مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب میں گمبھیر ابتری اور میرے خدشات ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاستدان جب اپنے لئے مختص گیم کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے بجائے آئینی اور قانونی موشگافیوں میں پناہ تلاش کرنا شروع ہوجائیں تو بے بس ہوا لشکر نظر آتے ہیں۔ ایسا لشکر بالآخر ریاست کے دیگر اداروں کی رہ نمائی کا طلب گار بن جاتا ہے۔ خود کو بچگانہ انداز میں ان اداروں کی رضا کے سپرد کردینے کے باوجود سیاستدان بعد ازاں نہایت ڈھٹائی سے ”مداخلت“ کی دہائی مچانا بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ عوام اگر ان کی ڈھٹائی سے اکتاہٹ محسوس کریں تو انہیں دوش دینے کی ہمت مجھ میں تو موجود نہیں۔

آبادی کے اعتبار سے پنجاب ہمارا سب سے بڑا اور نسبتاً خوش حال صوبہ ہے۔ ”سکھا شاہی“ کی پھیلائی ابتری نے یہاں برطانوی استعمار کو ”مداخلت“ کے مواقع فراہم کیے۔ پنجاب پر قابض ہو جانے کے بعد غیر ملکی آقاؤں نے جو انتظامی بندوبست متعارف کروایا وہ برطانوی ہند کے دیگر علاقوں کو قابل رشک دکھائی دیتا رہا۔ یہ بندوبست بھی تاہم قیام پاکستان کے دوران ہوئے انسانی تاریخ کے بدترین خونی فسادات روکنے میں قطعاً ناکام رہا۔ مذکورہ بندوبست کی توڑ پھوڑ قیام پاکستان کے چند ہی برسوں بعد لاہور میں مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بھی ہوئی۔ جنرل اعظم خان کی نگرانی میں امن وامان اور استحکا م کی فوری اور متاثر کن بحالی نے بعد ازاں ہمارے معاشرے میں فوجی آمریت کے خواہش مندوں کے ہجوم میں مسلسل ا ضافہ ہی کیا۔

رواں برس کے اپریل سے اس کالم میں آپ کو اکتانے کی حد تک فریاد کیے چلا جا رہا ہوں کہ طویل وقفے کے بعد اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلاپنجاب ایک بار پھر کامل انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت سے بالاتر ہو کر سوچیں تو بالآخر چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کی صورت جو بندوبست نمودار ہوا وہ اس صوبے کو مزید انتشار سے بچاسکتا تھا۔ عمران خان صاحب مگر اپنی ہی جماعت کی سرپرستی میں بنائی حکومت کو بھی مطلوبہ مہلت دینے کو آمادہ نہ ہوئے۔ فیصلہ کر لیا کہ 23 دسمبر کے روز اسے پنجاب اسمبلی سمیت تحلیل کرتے ہوئے ملک بھر میں نئے انتخاب کی فضا بنائی جائے۔

سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں مصررہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومتوں کی تحلیل عمران خان صاحب کو وہ تقویت فراہم نہیں کر پائے گی جس کی انہیں توقع ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد مذکورہ صوبوں میں ”عبوری حکومتیں“ قائم ہوں گی۔ وفاقی حکومت سے کہیں زیادہ یہ حکومتیں ان قوتوں کی محتاج بن جائیں گی جنہیں عمران خان صاحب اپنی حکومت کے ”سازشی خاتمے“ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم مگر حالات کو اپنی توقع کے عین مطابق ڈھلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

مسلم لیگ (نون) بھی لیکن اپنے ”گڑھ“ میں نئے انتخابات سے خوفزدہ نظر آنا شروع ہو گئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کو ہر صورت روکا جائے۔ چودھری پرویز الٰہی بھی دل سے ایسی ہی امید باندھے ہوئے تھے۔ تحریک انصاف ا ور مسلم لیگ (نون) کو البتہ بیک وقت گومگو میں مبتلا رکھا۔ مسلم لیگ (نون) کے لئے مگر اب انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ دریں اثناء ”زرداری فارمولا“ بھی نمودار ہو گیا جو مبینہ طور پر چودھری صاحب کو پنجاب اسمبلی کے سپیکر کے منصب پر لوٹنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے مگر پرویز الٰہی کو پی ڈی ایم کے نامزدکردہ وزیر اعلیٰ کی حمایت کرنا ہوگی۔ گومگو کا عالم اب ان کا اپنا مقدر بن چکا ہے۔

چودھری صاحب کے فرزند مونس الٰہی صاحب کے ٹویٹس پر اعتبار کریں تو گماں ہوتا ہے کہ بالآخر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے عمران خان صاحب کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر یہ فیصلہ واقعتاً ہو چکا ہے تو پنجاب اسمبلی کا سیکرٹریٹ عمران مخالف جماعتوں کی جانب سے دائر کردہ عدم اعتماد کی مختلف تحریکوں کو اتنی آسانی سے ”باقاعدہ“ انداز میں وصول نہ کرتا۔ پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنے کا ارادہ باندھ لیا تھا تو گورنر کی اس ایڈوائس پر فی الفور عمل کر لیا جاتاجس کے ذریعے وزیر اعلیٰ کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم ملا۔ اس جواز کو رعونت بھرے اعتماد سے نظرانداز کرتے ہوئے کہ آئینی اعتبار سے گورنر پنجاب صوبائی اسمبلی کے ”جاری سیشن“ کے دوران اعتماد کا ووٹ دکھانے والے اجلاس کا وقت طے کر سکتا ہے یا نہیں، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) 186 اراکین کے ساتھ پنجاب اسمبلی میں داخل ہوتے۔ اپنے بندے گنوادینے کے بعد ایک بار پھر اعتماد سے مالا مال ہوئے چودھری پرویز الٰہی اپنی نشست پر کھڑے ہو کر صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کردیتے۔ مذکورہ ”فطری“ ر اہ اختیار کرنے کے بجائے لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی نے گورنر کی ایڈوائس کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے ”مسترد“ کر دیا۔ گورنر پنجاب مذکورہ فیصلے کے بعد یہ کالم لکھنے تک پرویز الٰہی صاحب کو ”ڈی نوٹی فائی“ بھی نہیں کرپائے ہیں۔

بدھ کی رات پنجاب پر نظر رکھنے والے وفاقی حکومت کے چند نمائندوں سے میری گفتگو ہوئی۔ ان کی گفتگو نے مجھے یہ عندیہ دیا کہ وہ دل سے اس بات کے منتظر ہیں کہ جمعرات کی سہ پہر تحریک انصاف گورنر ہاؤس لاہور کو ”گھیرے“ میں لے کر سری لنکا جیسے مناظر دہرانے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ جس ”مہم جوئی“ کی انہیں توقع تھی وفاقی حکومت کو پنجاب پر گورنر راج مسلط کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔ ناک کو تاہم سیدھا پکڑیں یا ہاتھ گھماکر گورنر پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کے مابین جو ”مراسلہ بازی“ ہو رہی ہے بالآخر عدالتوں ہی کو ”آئین کی تشریح“ کرنے کو مجبور کردے گی۔ ممکنہ عدالتی مداخلت تمام فریقین کو اطمینان فراہم کر ہی نہیں سکتی۔ انتشاروخلفشار لہٰذا جاری رہے گا۔

افراتفری کا ماحول فی الوقت تو عمران خان صاحب کی حکمت عملی کو کارگر ثابت ہوا دکھارہا ہے۔ میرا وسوسوں بھرا دل مگر یہ سوچنے کو مجبور ہے کہ پنجاب میں ابتری کا گمبھیر سے گمبھیر تر ہونا بالآخر تمام سیاسی فریقین کو اجتماعی نقصان پہنچائے گا۔ رب کریم سے فریاد ہے کہ میرے خدشات درست ثابت نہ ہوں۔ پنجاب کی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ میں اطمینان بخش انجام کی امید باندھنے سے قاصر محسوس کر رہا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: