مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کل اور آج۔۔۔|| اظہر عباس

مجھے یہ واقعہ پتا نہیں کیوں یاد آ گیا۔ شاید اس لئے کہ جب میں نے خان صاحب کی نا اہلی کے فیصلے والے دن انکے حامیوں کا پولا پولا احتجاج دیکھا۔ عبرت ناک بات یہ تھی کہ بزعم خود قائد اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر کی نا اہلی پر احتجاج کیلئے فی شہر 100 بندہ بھی اکٹھا نا ہوا۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ 1979 کے موسم سرما کا آغاز تھا۔ میں نویں کلاس کا طالب علم اور والد گرامی اپنے کسی سرکاری کام کے سلسلے میں لاہور جانے لگے تو ضد کر کے ساتھ ہو لیا۔ 2 یا 3 دن کا پروگرام تھا اور لوہاری گیٹ کی طرف سے انارکلی کے آغاز میں ہی واقع نعمت کدہ ہوٹل میں رہائش۔ ان دنوں نعمت کدہ ہوٹل ایک اچھا، صاف ستھرا اور پر آسائش ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ سرکاری ملازمین اور لاہور سے باہر سے آئے زمینداروں کا پسندیدہ۔ کیونکہ ایک تو انارکلی کے قریب اور دوسری مارکیٹس قریب تر اور دوسرا سیکریٹیریٹ بھی چند لمحات کے فاصلے پر۔ ٹانگے عام سواری۔ والد صاحب جب بھی لاہور آتے تو یہیں قیام ہوتا۔ دن میں والد صاحب سیکریٹیریٹ اپنے کام میں مصروف رہتے اور سہ پہر اور شام میں ہمیں سیر کراتے یا چھوٹی موٹی شاپنگ۔ ہال روڈ ان دنوں بھی الیکٹرانکس کا مرکز تھا اور اس شام ہمیں اپنے ٹی وی کیلئے نئے انٹینا لینے ہال روڈ جانا تھا۔ مارشل لا کا دور تھا۔ بھٹو شہید کو عدالتی شہید کئے کچھ ہی ماہ گزرے تھے اور سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ سماجی سرگرمیوں پر بھی سخت ضوابط عائد تھے۔ دوکانیں جلدی بند ہوا کرتیں اور مال روڈ شام گہری ہونے کے بعد زیادہ تر سنسان ہی رہتا۔ فوجی گاڑیاں اپنی آمدو رفت جاری رکھتیں۔ لیکن زیادہ ٹریفک نظر نا آتا۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن ہم انارکلی سے ہال روڈ کیطرف گلیوں سے نکلے کہ شارٹ کٹ تھا ہلکی خنکی کا عالم تھا کہ ایک گلی میں اچانک ہلچل ہوئی۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے مال کی طرف گئے فضا جئے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھی اور نا جانے کہاں سے لوگ نکل کر اکٹھے ہو گئے۔ ایک کے ہاتھ میں پیٹرول کا کین تھا وہ اس نے اپنے اوپر چھڑکا اور ماچس کی تیلی کیا جلائی کہ پیٹرول نے آگ پکڑی اور اس کے بعد اس کے نعرے ہی میں نے سنے۔ پولیس اور فوج کے آتے آتے وہ خاصا جھلس چکا تھا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ والد صاحب کی کوشش کے باوجود میں یہ مناظر نا صرف دیکھ پایا بلکہ میری یادداشت میں ہمیشہ کیلئے ایک یاد چھوڑ گئے۔ پتا نہیں کیسے وہاں سے نکلے اور ہوٹل پہنچے لیکن والد بہت افسردہ تھے۔ ساری رات جب بھی میری آنکھ کھلی انہیں جاگتے اور زیر لب کچھ پڑہتے پایا۔

مجھے یہ واقعہ پتا نہیں کیوں یاد آ گیا۔ شاید اس لئے کہ جب میں نے خان صاحب کی نا اہلی کے فیصلے والے دن انکے حامیوں کا پولا پولا احتجاج دیکھا۔ عبرت ناک بات یہ تھی کہ بزعم خود قائد اعظم کے بعد سب سے بڑے لیڈر کی نا اہلی پر احتجاج کیلئے فی شہر 100 بندہ بھی اکٹھا نا ہوا۔ بڑے شہروں میں چوکوں کو بند کر کے اور ٹائروں کو آگ لگا کے احتجاج کا تاثر دیتے ان کے فالوورز ٹائروں کی آگ بجھتے ہی تتر بتر ہو گئے۔ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے چوک میں صاحب حیثیت حامی جمع ہوئے، پکنک منائی اور جب تھک گئے تو اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔

یہ اس صوبائی دارالحکومت کا احوال ہے جہاں ان کی حکومت ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ ان کے کی پیڈ (Key Pad) وارئیرز باہر نکل کر خود کو آگ لگانے کی بجائے ایک ٹائر جلانے اکتفا کر گئے ؟

آسان جواب ان کے حامیوں میں میلینلز کی اکثریت اور ان کی نفسیات میں پنہاں ہے جس پر آئیندہ کالم میں تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔ انشااللہ۔

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: