اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن لوگوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتیں ختم ہوتے اور پھر ان کو پابند سلاسل ہوتے، جیلوں کی نظر ہوتے اور ایک سے دوسری عدالت کے چکر لگاتے دیکھا ہے کیا وہ دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دے سکتے ہیں کہ پراجیکٹ عمران ختم ہوا۔ مجھ سے پوچھیں گے تو میرا جواب ہو گا کہ "نہیں”۔
پراجیکٹ عمران ختم نہیں ہوا بلکہ ہائبرڈ رجیم کا تجربہ ختم ہوا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ پراجیکٹ بھی جاری رہے گا اور دہشت گردی بھی کیونکہ اب طالبان کا وہ رول شروع ہوا ہے جس کیلئے انہیں امریکیوں نے لا کر بٹھایا تھا۔ اگر کسی نے قومی سلامتی کمیٹی کا بیان اور اس پر طالبان کے جواب پر غور نہیں کیا تو اس کو اب کرنا چاہئیے۔
ملکی سیاست اب 1990 کی دہائی پر پہنچی۔ ڈیموکریٹس اب کئی اکائیوں میں بٹ چکے اور پراجیکٹ کے معماروں کا ایکا۔ عین وہی سچویشن جو بےنظیر بھٹو اور نواز کی جنگ کے اوائل میں تھی اور یہ بادشاہ گر ہوا کرتے تھے۔
اس لئے نئی سچویشن میں فکر سیاست کی نہیں اپنے ہمسایہ کی یلغار کی کیجیے۔ سیاست کا نقشہ سامنے نظر آ رہا ہے کہ وہی دہشت گردی اور وہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورتحال۔ آپس میں لڑتے رہئیے اور انکا پیٹ پالتے رہئیے۔
ایک پورا طبقہ اکٹھا کر کے اسے ایک دیوتا دینا اور پھر اپنا کھیل کھیلنا کوئی آسان کام ہے ؟ داد دیں انہیں جنہوں نے یہ کھیل کھیلا
جنرل ضیاء الحق نے ایک جعلی اشرافیہ کو پروان چڑھایا ۔ جس کا مقصد ہی ریاستی وسائل پر قبضہ کر کے عیش و عشرت کرنا تھا۔ یہ اشرافیہ آج بھی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے۔ کسی اہم ترین مقتدر شخص کو پرکھ لیجیے۔ اس کا یا اس کے خاندان کا جادوئی عروج‘ جنرل ضیاء کی حکمرانی سے منسلک ہو گا۔ اس اشرافیہ نے اب تمام ملکی وسائل پر نہ صرف قبضہ کر لیا ہے بلکہ اپنے اتنے حواری بھی پیدا کر لیے ہیں جو بذات خود اب حقیقی منفی نظام بن چکے ہیں۔ اور ہر سیاسی رہنما کو ان کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ایک لحاظ سے تمام ملکی سیاست دان انھی کے مرہون منت ہو چکے ہیں۔ اس ابتری کو موجودہ معروضی حالات میں ختم کرنا ناممکن ہے۔
آنے والے دنوں میں ہمارا ملک کس مزید خرابہ میں جاتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ غریب اب بربادی کی انتہا تک پہنچ جائے گا۔ کسی قسم کا سیاسی چورن ان کے مصائب کوکم نہیں کر سکتا۔ دراصل ہمارے پورے نظام میں بہت کم ایسے معتبر لوگ موجود ہیں جن کا ہاتھ لوگوں کی نبض پر ہو۔ جو غریب اور عام آدمی کے درد کو اصل میں محسوس کر سکیں۔
جعلی اشرافیہ تو بہر حال کوئی نیک کام نہیں کر سکتی۔ ہاں‘ یہ کوئی نہ کوئی معاملہ گھڑ کر اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹا ضرور سکتی ہے۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے 1971 کے بعد اور روس کے زوال کے بعد 2 سبق سیکھے ہیں:
۔ سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
۔ وسائل کو اپنے کنٹرول میں رکھنا
لمبی بحث ہو جائے گی لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہی 2 اسباب تمام مسائل کی جڑ ہیں جب تک ان کا حل نہیں نکلے گا تب تک یہ ملک ایسے ہی چلے گا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے والوں کے وارے نیارے اور قوم خستہ حال ہی رہے گی۔ اب ان سے نکلنے کیلئے جو بھی کوشش کرے گا اسکا حال "مجھے کیوں نکالا” ہو گا یا پھانسی لگے گا یا گولی کھائے گا۔ اس کے کارکن کوڑے کھائیں گے یا وطن بدری ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ آپ یقین رکھیں جس طرح اس ملک میں اشرافیہ، عام عوام اور غریب عوام کی کلاس ابھر کر سامنے آ رہی ہے جلد اس کا نتیجہ سامنے آنے والا ہے- اس ملک میں ایک لا وارث نسل بھی تیار ہو رہی ہے جس کی نا تربیت کی گئی ہے نا یہ تعلیم و دین کے نام سے واقف ہے اور یہ ایک سروے کے مطابق 6% ہے۔ یہی 6% آپ کو ہر اخلاقی برائی اور سانحے کی ذمہ دار نظر آئے گی۔
1977 کے بعد سے ان کا وسائل اور سیاست پر قبضہ کسی نا کسی شکل میں برقرار ہے۔ آخری تجربہ ہائیبرڈ رجیم کی شکل میں کیا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کے گلے پڑ گیا میں ان سے کہتا ہوں کہ یہی تو وہ چاہتے تھے کہ قوم کو ایشوز سے نکال کر بھٹو، نواز شریف، الطاف اور عمران کی جنگوں میں الجھائے رکھیں تاکہ اس ملک کے عوام گروہوں میں بٹے رہیں اور یہ لوگ بطور ایک طبقہ ان پر حکمران رہیں۔ یہ تقسیم انہیں سوٹ کرتی ہے۔ ان کا خمیر ہی اسی سے اٹھا ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد انہیں ایک نئے اینٹی ہیرو کی ضرورت تھی جو پراجیکٹ عمران کی شکل میں اب سامنے ہے۔ اس پراجیکٹ کو کتنی دیر جاری رکھا جا سکتا ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ اس کلٹ کے فالوورز کو کتنی دیر تک اس سحر میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔
گزرے برسوں کی زیاں کاری کے خدوخال ایسے سنگین ہیں کہ انہیں کس طور قابل فہم بیان میں ڈھالا جائے۔ خواب میں دیکھی پریشاں حال بستی سے تو بیدار ہوا جا سکتاہے۔ پون صدی کے اس کابوس کی کیا تعبیر کی جائے جہاں امیر علی ٹھگ اپنے کارندوں سمیت ہر رات یلغار کرتا ہے۔ ہر صبح گزشتہ شب کی حکایت بیان کی جاتی ہے مگر شب آئندہ کی پیش بندی نہیں کی جاتی۔ شہر پناہ کے دمدموں پر پہرہ نہیں بٹھایا جاتا۔ لٹنے والوں کی دادرسی نہیں کی جاتی۔ لوٹنے والوں کا احتساب نہیں ہوتا۔
لیکن میری یہ بات یاد رکھئیے کہ یہ ملک بہت تیزی کے ساتھ ایک معاشرتی بحران کیطرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار آپ میں اور یہ معاشرہ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر