اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زود ہضم رسالہ ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی لفظ ڈائجسٹ کا مطلب ہے ہضم۔ سو سال پہلے ڈی وٹ ویلس نے ایک زود ہضم رسالے کا آغاز کیا جس میں انھوں نے دوسرے جریدوں کے طویل مضامین کو مختصر کرکے شائع کرنا شروع کیا۔ اس کا نام انھوں نے ریڈرز ڈائجسٹ رکھا۔ فروری 1922 میں پہلا شمارہ شائع ہوا۔ لائبریویں سے باہر اس شمارے کی چند ہی کاپیاں عام افراد کے پاس ہوں گی۔ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ گزشتہ سال فروری میں سوچا تھا کہ اس بارے میں ایک وی لاگ کروں اور سب کو وہ اصلی پرچہ دکھاوں۔ لیکن پھر ارادہ ترک کردیا۔ میرے پاس ریڈرز ہی نہیں، ٹائم میگزین، لائف میگزین، نیویارکر، پیرس ریویو، گرانٹا اور پلے بوائے میگزین کا بھی اولین شمارہ ہے۔ کسی دن وہ سب ویڈیو بناکر دکھاوں گا۔
بات ڈائجسٹ لفظ سے شروع ہوئی تھی۔ ریڈرز ڈائجسٹ کی مقبولیت کے بعد اسی سائز کے اور بہت سے ڈائجسٹ شروع ہوئے۔ سائنس فکشن ڈائجسٹ زیادہ مشہور ہوئے۔ الطاف حسن قریشی نے ساٹھ کی دہائی میں اردو ڈائجسٹ کا آغاز ریڈز کی طرز پر ہی کیا تھا۔ ان کے بعد جون ایلیا نے عالمی ڈائجسٹ، شکیل عادل زادہ نے سب رنگ اور معراج رسول نے جاسوسی ڈائجسٹ اور سسپنس شروع کیے۔ میں نے نوے کی دہائی میں ہر ماہ بک اسٹالز پر درجنوں ڈائجسٹ دیکھے ہیں۔ کئی کی اشاعت لاکھ تک پہنچی۔ ڈائجسٹ تو اب بھی نکلتے ہیں لیکن اشاعت چند ہزار تک گھٹ کر رہ گئی ہے۔
دوسرے ملکوں میں ڈائجسٹوں کا ہدف وہ قارئین تھے جن کے پاس طویل تحریریں پڑھنے کا وقت نہیں تھا۔ ان کے لیے مختصر تحریریں شائع کی جاتی تھیں۔ پاکستان میں الٹا حساب ہوا۔ یہاں ڈائجسٹوں میں طویل سلسلے وار کہانیوں کا آغاز کیا گیا۔ بلکہ فریاد علی تیمور کی دیوتا نے سب سے طویل کہانی کا عالمی ریکارڈ ہی بنا ڈالا۔ اردو ڈائجسٹ کے سوا مردوں اور خواتین کا شاید ہی کوئی ڈائجسٹ ہو جس میں سلسلے وار کہانی نہ چھپتی ہو۔
پاکستانی ڈائجسٹوں میں سب سے ممتاز مقام سب رنگ اور اس کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ کو ملا۔ شکیل صاحب نے بازی گر کے عنوان سے طویل کہانی لکھنا شروع کی۔ سب رنگ کی اشاعت بند ہوگئی لیکن کہانی مکمل نہ ہوسکی۔ لوگ آج بھی تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس کی آخری قسط لکھیں تاکہ ان کی تشنگی ختم ہو۔ سنا ہے کہ ایک پبلشر نے آخری قسط کسی گھوسٹ رائٹر سے لکھواکر شائع کردی اور شکیل صاحب نے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آخری قسط لکھ رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
بازی گر کی اب تک کی قسطیں کتابی صورت میں آٹھ جلدوں میں چھپ چکی ہیں۔ میں نے آج کتب خانے والے گروپ میں وہی پیش کی ہیں۔ جب شکیل صاحب آخری قسط لکھ لیں گے تو اسے بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: