مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کی ’’ڈبہ‘‘ ثابت ہوئی طویل تقریر || نصرت جاوید

آج کے کالم میں فقط یہ عرض کرنے تک محدود رہوں گا کہ عمران صاحب کو امریکہ اور مغرب نے ابھی تک بھٹو صاحب کی طرح مستقل پریشان نہیں رکھا ہے۔آج سے تین سال قبل بلکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بہت چائو سے انہیں امریکہ مدعو کیا تھا۔ یہ تحریک اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اپنے تئیں قوم کی رہ نمائی کو مامور ’’صحافی‘‘ تاہم حکومت اور اس کے مخالفین کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ فریقین کو نہایت درد مندی سے سمجھارہے ہیں کہ وطن عزیز محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ سڑکوں پر ایک دوسرے کی سرپھٹول کے بجائے یہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرلیں۔فریقین نے ان کے حکیمانہ مشوروں پر کان نہ دھرے تو دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ معاملات شدید سے شدید تر تنائو کی صورت اختیار کرگئے تو اب تک ’’نیوٹرل‘‘ رہی قوتوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ان کے متحرک ہوجانے کے بعد نمودار ہوئے مصالحتی فارمولوں پر عمل نہ ہوا تو ’’سسٹم‘‘ خطرے میں پڑجائے گا۔ میں اگرچہ آج تک سمجھ نہیں پایا کہ جس ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں اس نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کس نوع کا ’’اختیار‘‘ فراہم کررکھا ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات کے ہاتھوں بے بس ہوئے ہم ذلتوں کے مارے عوام کامبینہ ’’سسٹم‘‘ میں کیا اور کتنا حصہ ہے۔ ہم اسے بچانے کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کے دن عمران خان صاحب کی تقریر کا اشتیاق کی جس شدت سے انتظار تھا اس کا اندازہ آپ میرے ذاتی رویے سے بھی لگاسکتے ہیں۔عرصہ ہوا ٹیلی وژن دیکھنا میں نے چھوڑ رکھا ہے۔اتوار کی شام ڈھلتے ہی لیکن نہادھوکر بظاہر کسی تقریب میں جانے کی خاطر ریموٹ کا بٹن دباکر اپنے کمرے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔بالآخر سات بجنے میں پانچ منٹ کے قریب خان صاحب نے ڈائس سنبھالا اور دو گھنٹوں تک بولتے ہی چلے گئے۔

مجھے گماں ہے کہ عوام کی بے پناہ اکثریت خواہ وہ تحریک انصاف کی خیرخواہ نہ بھی ہومذکورہ تقریر کا بے تابی سے انتظار کررہی ہوگی۔ان کی طلب بھڑکانے کے لئے افواہیں یہ بھی پھیلائی گئیں کہ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے ریاست کے اہم ترین عہدے کی بابت کوئی ’’ڈرامائی اعلان‘‘ نہ بھی کیا تب بھی وہ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے بقیہ اراکین سمیت مستعفی ہونے کا اعلان کرسکتے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختون اسمبلی تحلیل کرنے کی افواہیں بھی گردش میں رہیں۔مذکورہ افواہوں کی وجہ سے توانا تر ہوئے تجسس نے ویسی ہی فضا بنادی جو کسی فلم کی نمائش سے قبل شائقین کے دل ودماغ کو موہ لیتی ہے۔جو تجسس ابھارا گیا اس کے تناظر میں اگرچہ عمران خان صاحب کی ضرورت سے زیادہ طویل تقریر کا جائزہ لیں تو وہ ’’ڈبہ‘‘ ثابت ہوئی۔

عمران خان صاحب کو آپ پسند کریں یا نہیں۔یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمارے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد ان کی جنونی حد تک گرویدہ ہے۔ان کی بتائی ہر بات کو مبنی برحق تصور کیا جاتا ہے۔اس تناظر میں مجھے ان کی زبان سے یہ دعویٰ سن کر واقعتا دُکھ ہوا کہ ان کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالنے سے قبل ہمارے کھلاڑی ’’گوروں‘‘ کے خلاف کھیلتے ہوئے گھبرائے رہتے تھے ۔ میں کرکٹ کی تاریخ سے قطعاََ نابلد ہوں۔مجھ جیسے بے خبر شخص کو بھی تاہم یاد ہے کہ میرے بچپن میں لاہور کی گلیوں میں فضل محمود کے بہت چرچے تھے۔انگلینڈ کے اوول سٹیڈیم میں ایک میچ ہوا تھا۔ کاردار ہماری ٹیم کے کپتان تھے اور فضل محمود نے مخالف ٹیم کی وکٹوں کو بے رحمی سے اُڑاتے ہوئے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا تھا۔اپنی ’’عظمت‘‘ کا احساس دلانے کے لئے عمران خان صاحب کا کار دار اور فضل محمود کی بنائی تاریخ کو رعونت سے بھلادینا غیر مناسب تھا۔

کرکٹ سے قطع نظر میری دانست میں عمران صاحب اتوار کے روز ہوئی تقریر کے ذریعے خود کو دورِ حاضر کا ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کی کوششوں میں بھی مبتلا نظر آئے۔ یوں کرتے ہوئے مگر انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ بھٹو نے محض ایک ’’دھمکی بھرے خط‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کو نہیں للکارا تھا۔ 1967ء میں ایوب حکومت سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے Myth of Independenceکے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کے ذریعے ثابت کرنا چاہا کہ پاکستان جیسے ممالک کی آزادی ’’بے وقار‘‘ ہے۔عالمی سامراج نے انہیں سیٹو اور سینٹو جیسے ’’اتحادوں‘‘ میں جکڑرکھا ہے۔یہ کتاب لکھنے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی نامی جماعت بنائی۔ اس نے پاکستان کے لئے خودمختار خارجہ پالیسی تیار کرنے کا عزم کیا۔اقتدار میں آنے سے کئی ماہ قبل وہ عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتے رہے کہ ان دنوں پاکستان میں امریکہ کے تعینات سفیر فارلینڈ کو ملک بدر کردیا جائے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ امریکہ نے انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں بھرپور حصہ لیا تھا اور سوئیکارنوبھٹو صاحب کے ذاتی دوست ہی نہیں پاکستان کے بھی دیرینہ خیرخواہ رہے تھے۔

پاکستان دولخت ہوجانے کے بعد بھٹو پاکستان کے حکمران ہوئے تو 1973ء میں عرب-اسرائیل جنگ چھڑگئی۔بھٹو حکومت نے پاکستان کے انتہائی تجربہ کار پائلٹوں کو شام روانہ کردیا تانکہ وہ اسرائیل کی فضائی جارحیت کو ناکارہ بناسکیں۔شام کے عوام آج تک پاکستان کا وہ کردار نہیں بھولے ہیں۔عرب-اسرائیل جنگ کے دوران امریکہ نے جس انداز میں اپنے روایتی حلیف کا کھل کر ساتھ دیا بھٹو صاحب نے اس کا توڑ مہیا کرنے کے لئے اسلامی ممالک کو متحد کرنے کی ٹھان لی۔تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک کو اس کی قیمت بڑھانے کو بھی آمادہ کیا۔ بعدازاں لاہور میں فروری 1974ء کے دوران مسلم ممالک کے سربراہان کا تاریخی اجلاس بھی منعقد کروایا۔

1974ء ہی میں بھارت نے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ سے دو چار کرنے کے بعد ایٹمی دھماکہ کردیا تھا۔بھٹو اس سے خوفزدہ نہ ہوئے اور پاکستان کو بھی ہر صورت ایٹمی قوت بنانے کا تہیہ کرلیا۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ان کی لگن نے امریکہ کے مشہور دانشور اور نکسن حکومت میں اہم پالیسی ساز عہدوں پر فائز رہے ڈاکٹر ہنری کسنجر کو پاکستان کے ہنگامی دورے پر مجبور کیا۔ اس کے دوران بھٹو صاحب کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا تو انہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنادیا جائے گا۔

بھٹو باز نہیں آئے تو 1977ء میں ان کے خلاف نوستاروں والی تحریک شروع ہوگئی۔ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کو برملا اس تحریک کی معاونت کا ذمہ دار ٹھہراتے ر ہے۔اپنی بات ثابت کرنے کو بارہا یاد دلاتے کہ ہمارے کرنسی بازار میں امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے کے مقابلے میں مسلسل کم ہورہی ہے۔1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران ’’پہیہ جام‘‘ ہڑتالیں بھی ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب عوامی اجتماعات میں یاد دلاتے رہے کہ ’’پہیہ جام‘‘ نامی بلاسب سے قبل چلی نامی ملک میں متعارف ہوئی تھی۔ لاطینی امریکہ کا آلنڈے امریکہ کو پسند نہیں تھا۔اس کی حکومت کو مفلوج کرنے کے لئے سی آئی اے نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ ’’پہیہ جام‘‘ اس ضمن میں اس کا اہم ترین ہتھیار تھا۔بھٹو صاحب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ اختلافات کی تفصیل بتانے کے لئے مگر کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔

آج کے کالم میں فقط یہ عرض کرنے تک محدود رہوں گا کہ عمران صاحب کو امریکہ اور مغرب نے ابھی تک بھٹو صاحب کی طرح مستقل پریشان نہیں رکھا ہے۔آج سے تین سال قبل بلکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بہت چائو سے انہیں امریکہ مدعو کیا تھا۔وائٹ ہائوس میں ان کے ہمراہ بیٹھے ٹرمپ نے ازخود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔عمران خان صاحب امریکہ میں اپنے ساتھ برتے سلوک سے اتنے خوش ہوئے کہ وطن لوٹتے ہی اعلان کردیا کہ انہیں ورلڈ کپ جیتنے جیسی شادمانی محسوس ہورہی ہے۔

خارجہ امور کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں اصرار کرتا ہوں کہ ’’دھمکیاں‘‘ باقاعدہ خط کے ذریعے تحریری صورت میں نہیں لکھی جاتیں۔ فرض کیاامریکہ یا اس کے اتحادیوں سے ایسی حماقت سرزد ہوہی گئی تھی تو ہمارے وزیر خارجہ دھمکی لکھنے والے ملک کے پاکستان میں تعین سفیر کو اپنے دفترطلب کرتے۔ مذکورہ یا مبینہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کا اظہار کرتے۔ اس احتجاج کو تحریری صورت بھی دی جاسکتی تھی جسے سفارتی زبان میں D’Marcheکہا جاتا ہے۔’’دھمکی‘‘ والے خط کو عوامی اجتماع میں اس کی تفصیل بیان کئے بغیر دکھانے کی قطعاََ ضرورت نہیں تھی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: