نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’امریکی سازش‘‘ کے الزام نے ہمارے معاشرے کے ذہین ترین اذہان کو بھی جس انداز میں مفلوج بنارکھا ہے اس کے ہوتے ہوئے اس حقیقت پر توجہ ہی نہیں دی جارہی کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ گزشتہ تین ہفتوں سے وزیر اعلیٰ کے بغیر چل رہا ہے۔ڈرائیور کے بغیر ایک دیوہیکل مشین کو اس کے حال پر چھوڑدینا بے تحاشہ حادثات کا سبب ہوسکتا ہے۔ہمارے میڈیا کی اکثریت تاہم اس کے بارے میں ہرگز فکرمند نظر نہیں آرہی۔ سفاکانہ لاتعلقی پر غور کرتا ہوں تو بلھے شاہ یاد آجاتا ہے جس کے دور میں پنجاب کا کئی دہائیوں تک ’’براحشر‘‘ رہا۔ کس کی ماں کو ماسی کہیں جیسے محاورے نمودار ہوئے۔
اسد مجید کی دیومالائی بنائی ’’بہادری‘‘ فی الوقت میرا دردِ سر نہیں۔اصل پریشانی یہ ہے کہ تین ہفتے سے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ کے بغیر چل رہا ہے۔ تحریری آئین کے ہوتے ہوئے بھی سرکاری مشینری کی نگہبانی سے محروم ہوئے پنجاب میں خدانخواستہ کوئی سنگین مسئلہ کھڑا ہوگیا تو اس سے نبردآزما ہونے کی ذمہ داری کس کے سرتھونپی جائے گی۔عمر سرفراز چیمہ مگر اپنے کپتان کی طرح ’’ڈٹ کر کھڑے‘‘ ہیں۔ مداحین سے ’’جی داری‘‘ دکھانے کی بنیاد پر دادوتحسین وصول کررہے ہیں۔عوام ریاستی خلفشار کے اس موسم میں کس کی ماں کو ماسی کہیں؟
یہ بھی پڑھیے
”بدن دی بھوئیں تے مُونجھ دا متام“ (وسیب یاترا :11)||سعید خاور
””سندھو سکرات وِچ اے“ (وسیب یاترا :10)||سعید خاور
””میاں عثمان عباسی کنوں نکھیڑے دِی ݙَنج“ (وسیب یاترا :9)||سعید خاور