اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گیلانی کا ’’عذر گناہ بدتراز گناہ‘‘|| نصرت جاوید

گیلانی صاحب پارلیمان میں نووارد نہیں۔ 1985ء میںپہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔1993-96ء تک کام کرنے والی قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ بطور وزیر اعظم وہ 2008ء سے سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہوئی اپنی نااہلی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں۔اپنے ٹھوس اور طویل تجربہ کی بنیاد پر ا نہیں ’’اچانک‘‘ والا عذر پیش کرنے سے قبل سو بار سوچنا چاہیے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یوسف رضا گیلانی صاحب سے التجا فقط اتنی ہے کہ گزرے جمعہ کے روز ہوئے سینٹ کے اجلاس سے اپنی عدم موجودگی کے دفاع میں ’’بدترازگناہ‘‘ والے بہانے نہ تراشیں۔دل بڑاکریں۔کھل کر اعتراف کریں کہ مذکورہ ایوان میں قائد حزب اختلاف ہوتے ہوئے بھی ان کا اس قانون کی منظوری کو روکنے کا ارادہ ہی نہیں تھا جس کے ذریعے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر اور دیگر افسروں کو ’’سات خون معاف‘‘ والی خودمختاری فراہم کردی گئی ہے۔حکومت نے یہ قانون ایک ووٹ کی اکثریت سے منظور کروالیا۔اپوزیشن کی نشستوں سے گیلانی صاحب سمیت آٹھ لوگ غائب نہ ہوتے تو حکومت اسے سرعت ورعونت سے ہرگز بل ڈوز نہ کرپاتی۔

اپنی مضحکہ خیز شکست کے جواز میں اپوزیشن بہانہ تراش رہی ہے کہ جمعرات کی رات جمعہ کی صبح طلب کئے اجلاس کے ایجنڈے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان والا قانون ’’اچانک‘‘ شامل کردیا گیا۔اسلام آباد سے کہیں دور شہروں میں بیٹھے اپوزیشن والے اس روز ایوان بالا پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ان کی عدم دستیابی کا حکومت نے مکاری سے فائدہ اٹھالیا۔’’اچانک‘‘ والا بہانہ مگر ہر حوالے سے بچگانہ اور بے بنیاد ہے۔

سینٹ کے رواں اجلاس کا بنیادی مقصد ہی سٹیٹ بینک آف پاکستان والے قانون کو منظور کروانا تھا۔اس کے علاوہ کسی اور قانون کو حکومت فی الفور منظور کروانا نہیں چاہ رہی۔وسیع تر تناظر کو ذہن میں رکھنا بھی لازمی ہے۔عمران حکومت نے 2019ء میں عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ہماری معیشت بحال کرنے اور اسے توانا بنانے کی بنیاد پر ایک معاہدہ پر دستخط کئے تھے۔اس معاہدے کی بدولت پاکستان کو مختلف اقساط میں ستمبر2022ء تک 6ارب ڈالر فراہم کئے جائیں گے۔عموماََ ہر قسط 500ملین ڈالر پر مشتمل ہوتی ہے۔ہمیں اگرچہ اب ایک نہیں بلکہ دو اقساط درکار ہیں۔ایک ارب ڈالر کے حصول کے لئے مگر لازمی تھا کہ شوکت ترین صاحب منی بجٹ کے ذریعے 377ارب روپے کی اضافی رقم منی بجٹ کے ذریعے حاصل کرنے کا یقین دلائیں۔اس کے علاوہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری والا قانون منظور کروانا بھی ضروری تھا۔

یہ بات یقینی ہے کہ منی بجٹ وطن عزیز میں مہنگائی کو شدید تر بنائے گا۔ اس جان لیوا امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپوزیشن رہ نمائوں نے بڑھکیں لگانا شروع کردیں کہ عوام کے غم خوار ’’نمائندہ‘‘ ہوتے ہوئے تحریک انصاف کے 20سے زیادہ اراکین بھی منی بجٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالنا نہیں چاہ رہے۔ ’’بغاوت‘‘ کے اظہار کے لئے حزب اختلاف سے رابطے کررہے ہیں۔آج سے دو ہفتے قبل تاہم جب منی بجٹ قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش ہوا تو حکومتی صفوں میں سے ایک رکن اسمبلی بھی اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی جرأت نہ دکھاپایا۔فدویانہ ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت نے بلکہ ایک ہی نشست میں منی بجٹ کے علاوہ 15مزید قوانین بھی منظور کروالئے۔ اپوزیشن مگر ’’اب کے مار‘‘ والی خوداذیتی پر ڈٹی رہی۔

’’مالیاتی قانون‘‘ ہوتے ہوئے منی بجٹ کو سینٹ سے منظوری درکار نہیں ہوتی۔سٹیٹ بینک کی خودمختاری والا قانون مگر وہاں بھیجنا ضروری تھا۔ نظر بظاہر 100اراکین پر مشتمل ایوان بالا میں 57سینیٹر اپوزیشن کی نشستوں پر براجمان ہیں۔یوسف رضا گیلانی صاحب ان کے قائد ہیں۔ نظر آنے والے یہ نمبر مگر حقیقیتاََ دو نمبر ہیں۔ مجرمانہ دھوکہ۔جو 57اراکین ان دنوں سینٹ میں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے نظر آرہے ہیں ان میں سے 6کا تعلق نام نہاد دلاور خان گروپ سے ہے۔ دلاور خان ایک کاروباری آدمی ہیں۔حکومت اور خاص کر ایف بی آر سے ہمیشہ خوفزدہ۔ موصوف پاکستان مسلم لیگ (نون) کی مدد سے سینٹ میں وارد ہوئے تھے۔’’معززرکن‘‘ بن جانے کے بعد مگر اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ میں مصروف ہوگئے۔

گزشتہ مارچ میں انہوں نے سینٹ چیئرمین کو ایک چٹھی لکھ کر مطلع کیا کہ وہ اور ان کے پانچ ساتھی حکومتی بنچوں پر نہیں بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنا چاہ رہے ہیں۔یوسف رضا گیلانی کو انہوں نے اپنا قائد بھی تسلیم کیا۔ دلاور خان گروپ کی حمایت کے بعد گیلانی صاحب کو قائد حزب اختلاف کا منصب حاصل کرنے کے لئے مسلم لیگ (نون) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار نہ رہی۔ انہیں اور خاص طور پر مسلم لیگ (نون) کو حقارت سے نظرانداز کرتے ہوئے گیلانی صاحب یہ حقیقت بھی فراموش کرگئے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں ان کا اسلام آباد سے سینٹ پہنچنا درحقیقت تحریک انصاف کے ان اراکین قومی اسمبلی کی حمایت سے ممکن ہوا جو آئندہ انتخاب میں نواز شریف سے منسوب جماعت کی ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔

قائد حزب اختلاف کے منصب پر براجمان ہوجانے کے بعد گیلانی صاحب نے یہ حقیقت بھی کمال فراخ دلی سے فراموش کردی کہ جس روز سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہونا تھا اس دن پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر اور مسلم لیگ (نون) کے ڈاکٹر مصدق ملک نے باہمی مشقت سے ایوان بالا میں نصب ہوئے جاسوسی کیمرے دیوار سے اکھاڑ کر ہوا میں لہرائے تھے۔ان کیمروں کا مبینہ مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کس سینیٹر نے چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں کس امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالا ہے۔یہ ’’نگرانی‘‘ امریکہ کے واٹر گیٹ سکینڈل جیسا واقعہ تھا جس نے ایک طاقت ور ترین صدر نکسن کو بالآخر استعفیٰ دینے کو مجبور کیا۔گیلانی صاحب اور ان کے حامی اگر واقعتا ایوان بالا کے ’’وقار‘‘ کے بارے میں فکر مند ہوتے تو صادق سنجرانی صاحب کو مجبور کیا جاتا کہ اس ہائوس کی ایک کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر ہوئی تحقیقات کے ذریعے سراغ لگائے کہ کیمرے اگر واقعتا نصب ہوئے تو اس کا ذمہ دار کون تھا۔ گیلانی صاحب مگر سینٹ کی تذلیل اس گماں میں مبتلارہتے ہوئے بھول بھال گئے کہ وہ اس ایوان میں قائد حزب اختلاف بن کرپارلیمان اور جمہوریت کو ’’وقار‘‘ فراہم کررہے ہیں۔

دلاور خان کی قیادت میں جو گروپ ان کے ساتھ اپوزیشن نشستوں پر بیٹھا ہے اس کے اراکین نے چند ہفتے قبل پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس میں بھی کھل کر حکومت کا ساتھ دیا جہاں ایک ہی روز 33قوانین منظور ہوئے تھے۔ بطور قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی کا یہ سیاسی اور اخلاقی فرض تھا کہ وہ باقاعدہ چٹھی لکھ کر دلاور خان اور ان کے ہم نوائوں سے استفسار کرتے کہ سینٹ میں اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے ہوئے بھی انہوں نے حکومت کی حمایت میں ووٹ کیوں ڈالا۔ان کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ آنے کی صورت میں چیئرمین صادق سجرانی صاحب سے باقاعدہ درخواست ہونا چاہیے تھی کہ دلاور خان اور ان کے ساتھیوں کو اپوزیشن تصور نہ کیا جائے۔وہ اپنے لئے ’’آزاد‘‘ نوعیت کا نام اختیار کریں اور اپوزیشن سے الگ نشستوں پر براجمان ہوں۔گیلانی صاحب نے اس ضمن میں بھی کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔

گیلانی صاحب پارلیمان میں نووارد نہیں۔ 1985ء میںپہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔1993-96ء تک کام کرنے والی قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ بطور وزیر اعظم وہ 2008ء سے سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہوئی اپنی نااہلی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں۔اپنے ٹھوس اور طویل تجربہ کی بنیاد پر ا نہیں ’’اچانک‘‘ والا عذر پیش کرنے سے قبل سو بار سوچنا چاہیے۔

پاکستان کو جو ایک ارب ڈالر درکار ہیں اس کی منظوری آئی ایم ایف کے بورڈ آف گورنر نے دینا ہے۔پاکستان کو واضح الفاظ میں بتادیا گیا تھا کہ منی بجٹ اور سٹیٹ بینک والے قانون کی منظوری کے بغیر مطلوبہ رقم میسر نہیں ہوگی۔ اس ضمن میں قطعی فیصلہ کرنے کے لئے آئی ایم ایف نے اپنے بورڈ آف گورنر کا اجلاس 12جنوری کے روز طلب کرلیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے استدعا ہوئی کہ مطلوبہ قوانین منظور کروانے کے لئے اسے تھوڑی مہلت دی جائے۔آئی ایم ایف نے پہلے 28اور پھر 31جنوری کی تاریخ دی۔ بالآخر گزرے منگل کے دن آئی ایم ایف نے فروری کی 2تاریخ فکس کردی۔ اس تاریخ کا تعین واضح طورپر عندیہ دے رہا تھا کہ حکومت اس دن تک سینٹ سے سٹیٹ بینک آف پاکستان والا قانون بھی ہر صورت منظور کروالے گی۔ اس ضمن میں کچھ بھی ’’اچانک‘‘نہیں ہوا۔

مذکورہ قانون منظور کروانے کے لئے حکومت نے نہایت سوچ بچار کیساتھ ایک ٹھوس حکمت عملی تیار کی۔صادق سنجرانی نے اسے تیار کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا۔مذکورہ حکمت عملی کی کامیابی یقینی بننے کے بعد سنجرانی صاحب وزیر اعظم عمران خان صاحب کے روبرو ’’پراگرس رپورٹ‘‘ دینے بھی پہنچ گئے۔ اس روز وزیر اعظم کے دفتر جاکر اپنے بھائی کی ناگہانی وفات کا پرسہ وصول کرتے ہوئے انہوں نے ’’نیا پاکستان‘‘ میں نئی ثقافتی روایت بھی متعارف کروادی۔ مذکورہ ملاقات کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستا ن والے قانون کی سینٹ سے منظوری دیوار پر لکھی ہوئی نظر آئی۔گیلانی صاحب اگر اسے پڑھ نہیں پائے تو ’’اچانک شب خون‘‘ کاواویلا نہ مچائیں۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: