مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اندھی پیروی سے گریز کریں۔۔۔|| اظہر عباس

ہمیں دوسروں کے ان اعمال کو نقل کرنا شروع نہیں کرنا چاہئے جن کے ہم اہل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر طرح سے دوسروں کی نقل کرنے کا رجحان ناکامی کا باعث بنتا ہے۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم جب پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل کو خیر آباد کہہ کر کرشن نگر شفٹ ہوئے تو ہیرن روڈ پر بسیرا کیا۔ ہمارے ہم نشین اس وقت زیادہ تر سی اے کے اسٹوڈینٹس تھے جو مختلف چارٹرڈ اکاونٹینٹس فرمز میں اپنے آرٹیکلز مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دن رات پڑھائی میں مشغول رہا کرتے (اب ماشاءاللہ سب اپنے شعبے کے نامور اکاؤنٹس کے ماہرین)۔ ان میں ہم چند آرٹس کے طالب علم، قانون اور انگلش لٹریچر کی کلاسز لینے والے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ کرشن نگر اس دور میں فن، ثقافت اور فلم کے لوگوں کی بستی تھی۔ ہماری گلی سے اگلی گلی میں فلم اسٹار یوسف خان رہا کرتے جو کبھی کبھی اپنے چھت پر کبوتر اڑاتے نظر آتے اور مین بازار سے ملحقہ ایک گلی میں گلوکار شوکت علی مقیم تھے۔ جنہیں ملنے اداکار محمد علی آتے تو بازار میں ہلچل ہو جاتی۔ ہم ان دنوں اپنے سی اے کے دوستوں کے دیکھا دیکھی اکاؤنٹس پڑھنے کے درپے ہوئے اور ایم اے انگلش لٹریچر کے ساتھ ساتھ اے سی ایم اے کی کلاسز میں ایڈمشن لے بیٹھے۔ پہلا پارٹ تو رو دھو کے اور اپنے ہم نشینوں کی گائڈینس کی بدولت کسی نا کسی طرح کر لیا لیکن پارٹ ٹو تک پہنچتے پہنچتے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اکاؤنٹس اور اکنامکس پڑھنا ہمارے بس میں نہیں اور ہمیں پوری توجہ اپنے انگلش لٹریچر کے ماسٹرز کی طرف ہی مبذول رکھنی پڑے گی۔ لیکن اکاؤنٹس کی کلاسز پڑھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے کی عادت پختہ ہو گئی جو ہم نے اس دور کی آخری ڈگری لینے کے بعد ہی چھوڑی۔

سب آپ بیتی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ وقتی انسپائریشن سے آپ کسی فیلڈ میں چل تو پڑتے ہیں لیکن اس میں کامیابی آپ کے بس میں نہیں ہوتی کیونکہ ہر انسان کا رجحان اور اہلیت کسی بھی میدان میں اس کی کامیابی کا پیمانہ طے کرتے ہیں۔

ہر ذی روح ایک وسیع تر جامع سماجی گروپ کا حصہ ہونے کے باوجود بالآخر صرف اپنے لیے ذمہ دار ہے۔

کامیابی کے رازوں میں سے ایک راز یہ ہے کہ دوسروں کی اندھی تقلید کرنے سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ ایسی بے فکری کی پیروی ہماری انسانی فطرت کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔

ہمیں دوسروں کے ان اعمال کو نقل کرنا شروع نہیں کرنا چاہئے جن کے ہم اہل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہر طرح سے دوسروں کی نقل کرنے کا رجحان ناکامی کا باعث بنتا ہے۔

اگر کچھ لوگوں کی شخصیت میں کوئی کمی رہ جاتی ہے اور اگر انہیں کبھی کبھی ناکامی اور محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی قابلیت کی حد کو ذہن میں رکھے بغیر کچھ کرنے کی جستجو کرنے لگتے ہیں جبکہ انہیں کسی اور راستے پر چل کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہیے تھا۔

مغرور ہونا، دوسروں سے حسد کرنا، حقائق اور حالات سے بے خبر رہنا وہ عیب ہیں، جو انسان کو اندھا بنا کر دوسروں کی نقل کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ شروع سے ہی کچھ نہیں جانتے کہ آخر میں کیا ہونے والا ہے۔

حضرت علی نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: "لوگ یا تو عالم ہیں یا طالب علم۔ تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ہر وقت ہر پکار کا جواب دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ مچھروں کی طرح ہیں جو ہوا کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ وہ بغیر کسی خواہش کے ہوا کی سمت اڑتے ہیں۔‘‘

اس قسم کے لوگ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کی بجائے اپنی ذہانت پر پردہ ڈال کر اسے ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ اڑنے کے لیے دوسروں کے پروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ اس دنیائے تخلیق میں کوئی دو افراد ہر میدان میں بالکل یکساں صلاحیتوں کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے۔ کوئی بھی شخص ہر لحاظ سے کسی دوسرے انسان کے برابر نہیں ہو سکتا، خواہ وہ شکل وصورت کا معاملہ ہو یا پسند و ناپسند کا۔ ایک آدمی کی ہتھیلیوں پر لکیریں ہمیشہ دوسرے لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ جب حالات ایسے ہوں تو ہماری طرف سے اپنی سوچ کو دوسروں کے خیالات سے جوڑنا اور خدا کی عطا کردہ انفرادی صلاحیتوں، صلاحیتوں اور مہارتوں سے فائدہ نہ اٹھانا انتہائی غیر دانشمندانہ ہے۔

عظیم لوگ ہمیشہ اپنے نئے راستے پر چلتے ہیں۔ وہ ان راستوں پر چل پڑے ہیں جن پر دوسروں نے پہلے نہیں چلا۔ انہوں نے انسانیت کو نیا تحفہ دیا ہے۔ ایسے عظیم لوگ زندگی بھر جدت پسند رہے ہیں، نئے خیالات، علوم اور صنعتوں کو جنم دیتے ہیں۔

سائنس کے میدان میں ڈیکارٹ کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ ایک دن اس نے ہر سائنس، خاص طور پر فلسفہ میں اپنے تمام پہلے کے علم سے اپنے ذہن کو صاف کر دیا، اور اپنے پہلے کے تمام خیالات اور نظریات کو بھی ترک کر دیا۔ اس طرح اس نے تمام یقین کو بھی شک میں بدل دیا۔ اس نے ہر چیز پر اتنا شک کیا کہ اسے شک ہوا کہ کیا وہ خود موجود ہے؟

اس بنیاد پر وہ فلسفہ کی تمام شاخوں میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوا۔ اگر وہ بھی دوسروں کی طرح علمی فلسفے کی پیروی کرتا تو وہ یہ کامیابی حاصل نہ کرتا۔

عظیم لوگ ہمیشہ آزادانہ سوچتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے خیالات کی غلامی سے آزادی ہی کامیابی کی سنہری کنجی ہے۔ ان کی رائے میں ذاتی معاملہ ہو یا سماجی معاملہ، اندھی تقلید خودکشی ہے۔

جس طرح ایک فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا راستہ خود تراشے اور اپنی شخصیت کو نکھارے اسی طرح ایک کامیاب معاشرے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نئی شاہراہوں پر گامزن ہو

تقلید کرنے والوں پر مشتمل ایک کمیونٹی جو آزادانہ سوچنے کے بجائے ہمیشہ دوسروں پر بھروسہ کرتی ہے وہ بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہے جس میں تمام جانور آنکھیں بند کرکے پہلی بھیڑ کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر آپ پہلے والی بھیڑ سے پہلے چھڑی کی رکاوٹ ڈالتے ہیں تاکہ وہ اس پر کود جائے تو تمام جانور اس کی پیروی کریں گے۔ پھر اگر آپ اس رکاوٹ کو ہٹا دیں تو بھی وہ اس مقام پر کودتے رہیں گے۔

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: