نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حیران ہوں کہ روئوں یا پیٹوں جگر کو میں‘‘۔ غالبؔ کا یہ مصرعہ عمران حکومت کے دومستعد، متحرک اور وفادار وزراء کی یہ تجویز سن کر یاد آیا ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو وہ ’’چٹھی‘‘بھیجنا چاہ رہی ہے جس کے ذریعے وزیر اعظم صاحب کو دھمکی دی گئی ہے کہ ’’اپنا رویہ بدلو-ورنہ…‘‘
عمران خان صاحب نے مبینہ خط کا ذکر اتوار کی شام اسلام آباد میں جمع ہوئے اپنے حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔مذکورہ خط کی محض جھلک دکھاتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے البتہ گریز کیا کہ وہ کونسے ملک یا ممالک کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔اس کے ذریعے عمران خان صاحب کی کونسی’’خطائوں‘‘ کا ذکر ہوا جس نے اب تک خفیہ رکھی طاقتوں کو ناراض کردیا ہے۔
عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ یعنی آئی ایم ایف کئی حوالوں سے امریکہ کا طاقت ور ترین معاشی ہتھیار بھی ہے۔اس ادارے کا رویہ ان دنوں ہمارے ساتھ ہرگز ہمدردانہ نہیں۔ہم پر بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمت بتدریج بڑھانے کا دبائو ہے۔اسے مطمئن رکھنے کو وزیر خزانہ شوکت ترین منی بجٹ پیش کرنے کو مجبور ہوئے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آئی ایم ایف سے آئے گورنر رضاباقر کو بھی باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ویسے ہی اختیارات فراہم کردئیے گئے ہیں جو ہمارے خطے میں برطانیہ کی حکمرانی کے دوران ’’وائسرائے‘‘ کے لئے مختص ہوا کرتے تھے۔منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کو اختیارات فراہم کرنے کے لئے ہوئی قانون سازی کے دوران شوکت ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے کھل کر بیان کردیا تھا کہ وہ جن دنوں زرداری-گیلانی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیا کرتے تھے تو مذکورہ ادارے کا رویہ ’’دوستانہ‘‘ تھا۔اب کی بار مگر ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔‘‘
اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو ’’دھمکی آمیز‘‘ خط ملتے ہی وزیر اعظم عمران خان صاحب کو فی الفور کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا چاہیے تھا۔وہاں مذکورہ خط کے مندرجات کو زیر بحث لاتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔
قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے والے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ’’دھمکی آمیز خط‘‘ کو سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس صاحب تک پہنچانے کی تجویز مجھ جیسے بے اختیار پاکستانی کے دل میں جو تاثر اجاگر کرے گی میں اس کا سرسری ذکر کرتے ہوئے بھی گھبرا رہا ہوں۔یاد رہے کہ ان دنوں سپریم کورٹ ایک صدارتی ریفرنس کی سماعت میں مصروف ہے۔مذکورہ ریفرنس کے ذریعے عمران حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یہ طے کردے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران حکومتی جماعت سے لاتعلق ہوتے والے ارکان اگراپوزیشن کی حمایت میں ووٹ ڈالیں تو آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ہوجائیں۔فرض کیا ’’دھمکی آمیز خط‘‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے روبرو پیش ہوا تو وہ یہ سوچنے کو بھی مجبور ہوسکتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد درحقیقت پاکستان کے ازلی دشمنوں کی رچائی سازش کا شاخسانہ ہے۔وہ اس کی وجہ سے 63-Aکی ویسی ہی تشریح فراہم کرنے کو آمادہ ہوسکتے ہیں جس کی عمران حکومت بے تابی سے طلب گار ہے۔ ایسا ہوا تو ہماری معزز ترین عدالت خلق خدا کے لئے موجودہ حکومت کو ’’سیاسی مدد‘‘ فراہم کرتی نظر آئے گی۔خدارا ایسی فضا بنانے سے گریز کیجئے۔سیاسی جنگ کو اس کے اصل میدان یعنی پارلیمان تک ہی محدود رکھیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر