترکہ طور پر لانچ کیے جانے والے اس اقدام میں ریلوے، بندرگاہوں، بجلی، ڈیٹا نیٹ ورک اور ہائیڈروجن پائپ لائن کے رابطے قائم کیے جائیں گے۔

اگرچہ یہ منصوبہ بنیادی طور پر تجارت پرمرکوز ہے لیکن اس کے بہت وسیع مضمرات ہوں گے جن میں ماضی کے دشمنوں اسرائیل اور سعودی عرب کے مابین تعلقات نارمل کرنا بھی شامل ہے۔ ایونٹ کی لانچ کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ’’یہ واقعی ایک حقیقی بڑی اور تاریخی ڈیل ہے‘‘۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلہ وان دیرلین نے کہا کہ بھارت، مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ کی یہ اقتصادی راہداری صرف ایک ریلوے یا ایک کیبل تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک براعظموں اور تہذیبوں کے مابین ایک سبز اور ڈیجیٹل پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا ہی ایک مجوزہ منصوبہ مشرق وسطیٰ بشمول متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کو ریل سے جوڑنا ہے اور اس سے بھارت اور یورپ کے مابین تجارت کی رفتار 40 فیصد بڑھ جائے گی۔ یوریشیا گروپ کے سربراہ پرامیت پال چوہدری نے کہا ہے کہ آج جو کنیٹینر نہر سوئز کے راستے یورپ سے ممبئی پہنچتا ہے وہ اب یورپ سے براہ راست اسرائیلی بندرگاہ حیفہ سے ریل کے ذریعے دبئی پہنچے گا جس سے وقت اور رقم دونوں بچیں گے۔ اے ایف پی کو جو تفصیلات ملی ہیں ان کے مطابق ’سبز ہائیڈروجن‘ کی تیاری اور ٹرانسپورٹ کےلیے انفراسٹرکچر بھی اسی اقتصادی راہداری کے ذریعے بنایاجائےگا۔ یہ ٹیلی کمیونی کیشن اور ڈیٹا ٹرانسفر کو بھی زیرسمندر کیبل کے ذریعے مضبوط بنائے گا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا کہنا تھا کہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پلان کو حقیقت کی شکل دی جائے۔

ان پروجیکٹس سے مشرق وسطیٰ کی معدنی تیل میں ڈوبی ہوئی معیشتوں کو اپنی معیشتوں کا انحصار معدنی تیل پر کم کرنے کا موقع ملے گا۔ ولسن سینٹر میں سائوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم ردعمل بن سکتا ہے۔ چین کے بی آر آئی منصوبے سے یورپ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں چینی اثرورسوخ، سرمایہ کاری اور معیشت کو فروغ ملا تھا۔ کوگلمین کے مطابق اگر یہ منصوبہ جس کا مقصد بھارت اور مشرق وسطیٰ کے مابین ارتباط کو طاقتور کرنا اور بی آر آئی کے منصوبے کور وکنا ہےوہ اگرکامیاب ہوجاتا ہے تو یہ گیم چینجر ہوگا۔ اس منصوبے پردستخط کرنے والوں کو امید ہے کہ بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ افراد کی منڈی کو مغرب سے منسلک کرکے اسے چینی انفراسٹرکچر پر خطیر اخراجت کے پروگرام کے نعم البدل کے طور پر لایاجاسکے گا۔ اس کے علاوہ اس سے مشرق وسطیٰ کی معیشتوں کو فروغ ملے گا جبکہ اسرائیل اور خلیج کی عرب ریاستوں کے مابین تعلقات بھی نارمل ہوسکیں گے۔

بہت ہی دلچسپ پہلو یہ ہے کہ G20 کی اٹھارویں کانفرنس کا موٹو: ’’ایک دھرتی، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘‘ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نعرے ’’انسانیت کے مشترکہ مقدر کی (عالمی) برادری جس کا مستقبل سانجھا ہو‘‘۔ کے ہم معنی ہے۔

جی 20 میں یقیناً بھارت ایک ابھرتی ایشیائی طاقت بن کر عالمی اسٹیج پر نمودار ہوا ہے لیکن نئی دہلی کو بھاجپا کے رنگوں اور مورتیوں سے اربوں روپے خرچ کر کے خوب سجایا تو گیا لیکن غریبوں کی جھونپڑیاں مسمار کر کے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا معاہدہ ہے لیکن ایسا گیم چینجر نہیں جیسا کہ گوادر، سی پیک اور بی آر آئی۔

گلف کے ممالک پہلے ہی زمینی راستے سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے اور باہمی تجارت کر رہے ہیں۔ صرف اسرائیل کی بندرگاہ کو استعمال کرنا ایک چونکا دینے والا اقدام ہے۔

ویسے بھی امریکی صدر نے کلینر کر دیا ہے کہ یہ ایک ریجنل انویسٹمنٹ ہے۔ یعنی اسکا بل انڈیا اور گلف ممالک دیں گے۔

بہرحال یہ نیا قدم معاہدہ ابراہام کی ایکسٹینش ہے جو یو اے ای سے حیفہ تک جائے گی اور اس میں انڈیا کو اب شامل کیا گیا ہے۔ لیکن قابل غور بات اس میں انڈیا کی زیر سمندر ٹنل کا 1000 کلومیٹر سے زائد کا منصوبہ ہے۔ آپ کے خیال میں یہ اگلے سال بن جائے گی ؟ نہیں یہ کم از کم 20 سال کا منصوبہ ہے۔

ہاں یہ سمٹ مودی کیلئے ضرور ایک گیم چینجر ہو سکتی ہے جو آنے والے دنوں میں الیکشن میں اسے ایک اسٹنٹ اور اپنے آپ کو عالمی لیڈر ہونے کے بیانئے کے ساتھ میدان میں اتریں گے

دوسری طرف پاکستان میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے پلیٹ فارم سے اوپن پاکستان کے حوالے سے نئی ویزا رجیم کے متعلق انتہائی اہم فیصلے لیے گئے ہیں جس کے تحت کاروباری افراد اور کاروبار سے منسلک بیرون ملک مقیم لوگ اگر پاکستان آنا چاہیں تو ان ممالک یا بین الاقوامی کاروباری اداروں کی جانب سے جاری ایک دستاویز پر ان کو آسانی سے پاکستان کے تمام مشنز ویزا کا اجرا کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے تمام چیمبرز اور کاروباری افراد پاکستان سے باہر کسی فرد کو ایسی دستاویز جاری کریں گے اس کی بنیاد پر اس فرد کو ویزا کے اجراء میں آسانیاں ہوں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ افراد کے ساتھ درمیانے اور بڑے کاروباری اداروں سے منسلک افراد کو بھی یہ آسان ویزا رجیم کی سہولیات میسر ہوں گی۔

پاکستان کاروبار اور معیشت کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جارہا ہے۔ جس میں یہ دونوں پراجیکٹس یعنی ون بیلٹ ون روڈ اور بھارت سے مشرق وسطیٰ کے راستے یورپ تک تجارتی راہداری منصوبے سے یکساں فوائد سمیٹ سکتا ہے۔

ذرا سوچئے !!

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: