مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رکھا نہیں ” غربت ” نے کسی اک کا بھرم بھی||حیدر جاوید سید

اس طور ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ جب قتل کی سزا کی طرح فلور کراسنگ کی سزا بھی دستور میں موجود ہے تو پھر ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد سے جاری بحثوں اور ملاکھڑوں کے بیچوں بیچ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ہی آئین بناتی ہیں اور انہیں ہی آئین کی حفاظت کے ساتھ اس بات کو ہر ہر قدم پر یقینی بنانا چاہیے کہ کوئی ایسا اقدام یا عمل سرزد نہ ہو جو آئین سے متصادم ہو یا اس سے آئین کی کسی شق سے انحراف کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
دستور کے آرٹیکل 163اے اور متعلقہ شقوں کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان کے ریمارکس سوالات اور اٹارنی جنرل کے دلائل کا تعلق دائر ریفرنس کے حوالے سے ہے پھر بھی قانون، سیاست اور صحافت کے طالب علموں اور عوام الناس کی رہنمائی کے لئے ان میں بہت کچھ ہے۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ پارٹی ڈسپلن کی پابندی حرف آخر ہے یا ایک یا چند ’’ضمیر کی آواز‘‘ پر لبیک بھی کہہ سکتے ہیں؟ پارٹی ڈسپلن کی مخصوص حالات اور ضرورتوں (آئین میں اس کی وضاحت موجود ہے) میں خلاف ورزی پارٹی سربراہ کو تادیبی کارروائی کا حق دیتی ہے اس حق کے استعمال کا طریقہ کار اور مراحل بھی دستور میں لکھے ہیں۔
فی الوقت حکمران قیادت کے بعض ذمہ داران منحرف ارکان اور صدارتی ریفرنس کے حوالے سے عدالت سے باہر جن خیالات کا اظہار کررہے ہیں ان سے عمومی تاثر یہ لیا جارہا ہے کہ اگر کسی جماعت کا کوئی رکن پارٹی سربراہ سے اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے تو اسے پارلیمانی عمل کے مخصوص مراحل میں ووٹ دینے سے روکنا پارٹی سربراہ کا حق ہے اور وہ اس کے لئے سپیکر کو خط لکھ دے تو سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ رکن کا ووٹ شمار نہ کرے۔
اس عمومی تاثر پر بھی پچھلے دو دنوں میں صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جج صاحبان نے ریمارکس دیئے اور اٹارنی جنرل سے سوالات بھی کئے۔ اٹارنی جنرل معزز جج صاحبان کے سوالات کے جواب میں دلائل دیتے ہوئے بسا اوقات جذباتی ہوئے ایسے مواقع پر جج صاحبان نے انہیں یاد دلایا کہ وہ صدر مملکت کے دائر کردہ ریفرنس میں حکومت کے وکیل ہیں کسی سیاسی جماعت کے نہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آئین سے روگردانی کا وقتی طور پر تو کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے مگر حقیقت میں آئین سے انحراف جمہوری عمل اور پارلیمانی روایات کے لئے مستقل خطرہ ہی نہیں بلکہ اس سے جمہوری نظام کے استحکام کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوں گی۔
مملکت ہو قوم یا نظام، تعمیروترقی، استحکام اور مساوات کے لئے ازبس ضروری ہے کہ دستور پر بہرصورت عمل ہو اور یہ عمل زبانی کلامی نہیں بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔
ہمارے ہاں مغرب کے نظاموں کی پائیداری اور استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے کی مثالیں دینے والوں نے کبھی اس امر پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان ممالک میں سیاسی جماعتوں نے ملکی دساطیر سے انحراف کی روش کی حوصلہ افزائی کبھی نہیں کی بعین ہی اسی طرح کسی قائد ایوان اگر وہ جماعت کا سربراہ بھی ہو تو اس نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو جمہوریت، ریاست اور نظام پر حملہ بھی قرار نہیں دیا۔
قریب ترین برسوں میں برطانیہ میں وزرائے اعظموں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بار آور ہوئیں۔ وزیراعظم منصب سے الگ ہوگئے۔ ہمارے ہاں جمہوری اصولوں کی پاسداری کے بلندبانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر ناگزیر ہونے کی سوچ بھی ’’چھٹتی نہیں ہے کافر یہ منہ کو لگی ہوئی‘‘ کے مصداق ہی ہے۔
قیادت کی اہمیت یقیناً ہے بالخصوص تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں نظریات کی بجائے سیاسی جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں لیکن دستور شخصیات سے بلند و اہم ہوتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادتوں کو یہ حقیقت مدنظر رکھنا ہوگی کہ جمہوریت چھینا جھپٹی کو نہیں بلکہ اصولوں کی پاسداری کو کہتے ہیں۔
سیاست برائے حکومت کا مطلب فرد کی حاکمیت نہیں بلکہ سیاست برائے حکومت اور حکومت خدمت خلق کے لئے ہوتی ہے۔ خدمت خلق اسی صورت میں ممکن ہے جب اقتدار کا اصل مالک عوام کو سمجھا جائے اور اس حقیقت کا کھلے دل کے ساتھ اعتراف کیا جائے کہ عوام کے نمائندے عوام کے فراہم کردہ اعتماد پر امور مملکت دستور و قانون کے مطابق چلانے کے پابند ہیں۔

ہمارے ہاں سب سے بڑی بدقسمتی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ دستور قانون سازوں کے ہاتھوں ہی بازیچہ اطفال بنا یا پھر آمروں نے دستور کے ساتھ ریاست اور عوام کی خوب درگت بنائی۔
دستور کے آرٹیکل 63اے اور متعلقہ شقوں کی تشریح کے لئے صدارتی ریفرنس کا دائر کیا جانا کسی بھی طور غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔
صدر مملکت بھی آئینی شقوں کی تشریح چاہتے عدالت سے اس امر کے متقاضی نہیں کہ وہ انہیں ترمیم کا اختیار سونپ دے یا ایسا کوئی فیصلہ صادر کردے جو دستور اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو متاثر کرتا ہو۔ وطن عزیز کے معروضی حالات اور سیاسی تاریخ کے اتار چڑھائو پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کا ماحول تب بنا جب خود سیاسی نظام کے محافظوں نے اپنے حقیقی فرائض سے منہ موڑ کر اس چھینا جھپٹی کی حوصلہ افزائی کی جو موقع پرستی سے عبارت تھی۔
جمعہ کو ریفرنس کی سماعت کے دوران لارجر بنچ کے ایک رکن جسٹس اعجازالاحسن کا یہ کہنا بجا تھا کہ صدر مملکت نے آئینی شق کی تشریح چاہی ہے ترمیم نہیں، عدالتی خود کو تشریح تک ہی محدود رکھے گی۔
بنچ کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ جرم سرزد ہونے سے قبل سزا کا اعلان کیسے ممکن ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قتل کی سزا قانون میں قتل ہونے سے پہلے ہی لکھی ہوئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے یہ پیش نظر کیوں نہیں رکھا کہ فلور کراسنگ کی سزا بھی تو دستور میں لکھی ہوئی ہے سزا کیسے دینی ہے طریقہ کار کیا ہوگا یہ بھی صاف صاف لکھا ہے۔
اس طور ان سے دریافت کیا جاسکتا ہے کہ جب قتل کی سزا کی طرح فلور کراسنگ کی سزا بھی دستور میں موجود ہے تو پھر ریفرنس دائر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ حکومت ہو یا حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں، سبھی کو سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جو کام پارلیمان کے کرنے کے ہیں ان کے لئے دوسرے دروازوں پر دستک غیرضروری ہے۔
عدالت (سپریم کورٹ) کا کام دستوری نکات کی تشریح ہے قانون سازی ہرگز نہیں۔ سیاسی جماعتیں جب انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹیوں میں قانون سازی کی سفارشات کررہی تھیں تو اس معاملے کو بھی قبل از وقت دیکھ لیتیں۔
ثانیاً یہ کہ جس عمل کی بعض جماعتیں آج حوصلہ افزائی کررہی ہیں مستقبل میں ایسے ہی عمل کے دہرائے جانے کی وجہ سے وہ ناکوں چنے چبانے پر مجبور ہوں گی
جیسے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے اپوزیشن کے بعض ارکان کی وفاداریاں تبدیل کرواکر حکومت جمہوریت کی فتح کے نعرے لگارہی تھی اور آج پریشان ہے۔
سیاسی جماعتوں کو یہ حقیقت ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہیے کہ دستور ملکی سلامتی اور قومی وحدت کا نسخہ کیمیا ہے۔
دستور سے انحراف یا اس کی کسی شق کو پس پشت ڈالنے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنے تنظیمی ڈھانچوں میں جمہوریت کی آبیاری کو اولیت دی ہوتی تو انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
بہرطور صدارتی ریفرنس کا جو بھی فیصلہ ہو، بنیادی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت تحمل، تدبر اور دانش مندی کے ساتھ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرے۔
ایسا کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا جائے جس سے جمہوری عمل اور نظام کے حوالے سے منفی جذبات جنم لیں۔ ابھی تو یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ
رکھا نہیں غربت نے کسی اِک کا بھرم بھی
میخانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: