مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپنی سیاسی قیادتوں کے غلام ہمارے نام نہاد نمائندے۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمر کے جس حصے میں داخل ہو گیا ہوں وہاں عموماً آپ کے کئی لمحات ”غم جہاں کے حساب“ میں صرف ہو جاتے ہیں۔ ”پارلیمان کی بالادستی“ 1985 سے میرے دل و دماغ پر حاوی رہی ہے۔ اس تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اس برس غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے انتخاب کی بدولت ”بحال“ ہوئی قومی اسمبلی کے بارے میں اسلام آباد سے نکالے غیر سرکاری اخبار ”دی مسلم“ کے لئے پریس گیلری لکھنے کا انتہائی لگن سے آغاز کیا تھا۔ بعد ازاں ”دی نیشن“ سمیت جس بھی انگریزی اخبار کے لئے کام کیا وہاں اسمبلی کی کارروائی پر تبصرہ میری اولین ذمہ داری رہی۔

منگل کی شام سے تاہم شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ ”پارلیمان کی بالادستی“ کے عشق میں جو 38 برس گزارے ہیں وہ وقت کا قطعی زیاں تھا۔ ”ہمارے“ نام نہاد ”نمائندے“ اب ہمارے نہیں رہے۔ اپنی سیاسی قیادتوں کے غلام بن چکے ہیں۔ ان دنوں قومی اسمبلی میں موجود اراکین کی بے پناہ اکثریت کے قائدین ”مقتدر“ افراد کے ساتھ ”سیم پیج“ پر اکٹھے ہو کر کرکٹ کی بدولت کرشمہ سازی سے بالآخر سیاست میں آ کر ”دیدہ ور“ ہوئے عمران خان کا ”مکو ٹھپنے“ کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کو مجبور محسوس کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ریاستی اداروں کو مزید اختیارات فراہم کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر نت نئے قوانین اور پہلے سے موجود جابرانہ قوانین میں مزید ترامیم ہو رہی ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل قومی اسمبلی کے اراکین مجوزہ قوانین کا مسودہ پڑھے بغیر ”منظور ہے۔ منظور ہے“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ان پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے۔ محض ایک سیاستدان اور اس کے حامیوں پر قابو پانے کے لئے جو لگامیں تیار ہو رہی ہیں ان کے دور رس اثرات کے بارے میں سوچنے کو کوئی ایک رکن اسمبلی بھی تیار نہیں۔ یہ سوچا ہی نہیں جا رہا کہ جس ”کلہاڑے“ کی دھار کو چمکایا جا رہا ہے وہ ایک دن مسلم لیگ (نون) ، پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے کارکنوں کے خلاف بھی ہر صورت استعمال ہو گا۔ جب یہ واقعہ ہو گا تو مذکورہ جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ رہ نما کس منہ سے مجھ ایسے سادہ لوح افراد سے حمایت کے طلب گار ہوں گے۔

اپنی قیادتوں کی خوشنودی کے لئے فدویانہ انگوٹھے لگانے کو ہمہ وقت تیار اراکین اسمبلی کی خاطر خواہ تعداد البتہ ایوان زیریں کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل ”فروغ تعلیم“ کے لئے بہت بے چین نظر آ رہی ہے۔ تقریباً ہر رکن اسمبلی کسی نہ کسی ”یونیورسٹی“ کے قیام کی منظوری کا طلب گار ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بچوں کی دل دہلا دینے والی تعداد پرائمری سکول بھی مکمل نہیں کر پاتی اب وہاں مزید 30 یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دی جا چکی ہے۔ منگل کی شب 14 مزید اداروں کو ”کلیئر“ کرنے کا ارادہ تھا۔ حکومتی اتحاد میں لیکن اختلافات رونما ہو گئے۔ وطن عزیز اس کی بدولت 14 مزید یونیورسٹیوں کے قیام سے ”بچ گیا“ ۔

مجھ جیسے نام نہاد پڑھے لکھے شخص کی جانب سے مزید یونیورسٹیوں سے محفوظ رہ جانے کے عمل پر خوشی و اطمینان کا اظہار اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ بدقسمتی مگر یہ رہی کہ اپنے بچپن میں مشن ہائی سکول رنگ محل لاہور گیا تھا۔ وہاں کے استادوں میں تعلیم سے محبت کو طالب علموں کی فطرت کا حصہ بنانے کی جو لگن دیکھی وہ آج بھی دل سے نکال نہیں پایا ہوں۔ سکول سے گورنمنٹ کالج لاہور گیا تو وہاں بھی علم سے عشق کے علاوہ زندگی کے کسی اور پہلو کو اہم شمار نہ کر پایا۔ میرا کالج مگر اب کالج نہیں رہا ”یونیورسٹی“ بن چکا ہے۔ یقین مانیں جب سے اس کی شناخت بدلی ہے میں ایک لمحے کو بھی کالج کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے اندر داخل ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ لاہور جاتا ہوں تو مختلف تقاریب میں ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے جو بہت فخر سے خود کو ”جی سی یو“ کا طالب علم بتاتے ہیں۔ ان سے گفتگو مگر جی اداس کر دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کالج سے فارغ التحصیل ہوئے ”راوین“ کی مخصوص چال ڈھال اور انداز کلام ہوتا تھا۔ ”یونیورسٹی“ نے وہ تخصیص چھین لی ہے۔

تعلیم اب دھندا بن چکا ہے۔ مقصد اس کا طالب علم کے ذہن کی کشادگی نہیں۔ اس کی صلاحیتوں کو ہنرمندی کی صورت دنیا بھی مقصود نہیں۔ بھاری بھر کم فیس بٹورنے کے بعد ”اعلیٰ تعلیمی ادارے“ آپ کو ”ڈگری“ کے نام پر ایک کاغذ ہی دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر مستند شمار ہوتے تعلیمی اداروں میں لیکن اس کی قدر نہیں ہوتی۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی اس سے بڑی بے قدری کیا ہوگی کہ برطانیہ یا امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے لازمی ہے کہ آپ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سسٹم کے تحت انگریزی زبان پر اپنی ”گرفت“ ثابت کرنے والا امتحان پاس کریں۔ صحافت کی بدولت مجھے 1986 میں چھ مہینے امریکہ کے فیلچر سکول آف لا اینڈ ڈپلومیسی میں چھ ماہ کا ایک کورس کرنا پڑا تھا۔ میں اکثر اپنے استادوں کی لکھی انگریزی کو ”امریکی“ پکارتے ہوئے اس میں موجود ”غلطیوں“ کی نشاندہی کرتا اور ”دیسی“ ہوتے ہوئے بھی اس زبان پر اپنے ”کمال“ پر اترائے ہوئے رہتا۔

مجھے دکھ ہوا کہ ”ہمارے“ نمائندے محض پیسہ کمانے کی خاطر مضحکہ خیز ناموں سے بنائی نئی ”یونیورسٹیوں“ کے قیام کو باقاعدہ بنانے کے لئے بے چین رہے۔ ان کی بے چینی نے یقیناً یہ پیغام دیا کہ موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل ”دیہاڑی“ لگائی جا رہی ہے تاکہ آئندہ انتخاب لڑنے کے لئے کچھ نقدی بھی جمع ہو سکے۔ نہایت خلوص سے فقط یہ دعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ ”ہمارے نمائندوں“ نے نئی ”یونیورسٹیوں“ کے قیام کے ضمن میں جو بے تابی دکھائی ہے اس کا واحد مقصد فروغ تعلیم ہی تھا۔ ”دیہاڑی“ ہرگز مقصود نہ تھی۔ ”دیہاڑی“ اگر نہیں بھی لگی تب بھی اراکین قومی اسمبلی اور ان کی جماعتوں کی اجتماعی ساکھ کو ریاستی اداروں کو مزید اختیارات دینے والے قوانین کی برق رفتار منظوری نے ناقابل تلافی نقصان پہنچائے ہیں۔ ان کی آئندہ کئی برسوں تک تلافی نہیں ہو پائے گی۔

(بشکریہ نوائے وقت)

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: