مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دوغلے پن سے عبارت افغان پالیسی کے بھیانک نتائج ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک سے زائد بار ان سطور میں عرض کرچکا کہ امریکہ اور افغان طالبان کی جنگ میں افغان طالبان کی امارت سے اتحاد کرکے مبینہ جہاد میں شرکت کرنے والے مختلف الخیال غیرافغان گروپوں اور امارات اسلامی افغانستان کے درمیان معاہدہ یہی تھا کہ مبینہ افغان جہاد کی کامیابی کی صورت میں امارات افغانستان اپنے ان اتحادی گروپوں کی اسی طرح مدد کرے گی جیسے یہ گروپ ان کے ساتھ امریکہ کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں۔

یہ ایک پہلو ہے اس سارے معاملے یعنی پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوی کی کارروائیوں کا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیا پچھلے اڑھائی تین عشروں کے دوران اقتدار میں رہنے والی حکومتیں افغان طالبان کے لئے پاکستان سے افرادی قوت اور مالی وسائل فراہم کرنے کے سلسلے کو روک پائیں؟

اس کا جواب بہت سادہ ہے ’’جی نہیں‘‘۔

ہم بہت آسانی کے ساتھ اس کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یقیناً اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک نہیں بڑی حد تک اس صورتحال کی ذمہ دار ہے مگر اس عرصہ میں اقتدار میں آنے والی سول حکومتوں نے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کیوں برتی؟

ہمیں جنرل پرویز مشرف کے دور سے صورتحال کو بطور خاص سمجھنا ہوگا۔ جنرل صاحب کے دور میں حکومت یا ریاست پاکستان ایک طرف امریکہ اور نیٹو کی اتحادی تھا دوسری جانب طالبانائزیشن کی پرورش بھی جاری رہی۔ تب ہمیں خطے اور خصوصاً افغانستان میں پاکستانی مفادات کی پھکی فروخت کی جاتی رہی

بتایا گیا کہ افغانستان میں قائم امریکہ نواز حکومتیں بھارت کے زیراثر ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے افغانستان میں اپنے سفارتی حکام کے تعاون سے ایک وسیع و عریض مضبوط نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجئے کہ دوغلی افغان پالیسی کی پردہ پوشی بھارت دشمنی کے لئے موجود جذبات سے کی گئی۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں عمومی تاثر یہ تھا کہ حکومت پاکستان انسداد دہشت گردی کے لئے امریکہ کی اتحادی ہے مگر حقیقت میں افغان جہاد کی حامی بڑی قوتیں ایم ایم اے کا نقاب اوڑھے مشرف حکومت کی پشت پناہ رہیں۔

حالانکہ اسی عرصہ میں القاعدہ کے بڑے بڑے مطلوب دہشت گرد پاکستان کے مختلف شہروں سے جماعت اسلامی کے ’’بڑوں‘‘ کے گھروں سے گرفتار ہوتے رہے۔ خالد شیخ کی راولپنڈی سے گرفتاری کو یاد کیجئے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ ہماری سرکاری افغان پالیسی کبھی بھی پاکستان کے وسیع تر مفاد میں استوار نہیں ہوئی ہمیشہ کاروباری و جہادی طبقات کے مفادات کو ہی مدنظر رکھا گیا ان مفادات کی وجہ سے ایک خاص فہم کے دین دار طبقے کے مدارس و مراکز بمعہ مساجد جہادی دعوت، افرادی قوت کی ذہن سازی اور جہاد کے لئے عطیات جمع کرنے کے لئے استعمال ہوئے ۔

مشرف حکومت کی دوغلی افغان پالیسی اور پاکستان سے افغان جہادیوں کی مالی اعانت کے جاری سلسلے پر اس دور میں ان سطور میں عرض کیا تھا

’’کیا حکومت اس امر سے لاعلم ہے کہ بھتہ خوری اور بینک ڈکیتیوں میں کالعدم تنظیموں کے ارکان ملوث ہیں” ۔

ٹی ٹی پی کے دو سربراہوں بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کی ٹارگٹ ہلاکتوں کے وقت علاقائی اور بین الاقوامی میڈیا میں مالیاتی حوالوں سے جو خبریں سامنے آئیں اس پر ہمارے پالیسی سازوں نے ٹھٹھہ اڑایا

لیکن یہی پالیسی ساز سواتی طالبان کے خلاف آپریشن کے دنوں میں اعتراف کرتے تھے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اپنے جنگجوئوں کو معاوضہ فراہم کرتی ہے۔

سوال اٹھایا گیا کہ یہ معاوضہ وہ کہاں سے دیتے ہیں۔ جواب میں بھارتی امداد کا چورن پیش کیا گیا حالانکہ 2009ء سے 2010ء تک مختلف سطح پر یہ اعتراف کیا جاتا رہا کہ دہشت گردی میں سرحد کے دونوں طرف سرگرم عمل تنظیموں کو مالی وسائل پاکستان سے ہی فراہم ہوتے ہیں۔

غالباً 2013ء اور 2014ء میں صوبہ پنجاب اور سندھ کے ان دینی مدارس کی فہرست سامنے آئے جو جہادی جتھوں کے لئے چندہ جمع کرتے تھے تب معاملہ اس لئے دبادیا گیا کہ ان مدارس کا مسلکی طور پر جس مکتب فکر سے تعلق تھا اس مکتب فکر کی بڑی سیاسی جماعت جے یو آئی (ف) حکومت کی اتحادی تھی۔

کسی لگی لپٹی کے بغیر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس طرح ایرانی اسلامی انقلاب مکتب امامت کے خمیر سے عبارت ہے اسی طرح افغانستان کی امارات اسلامی کا خمیر مکتب خلافت کے دیوبندی گروہ سے عبارت ہے۔

پاکستان کی تقریباً تمام دیوبندی تنظیمیں مسلکی بنیادوں پر افغان طالبان کی حامی ہیں۔ ان تنظیموں نے اس امر سے پردہ پوشی کیوں کی کہ افغان طالبان اپنی سرزمین پر ان ہم خیال جنگجوئوں کو تربیت کیوں دیتے ہیں جو پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کو جہاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

یہاں بھی مسلکی ووٹوں کی مجبوری سبھی کے آڑے رہتی ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گری کو تین افغان ادوار سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔

پہلا دور سوویت امریکہ جنگ کا ہے جسے ہمارے یہاں جہاد اسلامی کے طور پر متعارف کروایا گیا۔

دوسرا دور افغانستان سے سوویت یونین کے انخلاء (یہ جنیوا معاہدہ کے بعد ہوا) کے بعد پھوٹنے والی خانہ جنگی کا ہے۔

تیسرا دور اس خانہ جنگی کے ردعمل میں طالبان کے ظہور، ان کی حکومت، 9/11 کے بعد کی صورتحال اوراب امریکی انخلاء کے بعد کی صورتحال تک ہے۔ ان تینوں ادوار میں پاک افغان سرحد بس نام کی سرحد تھی۔

ان ادوار میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے ایک بڑے حصے نے اولاً اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو جہادی جنگ میں جھونکا۔ سوویت انخلا کے بعد کی افغان خانہ جنگی میں پاکستان کی تقریباً ہر مسلک کی تنظیم نے اپنے ہمدردوں کو افغان خانہ جنگی کا حصہ بننے والے ہم مسلک گروہ کا ساتھ دینے کی آزادی دی۔

ان حالات میں سب سے زیادہ خام مال افغان دیوبندی گروہوں، سلفی تنظیموں کو حاصل ہوا۔

جماعت اسلامی البتہ تینوں ادوار میں مستقل مزاجی کے ساتھ کابل کے قصائی کے طور پر شہرت پانے والے ایسوسی ایٹ انجینئر گل بدین حکمت یار کی حزب اسلامی کے ساتھ کھڑی رہی۔ ایک مرحلہ پر اس نے الگ سے دو جہادی گروپ بھی پالے۔ اولاً البدر مجاہدین اور ثانیاً سیف اللہ والا گروپ۔

پڑھنے والوں کو اب تک کی بالائی سطور تمہیدی سطور ہی لگیں گی۔ ایسا ہی ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ جو لوگ (مذہبی رہنما) ایک طرف فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کررہے ہوتے ہیں یہی رہنما قاتلوں کے جنازے پڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیتے ہیں۔

خیر ہم اس سے سوا بات کررہے ہیں۔ عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ افغان انقلاب ثور کے بعد سے افغانستان کے حوالے سے ہم اجتماعی ملی منافقت کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں۔

بالائی سطور میں جن تین افغان ادوار کا ذکر کیا ان ادوار میں اسلحہ، جہادی تجارت منشیات اور دیگر اشیا کی سمگلنگ وغیرہ کے کاروبار خوب پھلے پھولے۔ ڈالرز کی سمگلنگ ہمیشہ مرغوب ہوئی۔

اہل پاکستان کو لاشیں، بم دھماکے اور قبریں ملیں لیکن سرکاری و غیرسرکاری تاجروں کے وارے نیارے ہوگئے۔ آج ایک نئی مسلکی جنگ ہماری سرزمین پر داخل ہوچکی ہے۔

باجوڑ کے حالیہ سانحہ کے بعد لکھے گئے دو کالموں میں تفصیل کے ساتھ اس نئی مسلکی جنگ کے پس منظر اور مستقبل کے حوالے سے عرض کرچکا۔

باردیگر عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ افغان پالیسی کے ریاستی و غیرریاستی تاجروں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ وہ ملک کو کدھر لے جارہے ہیں۔

ہم کیوں پچھلے 45 برسوں کی افغان پالیسی کے اس معاشی نقصان کو بھول جاتے ہیں جس کا بوجھ عام آدمی کی گردن پر پڑا؟

کیوں ہم ریاستی و مذہبی تاجروں کے مفادات کو افغان پالیسی کا سرنامہ بنائے ہوئے ہیں۔ ہمارے پالیسی ساز اس ملک کے عام شہری کا درد کیوں محسوس نہیں کرتے؟

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: