اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ کو یاد تو ہوگا؟۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کو قدرتی آفات سے نمٹنے والے وفاقی محکمے کے وہ فوجی سربراہ تو یاد ہی ہوں گے جنہوں نے کورونا وبا پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت میں طلب کئے جانے پر عدالت کے روبرو بیان دیا کہ کورونا وبا کے ایک مریض کے علاج پر مبلغ 26لاکھ روپے نقد سکہ رائج الوقت خرچ ہوتے ہیں۔

امید ہے کہ یہ بھی یاد ہوگا کہ کورونا وبا کے دوران ملی بیرونی ’’بھیک‘‘ (امداد) میں سے 12سو ارب روپے کی کرپشن کہانیاں زبان زد عام ہوئی تھیں۔ آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں نے کورونا وبا کے دوران عالمی اداروں اور مملکتوں سے ملی امداد کی آڈٹ رپورٹ پر سوالات اٹھاتے ہوئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کا مطالبہ کیا تھا۔

عالمی اداروں اور مملکتوں کی جانب سے دی گئی اس بھیک میں ہوئے گھپلوں اور بھیک خوروں کے معاملے پر قومی اسمبلی اور سینٹ میں بڑی لے دے ہوئی تھی۔ یہ بھی یاد ہوگاکہ دو ہزار بیس کے سال میں ملنے والی اس بھیک پر کیسے کیسے اللے تللے ہوئے تھے۔

ایک ٹائیگر فورس کی شرٹیں اسی بھیک کے پیسے سے بنی تھیں ۔ معاف کیجئے گا آپ لفظ بھیک کی تکرار پر حیران ہوں گے، مت ہوں کیونکہ اس وقت تحریک انصاف کے یوٹیوبرز، حامی، صحافی اور چھوٹوں بڑوں کے ساتھ اس کے سوشل میڈیا مجاہدین سیلاب زدگان کی امداد کے لئے جنیوا میں ہونے والے ڈونرز کانفرنس میں کئے جانے والے امداد کے اعلانات کو بھیک اور اس کے لئے پراثر مہم چلانے والوں کو بھیکاری قرار دے رہے ہیں۔ اس اصول پر ہی ماضی کی امدادوں اور خصوصاً کورونا وبا کے دوران ملی امداد کو بھیک لکھا ہے۔

اس بھیک میں سے 12سو ارب چوری ہوگئے تھے۔ بھیک خور کون کون تھا؟ اس سوال کا جواب مل جاتا اگر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اس مطالبہ کو پذیرائی بخشی ہوتی کہ 12سو ارب روپے کے گھپلوں کی تحقیقات کرائی جائیں اوراس کی بھی کہ کیسے عدالت میں یہ کہہ دیا گیا کہ ایک مریض پر 26لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

باردیگر معاف کیجئے گا، خیرات خوری کے قدیم تجربہ کے حاملین اگر دوسروں کواپنے جیسا سمجھتے تھے تو یہ عجیب ہرگز نہیں لگنا چاہئے ۔ اب بھی بھیک اور بھیکاری کی گردان کی تکرار عجیب نہیں۔

وہ دن یاد کیجئے جب عمران خان کنٹینروں پر کھڑے دبنگ انداز میں اعلان کیا کرتے تھے ’’مجھے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے تو میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کرلوں گأ‘‘۔ مگر جب وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو خودکشی کرنے کی بجائے قوم سے اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا

’’ہمیں حالات کا احساس کرکے بہت پہلے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ معاشی مجبوریوں کی بنا پر ہم مالیاتی ادارے کے پاس جارہے ہیں قوم مزید مہنگائی کے لئے تیار رہے‘‘۔

خودکشی کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے مذاکرات کئے، قرضہ لیا۔ مہنگائی بڑھی (مہنگائی بڑھنے کا وہ خود ٹی وی خطاب میں پیشگی کہہ چکے تھے) آئی ایم ایف سے ہونے والے ان کے دور کے معاہدے کے مطابق پٹرولیم لیوی 30روپے کرنا تھی 5روپے مہینہ کے حساب سے۔

پھر ایک دن انہوں نے اپنی ہی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی پر سبسڈی دیدی۔ نتیجہ کیا نکلا۔ آئی ایم ایف نے پہلے قسط روکی پھر مذاکرات معطل کردیئے۔

آپ یاد کیجئے۔ حفیظ شیخ کی جگہ شوکت ترین وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ارشاد کیا

’’مجھے نہیں معلوم کہ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط کیوں تسلیم کیں۔ ہم بات کریں گے بہتری لائیں گے‘‘۔

پھر وہ معاونین کے ہمراہ واشنگٹن گئے مذاکرات کرنے اور حفیظ شیخ کے مقابلہ میں مزید سخت شرائط کا بوجھ گلے میں ڈال کر واپس آگئے۔

عمران خان نے بیرونی قرضوں کے حوالے سے ہمیشہ خود سے پہلے کے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا مگر ان کے دور میں 70 برسوں کے مجموعی بیرونی قرضوں کا 40فیصد قرضہ حاصل کیا گیا۔

تب انصافی وزیر، ٹائیگر اور شیرو ہمیں بتاتے تھے کہ یہ قرضہ پچھلے قرضوں کی بھروائی کے لئے لینا مجبوری تھا۔

ہمیں اصل میں کچھ یاد نہیں رہتا۔ ہم اور آپ سبھی حافظہ کھورہے ہیں۔ ڈرتا ہوں کہ کسی دن امراض ظاہری و پوشیدہ کے دیواری اشتہارات کی طرح ’’آیئے حافظے کو بہتر بنانے کا علاج کرائیں، حکیم دوراں فتح دین سے‘‘ جیسے اشتہارات دیواروں پر لکھے ہوں گے۔

آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ شوکت ترین جب آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے امریکہ گئے تھے تو انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا

’’آئی ایم ایف کے حکام نے سخت شرائط پر ہمیں جواب دیا یہ شرائط امریکہ کے کہنے پر لگائی گئی ہیں اس کے لئے پاکستان امریکہ سے بات کرلے‘‘۔

اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی فوراً امریکہ جاتے دونوں وزیر مل کر امریکیوں سے بات کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا، کیوں؟ اس کی وجہ عمران خان کی طالبانائزیشن پروری کی وہ پالیسی تھی جسے آپ سادہ لفظوں میں افغان پالیسی کہہ سکتے ہیں۔

افغانستان سے امریکہ نیٹو انخلا کے دنوں میں امریکیوں نے پاکستان پر چند سخت الزامات لگائے تھے۔ ان میں سے ایک الزام یہ تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان کی مدد اور ان کی فتوحات میں تیزی لانے کے لئے ’’مسلح افراد‘‘ بھیجے تھے۔

قومی سلامتی کے احترام سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتا پھر قومی سلامتی سے عمران خان اور جنرل فیض حمید نے کھلواڑ کیوں کیا؟

یہ وہ سوال ہے جو اگست 2021ء سے ان دونوں کا تعاقب کررہا ہے اور شاہ محمود قریشی امریکہ کیوں نہ گئے؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں امریکیوں کی ناراضگی اور اصل وجہ دونوں معلوم تھے۔

اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے پاس امریکی اسلحہ ہے۔ دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لئے سارے فریق ایک پیج پر تھے۔ کون سے سارے فریق، پارلیمنٹ کو تو پتہ ہی نہیں تھا۔ یہ فیض و عمران پراجیکٹ تھا اس کی تصدیق مٹہ سوات میں پچھلے سال آنے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں کے کمانڈر نے یہ کہہ کر کی کہ ’’ہمیں حکم ملا کہ ہمارا جنرل فیض اور عمران خان نے معاہدہ ہو گیا ہے اس لئے مجاہدین اپنے علاقوں میں واپس چلے جائیں ” ۔

ٹی ٹی پی کمانڈر کے اس دعوے کی جنرل فیض نے تردید کی نہ عمران خان نے۔ ٹی ٹی پی کی بھتہ خوری مہم میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے خاندان تک نے بھتہ ادا کیا۔ صوابی سے پی ٹی آئی کے رہنما شہرام کا خاندان بھتہ کے لئے بھجوائے گئے خط کو سامنے لے آیا۔ وزیراعلیٰ کے خاندان نے مجموعی طور پر ساڑھے سات کروڑ بھتہ دیا۔

مسئلہ عمران خان کی مخالفت نہیں مسئلہ یہ ہے کہ وہ اور ان کے حامی اٹھتے بیٹھتے حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ ایک جھوٹ نبھانے کے لئے سو مزید جھوٹ بولتے ہیں۔ اپنے دور میں بھیک خوشی سے لیتے رہے بلکہ وہ تو عشروں سے بھیک پروگرام چلاتے آرہے ہیں۔

ہٹلر کے وزیر اطلاعات گوئبلز کو مات دے دی ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے۔ پروپیگنڈے میں ان سے کوئی نہیں جیت سکتا۔ جب تک ان کے پچھلے جھوٹ کو بے نقاب کیا جاتا ہے ان کا اگلا سفید جھوٹ لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کرچکا ہوتا ہے۔

آپ وزیرآباد میں ان پر ہونے والے مبینہ قاتلانہ حملے کی جے آئی ٹی میں پیدا ہوئے اختلافات کو ہی دیکھ لیجئے۔ لاہور پولیس کے سربراہ ڈوگر کے دعوئوں اور ڈھمکیریوں سے جے آئی ٹی کے باقی 3ارکان متفق نہیں۔ ان تین ارکان کا اختلافی نوٹ پڑھنے والا ہے وہ کہتے ہیں جے آئی ٹی کے سربراہ نے ساتھی ارکان کو تفتیش کرنے دینے کی بجائے ایک خصوصی معاون کو جس کا تعلق محکمہ اینٹی کرپشن سے تفتیش کا کام سونپا اور اسی کی رپورٹ کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کہہ رہے ہیں جو غلط ہے۔

اس مبینہ قاتلانہ حملے کے حوالے سے ان سطور میں قبل ازیں تفصیل کے ساتھ مختلف نکات پر عرض کرچکا۔ گولیوں کی تعداد کے حوالے سے عمران خان کا دعویٰ ہی اس سارے معاملے کو مشکوک کرگیاہے۔

ان پر ہوئے مبینہ حملے کے ملزم نوید کے وکیل نے عمران خان کا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کی درخواست دائر کی تھی جسے انسداد دہشت گردی کی عدالت نے منظور کرلیا ہے۔ عمران خان ہمت کریں اور خود کو اس ٹیسٹ کے مرحلے سے گزاریں۔

گو یہ ٹیسٹ قانون شہادت کے مطابق ہے نہ فیصلے میں مدد دے سکتا ہے پھر بھی اگر واقعی اس سے سچ جھوٹ تلاش ہوتا ہے تو یہ ہونا چاہیے بلکہ اس وقت کنٹینر پر جتنے لوگ تھے سبھی کا پولی گرافک ٹیسٹ کرایا جائے خصوصاً سینیٹر فیصل جاوید کا جس کے گال کو ایک چھرہ چھوکر گزرا اور ان کی قمیص لالو لال ہوگئی۔ آخر پتہ تو چلے وہ خون کس کا تھا؟

9اپریل 2022ء کے بعد سے عمران خان کو جتنی عدالتی مہربانیاں حاصل ہیں اتنی کسی اور کو کیوں نہیں؟ لاہور ہائیکورٹ کو لوہار ہائیکورٹ کہنے والے ٹائیگرز شیرو اور یوٹیوبرز اب کیوں ’’دڑوٹے‘‘ ہوئے ہیں؟

کالم کی بالائی سطور میں جتنے واقعات کا تذکرہ کیا سب میڈیا میں رپورٹ ہوچکے ہیں۔ تحریر نویس نے بس ترتیب سے انہیں لکھ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: