اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چیئرمین سینٹ کی جانب سے مخدوم شاہ محمود کو کیچڑ اچھالنے کی سہولت|| نصرت جاوید

جمعہ کے روز گیلانی صاحب نے ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے لئے فلور مانگا تو حکومتی صفوں سے دہائی مچائی جائے گی کہ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلہ کو بھلاتے ہوئے قائد حزب اختلاف ذاتی وضاحت کو مرے جارہے ہیں۔مسئلہ کشمیر کی بابت ’’بے حسی‘‘کا طعنہ اپوزیشن کو دفاعی کونے میں چپ چاپ دبک کر بیٹھ جانے کو مجبور کردے گا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’نیاپاکستان‘‘ میں لوگوں کی بے رحمانہ تذلیل سے لطف اندوز ہونے کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ عمران خان صاحب او ر ان کے حامیوں کا دوسروں کی بھد اُڑانے کے عمل پر مکمل اجارہ ہے۔ خود کو پارسائوں جیسا نیکوکار سمجھتے ہوئے وہ اپنے ہر مخالف کو ’’بکائو،جھوٹا اور بدکردار ‘‘تصور کرتے ہیں۔ان سے ہاتھ ملانے کو بھی آمادہ نہیں۔

چند ہی روز قبل وزیر اعظم صاحب نے عام پاکستانیوں کے مبینہ طورپر ’’براہ راست‘‘ فون لیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں بیان کردیا تھا کہ وہ شہباز شریف کو سیاست دان اور قومی اسمبلی میں قائدحزب اختلاف نہیں بلکہ ’’مجرم‘‘ سمجھتے ہیں۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں وہ اس لئے شریک نہیں ہوتے کیونکہ وہاں بیٹھے ’’گھٹیا‘‘ لوگ ان پرآوازیں کستے ہیں۔

ایسے ماحول میں شاہ محمود قریشی صاحب نے منگل کے روز یوسف رضا گیلانی کی ذات کو نشانہ بنانے والی جو تقریر سینٹ کے اجلاس میں فرمائی ہے اس نے کم از کم مجھے تو حیران نہیںکیا۔ ملتان سے نمودار ہوئے ’’مخدوم‘‘ کے مقابلے میں سینٹ کے چیئرمین کا رویہ بلکہ مزید پریشان کن تھا۔ موصوف نے شاہ محمود قریشی کو ڈھٹائی سے خوشامدانہ سہولت کاری فراہم کی۔واضح پیغام دے دیا کہ ان کے چیئرمین سینٹ ہوتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا کوئی ایک شخص بھی خود کو حکومتی صفوں سے اچھالے کیچڑ سے محفوظ تصور نہ کرے۔

صادق سنجرانی نے اپنے ایوان کے قائد حزب اختلاف اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں بے رحمانہ تذلیل کے لئے جو کردار ادا کیا اسے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یاد رکھا جائے کہ پارلیمان کے قواعد وضوابط میں ’’پالیسی بیان‘‘ نامی شے کا ذکر بھی ہے۔اس کی بدولت وفاقی کابینہ کا کوئی بھی رکن قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس میں کسی بھی وقت نمودار ہوکر حکومت کی کسی پالیسی کی وضاحت یا دفاع کا حق رکھتا ہے۔’’پالیسی بیان‘‘ مگر تحریری صورت میں لکھا ہونا چاہیے۔اسے پڑھنے کے بعد متعلقہ وزیر اراکین پارلیمان کی جانب سے اٹھائے کسی سوال کا جواب دینے کا پابند بھی نہیں ہوتا۔ یہ دونوںنکات ذہن میں رکھے بغیر آپ سنجرانی کی فراہم کردہ سہولت کاری کو جان نہیں پائیں گے۔

منگل کے روز سینٹ کا اجلاس ختم ہونے سے چند ہی لمحے قبل شاہ محمودقریشی دندناتے ہوئے ایوان بالا میں وارد ہوئے۔وہ اپنی نشست پر براجمان تھے کہ سینٹ چیئرمین نے انہیں ’’پالیسی بیان‘‘ پڑھنے کی دعوت دی۔ ان کی ’’دعوت‘‘ سے واضح ہوگیا کہ صادق سنجرانی کو پہلے ہی سے شاہ محمود قریشی کو مائیک دینے کا حکم مل چکا تھا۔ وزیر خارجہ جب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کے ہاتھ میں کوئی تحریری بیان نہیں بلکہ کاغذ پر لکھے چند نکات تھے۔

ابتداََ انہوں نے تاثر یہ دیا کہ وطن عزیز کے وزیر خارجہ ہوتے ہوئے وہ قوم کویقین دلانا چاہ رہے ہیں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری عطا کرتے ہوئے پاکستان نے ’’قومی خودمختاری ’’ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ شاطرانہ مہارت سے وہ یہ حقیقت نظرانداز فرماگئے کہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ-آئی ایم ایف-گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان پر سٹیٹ بینک کو کامل خودمختاری فراہم کرنے کا دبائو بڑھارہا تھا۔اس ضمن میں تیار ہوئے قانون کا مسودہ بارہا آئی ایم ایف کو منظوری کے لئے بھیجا گیا۔باقاعدہ اور غیر سرکاری رابطوں کے ذریعے آئی ایم ایف سے یہ درخواست بھی ہوتی رہی کہ وہ مطلوبہ قانون کی چند شقوںکو ’’نرم‘‘رکھنے میں آمادہ ہوجائے۔ آئی ایم ایف والے مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خودمختاری فراہم کرنے والے قانون کے سرسری دفاع کے بعد شاہ محمود قریشی صاحب نے اپنی توپوں کا رُخ یوسف رضا گیلانی کی جانب موڑ دیا۔قائد حزب اختلاف کے خلاف دانت پیستے ہوئے الزام لگایا کہ وہ قومی اسمبلی سے ووٹ ’’خرید‘‘ کر سینٹ میں درآئے ہیں۔ووٹوں کی مبینہ خریداری کے لئے یوسف رضا گیلانی کے فرزند جو رابطے کررہے تھے وہ ویڈیو پر ریکارڈ ہوچکے ہیں۔ ان کی بنیاد پر الیکشن کمیشن میں گیلانی صاحب کا انتخاب بھی چیلنج ہوگیا۔

ایوان بالا کا نام نہاد ’’محافظ(Custodian)‘‘ ہوتے ہوئے صادق سنجرانی ایک لمحہ کو بھی یہ جرأت نہیں دکھاپائے کہ شاہ محمود قریشی کو آگاہ کریں کہ ’’پالیسی بیان‘‘ محض کسی حکومتی اقدام کی وضاحت یا دفاع کے لئے تحریری طورپر تیار کیاجاتا ہے۔وزراء ایسے بیان کو کسی سیاسی مخالف کے خلاف رکیک فقرے بازی کے لئے استعمال نہیں کرسکتے۔سنجرانی کی خاموشی نے شاہ محمود قریشی کو بلکہ کھلامیدان فراہم کردیا۔

تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نما ہوتے ہوئے بھی شاہ محمود قریشی نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے درد مند ہوجانے کا ڈرامہ بھی رچاتے رہے۔نہایت فکرمندی سے انہیں متنبہ کرتے رہے کہ وہ یوسف رضا گیلانی کو ملتانی ہوتے ہوئے کئی برسوں سے بخوبی جانتے ہیں۔ وہ مصر رہے کہ:’’یہ شخص بکائو ہے۔جان بوجھ کر گزرے جمعہ کے دن سینٹ کے اجلاس سے غیر حاضر رہا۔‘‘

شاہ محمود قریشی پریشان تھے کہ یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ (نون) کو مسلسل ’’دھوکے‘‘ میں رکھے ہوئے ہیں۔ موصوف نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سینٹ کے چیئرمین منتخب ہو بھی نہ پائے تو قائد حزب اختلاف کا منصب اس جماعت کے نامزد کردہ شخص کے پاس دیکھنا چاہیں گے۔ گیلانی صاحب مگر جب چیئرمین سینٹ منتخب ہونے میں ناکام ہوگئے تو بقول قریشی حکومتی صفوں سے اپوزیشن بنچوں کی جانب آئے دلاور خان گروپ کی مدد سے قائد حزب اختلاف کے منصب پر قابض ہوگئے۔مسلم لیگ (نون) نجانے کیوں دھوکہ دہی کی اس واردات کو بھول چکی ہے۔

وزیر خارجہ کی تقریر سنتے ہوئے کئی بار مجھے یہ گماں ہوا کہ جیسے دل سے وہ بھی سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مختاری دینے والے قانون کی منظوری نہیں چاہ رہے تھے۔انہیں دُکھ ہے کہ مذکورہ قانون کی منظوری روکنے کو یقینی بنانے کے لئے قائد حزب اختلاف گزرے جمعہ کے دن اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ وفاقی حکومت کے اہم ترین وزیر ہوتے ہوئے بھی شاہ محمود قریشی حقارت سے یہ تاثر بھی پھیلاتے رہے کہ جیسے نادیدہ قوتوں نے گیلانی صاحب کی غیر حاضری یقینی بنائی۔فرض کیا کہ شاہ محمود قریشی صاحب کا یہ تاثر درست بھی ہے تو عمران حکومت اور اس کے وزراء کو اس ضمن میںنام نہاد نادیدہ قوتوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ان کی مبینہ مدد میسر نہ ہوتی تو پاکستان کا ایوان بالا سٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری والا قانون مسترد کردیتا۔ وہ مسترد ہوجاتا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی ’’امدادی رقم‘‘بھی میسر نہ ہوتی۔ یوسف رضا گیلانی صاحب نے شاہ محمود قریشی کے بقول اگر واقعتا ’’کسی اور‘‘ کے اشارے پر عمران حکومت کو کمک فراہم کی ہے تو ان جیسے اہم وزراء کو اس کی بابت بردبار خاموشی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ شکر گزاری مگر خودکو خاندانی رئیس اور پاک باز ’’مخدوم‘‘تصور کرتے افراد کا شیوہ نہیں۔وہ اس دھرتی پر موجود ہر انسان سے مریدوں والی اطاعت گزاری کی توقع رکھتے ہیں۔اپنی انا کے خول میں بند ہوئے یہ سوچنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ان کے ہذیانی کلمات درحقیقت کیا پیغام دے رہے ہیں۔

سینٹ کا چیئرمین ہوتے ہوئے صادق سنجرانی کا یہ بھی فرض تھا کہ شاہ محمود قریشی کی ’’پالیسی بیان‘‘ کے نام پر یوسف رضا گیلانی کی بھد اڑانے والی تقریر کے بعد یوسف رضا گیلانی کو ’’ذاتی وضاحت‘‘ والا حق فراہم کرتے۔انہوںنے اس کا تردد بھی نہیں کیا۔ ۔جیسے ہی قریشی صاحب کی دھواں دھار تقریر ختم ہوئی تو اجلاس کو جمعہ کی صبح تک مؤخر کردیا۔

گیلانی صاحب شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران قابل ستائش صبر اور بردباری کے ساتھ اپنی نشست پر براجمان رہے۔اجلاس ختم ہونے کے بعد اپنے چیمبر میں آئے صحافیوں کو نہایت تحمل سے مطلع کیا کہ وہ جمعہ کی صبح شاہ محمود قریشی کی تقریر کا جواب سینٹ اجلاس کے دوران ہی دیں گے۔گیلانی صاحب کو شاید خبر نہیں کہ صادق سنجرانی نے جمعہ کا اجلاس فقط کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کیلئے مختص کردیا ہے۔اس روز کسی اور موضوع کو زیر بحث لانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان بھی کررکھا ہے۔

جمعہ کے روز گیلانی صاحب نے ’’ذاتی وضاحت‘‘ کے لئے فلور مانگا تو حکومتی صفوں سے دہائی مچائی جائے گی کہ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلہ کو بھلاتے ہوئے قائد حزب اختلاف ذاتی وضاحت کو مرے جارہے ہیں۔مسئلہ کشمیر کی بابت ’’بے حسی‘‘کا طعنہ اپوزیشن کو دفاعی کونے میں چپ چاپ دبک کر بیٹھ جانے کو مجبور کردے گا۔ یوں ایوان میں وزیر خارجہ کی وہی تقریر گونجتی رہے گی جو منگل کے روز سینٹ اجلاس کے آخری لمحات میں انہوں نے صادق سنجرانی کی بھرپور مدد سے یوسف رضا گیلانی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے لئے فرمائی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: