مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچستان یونین آف جرنلسٹ (حقیقی) کے قیام کا فیصلہ|| مقبول احمد جعفر

اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کااظہار کیا گیا کہ بلوچستان میں صحافت اب عملاً نوجوان اورپڑھے لکھے نوجوان صحافیوں نے صوبے کا حقیقی مقدمہ لڑنے کیلئے منتقل کر لی ہے بلو چستان کی عوام کا حقیقی مقدمہ صحیح معنوں میں ان صحافیوں کی اس نوجوان قیادت نے سوشل میڈیا پر لڑا ہے اور ڈیجٹیل اور باقی پلیٹ فارمز پر اپنا لوہا منوا یا ہے۔

مقبول احمد جعفر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان بھر کے نوجوان صحافیوں کا اجلاس زیر صدارت محمد اقبال مینگل ہوا جس میں صوبے بھر کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اجلاس میں بلوچستان بھر میں صحافیوں کو درپیش مسائل پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ صوبے بھر کے صحافیوں کیلئے ایسی مشترکہ تنظیم بنائی جائے جس میں گوادر سے لیکر ژوب تک تمام صحافیوں کو بلا امتیاز نمائندگی حاصل ہو اجلاس میں صوبے بھر سے شریک صحافیوں نے اپنے اضلاع میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا کہ وہ کس طرح مشکل حالات میں رہتے ہوئے رپورٹنگ کررہے ہیں لیکن جب ان پر مشکل آتی ہے تو وہ خود کو تنہا پاتے ہیں اور ان کی مدد کیلئے کوئی نہیں ہوتا اور بلوچستان میں شہداء صحافت جو صحافت کے عظیم مشن کی ادائیگی کے دوران لقمہ اجل بن گئے ان میں سے زیادہ تر بلوچستان کے اندرونی اضلاع سے ہیں جبکہ ان کی صوبائی سطح پر صحافیوں کی نمائندہ تھی اور نہ ہی علاقائی سطح پر، اور نہ ہی ایسا کوئی اقدام اٹھایا گیا جس کا تقاضا اس وقت حالات نے کئے رکھا تھا اجلاس میں صحافت کے نام پر قابض صحافیوں کے کردار پر بھی بات کی گئی کہ کیسے وہ اپنی نا اہلی چھپانے کیلئے بلوچستان کے عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور عوامی مجالس اور سیمینارز میں اپنی کوتاہی چھپانے کیلئے اکثر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ وہ تو خبر فائل کرتے ہیں لیکن ان کے اداروں کی نظر میں بلوچستان کے مسائل اور خبروں کی اہمیت نہیں ہے اس وجہ سے وہ خبریں شائع نہیں کرتے جو کہ حقائق سے راہ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جدید دنیا کے حالات جن میں سوشل میڈیا سر فہرست ہے کے آنے کے بعد صحافت سوشل میڈیا پر عملاً منتقل ہو چکی ہے جس میں ملک بھر کے ٹی وی چینلز کا فیس بک اور یو ٹیوب پر اپنے بیجز بنا نا واضح دلیل ہے جبکہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کو خبریں اور دیگر مواد ارسال کرنے کیلئے ان کے نمائندے موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں آج کی ڈیجیٹل دنیا میں پاکستان کے صف اول کے صحافیوں کی مثال لی جاسکتی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر چاہیے وہ ٹوئٹر،فیس بک،یوٹیوب ،واٹس ایپ پر انتہائی متحرک ہیں جبکہ بلو چستان میں ڈمی کردار اور صحافت پر قابض لوگوں کے جو استعداد کار سے محروم ہیں ان میں سے اکثریت کے سوشل میڈیا پر اکاونٹ نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو کسی کے 20کسی کے 30فالورز ہیں جو کہ ان کی نااہلی کو آشکار کرتے ہیں جبکہ ایک مقامی صحافی تو ٹوئٹر پر باقاعدہ غیر اخلاقی مواد لائک کر چکے ہیں جبکہ ان کی یہی حالت فیس بک کے اپنے اکائونٹ اور پیجز پر ہے اور نہ ہی کوئی ان کے بقول اپنے ادارے کو رپورٹ کی گئی خبر یا اسٹوری شیئر ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جس طرح کہ مردانہ وار صحافت کرتے ہوئے جی ٹی وی کی بیوروچیف محترمہ بشریٰ کا ایکٹیو فیس بک اکاونٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ درحقیقت گرائونڈ پر کام کرتی ہیں جہاں صحافی اپنی سوچ وفکر کے مطابق اپنی مرضی سے ہر چیز شیئر کرسکتا ہے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کااظہار کیا گیا کہ بلوچستان میں صحافت اب عملاً نوجوان اورپڑھے لکھے نوجوان صحافیوں نے صوبے کا حقیقی مقدمہ لڑنے کیلئے منتقل کر لی ہے بلو چستان کی عوام کا حقیقی مقدمہ صحیح معنوں میں ان صحافیوں کی اس نوجوان قیادت نے سوشل میڈیا پر لڑا ہے اور ڈیجٹیل اور باقی پلیٹ فارمز پر اپنا لوہا منوا یا ہے۔
اجلاس میں اس بات پرا فسوس کااظہار کیا گیا کہ مین اسٹریم میڈیا جہاں بلوچستان کے مسائل کو کوریج نہیں دیتا وہیں اس کی ایک بنیادی وجہ یہاں مقامی ڈمی صحافیوں کا وجود ہے جو کہ عوامی مسائل پر اپنا منہ بند رکھے ہوئے ہیں اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور یہ وہ ستون ہے جس نے باقی تین ستونوں کی کارکردگی بھی عوام کو پہنچانی ہوتی ہے صحا فی کو کسی بھی معاشرے کی آنکھ اور زبان کہا جاتا ہے لہٰذا بطور صحا فی ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم وہ بولیں اور وہ لکھیں جو معاشرے کی عکاسی ہے اس سلسلے میں باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس (حقیقی )کے نام سے نوجوان صحافیوں کیلئے صوبے بھر کیلئے ایک تنظیم بنائی جائے بی یو جے حقیقی پورے بلوچستان کی صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ہوگی جس کا وجود صرف کوئٹہ تک محدود نہیں ہوگا اور اس تنظیم کا دائرہ پورے بلوچستان تک پھیلا ہو گا مقصد جہاں صحافیوں کے حقوق کا دفاع کرنا ہوگا وہیں پر ڈمی کردار صحافت کو بھی صوبے سے ختم کرنا ہوگا اورصحافیوں کو اتنا با اختیار کیا جائے گا کہ وہ بغیر کسی ڈر وخوف کے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں، کسی بھی رکاوٹ اور مشکلات کا مل کر مقابلہ کریں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بی یو جے حقیقی کا پیج بنا کر صوبے بھر کے صحافیوں کی رپورٹنگ کو شیئر کیا جائے گا صحافی جس کا کسی بھی نظریے سوچ یا فکر سے تعلق ہوگا یہ اس کی ذاتی سوچ ہو گی کسی کو پابند نہیں کیا جائے گا کہ وہ کسی کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہے۔ بلوچستان کے صحافیوں کے حقوق کی جنگ ہر فورم پر لڑی جائے گی اور اس کا اثر صوبے بھر میں دکھائی دے گا اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قانون وآئین کے اندر رہتے ہوئے صحافیوں کی بقاء اور قابض ٹولے کا بھر پور مقابلہ کرنے کیلئے ہر راستہ اختیار کیا جائے گا جو کہ قانون وآئین کے مطابق ہوگا اور فیصلہ کیا گیا کہ صو بے بھر کے پریس کلبوں کا دورہ کرکے صحافیوں کے حقیقی مسائل کو قریب سے سنا جائے گا اور وہاں سے ایک براہ راست سوشل میڈیا کے ذریعے ان کا نقطہ نظر اور مسائل عوام کے ساتھ شیئر کئے جائینگے بلوچستان کے صحافیوں کے مسائل کی نشاندہی کر کے ان کے حل کی طرف جایا جائے گا صحافیوں کے نام پر لی گئی رقوم ،مراعات کے احتساب اور اس کا غیر جانبدارانہ آڈٹ کرانے کیلئے متعلقہ فورمز سے تحریری طور پر رابطہ کیا جائے گا اور اس سلسلے میں بہت جلد ایک وفد اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر صوبوں کے دورے کر کے وہاں کے صحافیوں کو بلوچستان میں صحافت کے نام پر ڈاکہ ڈالنے کے خلاف دستیاب شواہد کے ساتھ ثبوت فراہم کئے جائینگے اور ان کو بتا یا جائے گا کہ یہاں آزاد صحافت کو یرغمال بنا یا گیا ہے اور اس آڑ میں بڑے مفادات لئے جارہے ہیں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صحافیوں سے مطالبہ کیا جائے گاکہ وہ اپنے اثاثے پبلک کر دیں اور ان کے بینک اکائونٹ میں رقوم کہاں سے اور کس طرح آئیں۔ کیونکہ جب تک صحافی خود کو جوابدہ نہیں رکھیں گے تب تک وہ کسی اور کا احتساب نہیں کرسکتے اجلاس میں اس بات پر حیرت کااظہار کیا گیا کہ اس وقت میدان میں صف اول کے مجاہد کے طور پر سوشل میڈیا کا تواتر سے استعمال کرنے والے صحافی رہے ہیں یعنی ہل ہم چلائیں، بیج ہم بوئیں،پانی ہم دیں اور فصل کوئی اور لے جائیں یہی کچھ ہمارے نام پر یہاں صحافت پر قابض ٹولہ کررہا ہے آخر میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تمام ڈمی کردار صحافیوں پر جو بھی الزامات ہیں ان کے متعلق ایک وائٹ پیپر کھلے خط کی شکل میں شائع کر کے عوام کو آگاہ کیا جائے اور ان سے جواب طلب کیا جائے گا کہ عوامی مفاد گروی رکھواتے ہوئے سائیکل سے وزیر اعلیٰ کے جہازوں تک سفر کرنے والے اور جائیدادیں کہاں سے بنائیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: