مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاسی جنگ پارلیمان تک ہی محدود رکھیں|| نصرت جاوید

اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو ’’دھمکی آمیز‘‘ خط ملتے ہی وزیر اعظم عمران خان صاحب کو فی الفور کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا چاہیے تھا۔وہاں مذکورہ خط کے مندرجات کو زیر بحث لاتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’حیران ہوں کہ روئوں یا پیٹوں جگر کو میں‘‘۔ غالبؔ کا یہ مصرعہ عمران حکومت کے دومستعد، متحرک اور وفادار وزراء کی یہ تجویز سن کر یاد آیا ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو وہ ’’چٹھی‘‘بھیجنا چاہ رہی ہے جس کے ذریعے وزیر اعظم صاحب کو دھمکی دی گئی ہے کہ ’’اپنا رویہ بدلو-ورنہ…‘‘

عمران خان صاحب نے مبینہ خط کا ذکر اتوار کی شام اسلام آباد میں جمع ہوئے اپنے حامیوں کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔مذکورہ خط کی محض جھلک دکھاتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے البتہ گریز کیا کہ وہ کونسے ملک یا ممالک کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔اس کے ذریعے عمران خان صاحب کی کونسی’’خطائوں‘‘ کا ذکر ہوا جس نے اب تک خفیہ رکھی طاقتوں کو ناراض کردیا ہے۔

میں اس بحث میں ہرگز نہیں اُلجھنا چاہتا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو ’’دھمکی آمیز‘‘ چٹھی وصول ہوئی ہے یا نہیں۔ان کے ناقدین اگرچہ اصرار کررہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے وہ ’’دھمکی آمیز خط‘‘ کو ڈھال کی صورت استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔خارجہ امو ر کی بابت رپورٹنگ پر عمر عزیز کی دو سے زیادہ دہائیاں خرچ کرنے کی وجہ سے اگرچہ مصر رہوں گا کہ ریاستیں ایک دوسرے کو چٹھیاں لکھ کر دھمکیاں نہیں دیا کرتیں۔اپنے اقدامات سے مخاصمت کا اظہار کرتی ہیں۔
کوئی خط لکھے بغیر مثال کے طورپر امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے عمران حکومت سے اپنی دوری کو چند ٹھوس رویوں سے عیاں کیا ہے۔نئے امریکی صدر کو اپنا منصب سنبھالے 15سے زیادہ مہینے گزر چکے ہیں۔ جوبائیڈن نے اس کے دوران عمران خان صاحب کو خیرسگالی والا فون تک نہیں کیا۔حالانکہ افغانستان کے تناظر میں اسے ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے تھا۔

عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ یعنی آئی ایم ایف کئی حوالوں سے امریکہ کا طاقت ور ترین معاشی ہتھیار بھی ہے۔اس ادارے کا رویہ ان دنوں ہمارے ساتھ ہرگز ہمدردانہ نہیں۔ہم پر بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمت بتدریج بڑھانے کا دبائو ہے۔اسے مطمئن رکھنے کو وزیر خزانہ شوکت ترین منی بجٹ پیش کرنے کو مجبور ہوئے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آئی ایم ایف سے آئے گورنر رضاباقر کو بھی باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ویسے ہی اختیارات فراہم کردئیے گئے ہیں جو ہمارے خطے میں برطانیہ کی حکمرانی کے دوران ’’وائسرائے‘‘ کے لئے مختص ہوا کرتے تھے۔منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کو اختیارات فراہم کرنے کے لئے ہوئی قانون سازی کے دوران شوکت ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے کھل کر بیان کردیا تھا کہ وہ جن دنوں زرداری-گیلانی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیا کرتے تھے تو مذکورہ ادارے کا رویہ ’’دوستانہ‘‘ تھا۔اب کی بار مگر ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔‘‘

’’دھمکی آمیز خط‘‘ کی حقیقت کو زیر بحث لانا آج کے کالم کا موضوع نہیں۔میں پریشانی کی حد تک حیران سینئر وزراء کی یہ تجویز سن کر ہوا ہوں کہ مبینہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کو بھجوادیا جائے۔سپریم کورٹ کا بنیادی فریضہ وطن عزیز میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو مسلح افواج اور قومی سلامتی کے نگہبان دیگر ادارے اس سے نبردآزما ہونے کے ذمہ دار ہیں۔

اس حقیقت کو ذہن میں رکھیں تو ’’دھمکی آمیز‘‘ خط ملتے ہی وزیر اعظم عمران خان صاحب کو فی الفور کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کا اجلاس طلب کرنا چاہیے تھا۔وہاں مذکورہ خط کے مندرجات کو زیر بحث لاتے ہوئے کوئی ٹھوس حکمت عملی اختیار کرنا چاہیے تھی۔

میرے اور آپ جیسے 22کروڑ عام پاکستانی بنیادی حقوق سے مالا مال’’شہری‘‘ نہیں حکمران اشرافیہ کی ’’رعایا‘‘ ہیں۔ہمارے ہاں مگر مبینہ طورپر ’’سب پہ بالادست‘‘ ’’منتخب پارلیمان‘‘ بھی ہے۔قومی اسمبلی اور سینٹ میں امور خارجہ پر نگاہ رکھنے کو دو خصوصی کمیٹیاں بھی موجود ہیں۔بہتر تو یہی تھا کہ کابینہ کی قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکمران حکومت مذکورہ خط کو ان کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے روبرو پیش کرتی۔حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو مذکورہ کمیٹیوں میں بھرپور نمائندگی میسر ہے۔ہمارے نام نہاد ’’نمائندوں‘‘ کو ’’دھمکی آمیز خط‘‘ کی وجہ سے وطن عزیز پر چھائے خطرات کے بادل منڈلاتے نظر آتے تو شاید وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
’’دھمکی آمیز خط‘‘ کی تفصیلات کو سفارتی تقاضوں کی وجہ سے خفیہ رکھنا ہی مقصود تھا تو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے سربراہ شہباز شریف صاحب کو وفاقی کابینہ کی خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں شمولیت کی دعوت دی جاسکتی تھی۔ مسلح افواج کے سربراہان اور قومی سلامتی کے نگہبان بھی مذکورہ کمیٹی میں مدعو کئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم مگر شہباز شریف کو ’’مجرم‘‘ شمار کرتے ہیں۔ ان سے ہاتھ ملانے کو بھی آمادہ نہیں۔

قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بنانے والے اداروں کے ہوتے ہوئے بھی ’’دھمکی آمیز خط‘‘ کو سپریم کورٹ کے عزت مآب چیف جسٹس صاحب تک پہنچانے کی تجویز مجھ جیسے بے اختیار پاکستانی کے دل میں جو تاثر اجاگر کرے گی میں اس کا سرسری ذکر کرتے ہوئے بھی گھبرا رہا ہوں۔یاد رہے کہ ان دنوں سپریم کورٹ ایک صدارتی ریفرنس کی سماعت میں مصروف ہے۔مذکورہ ریفرنس کے ذریعے عمران حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یہ طے کردے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران حکومتی جماعت سے لاتعلق ہوتے والے ارکان اگراپوزیشن کی حمایت میں ووٹ ڈالیں تو آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ہوجائیں۔فرض کیا ’’دھمکی آمیز خط‘‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے روبرو پیش ہوا تو وہ یہ سوچنے کو بھی مجبور ہوسکتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد درحقیقت پاکستان کے ازلی دشمنوں کی رچائی سازش کا شاخسانہ ہے۔وہ اس کی وجہ سے 63-Aکی ویسی ہی تشریح فراہم کرنے کو آمادہ ہوسکتے ہیں جس کی عمران حکومت بے تابی سے طلب گار ہے۔ ایسا ہوا تو ہماری معزز ترین عدالت خلق خدا کے لئے موجودہ حکومت کو ’’سیاسی مدد‘‘ فراہم کرتی نظر آئے گی۔خدارا ایسی فضا بنانے سے گریز کیجئے۔سیاسی جنگ کو اس کے اصل میدان یعنی پارلیمان تک ہی محدود رکھیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: