اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لوہے دا دروازہ، کِھیری دِی دُکان||عباس سیال

ماسٹر سدوکا شکریہ ادا کرکے اسلم صاحب اُن سب کو رش میں سے گزارتے ہوئے آگے چلے جا رہے تھے۔پھٹ پھٹ کرتے آٹو رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے سائیلنسروں سے خارج ہوتا دھواں،پانچ دھائیاں دِیار غیر میں گزارنے کے باوجود وہ محبت اور عقیدت کے ساتھ اس آلودہ ماحول کا حصہ بن گئی تھی۔

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ1989ء کا ایک سرد دن تھا،ڈیرہ آٹو اسٹور کے سامنے یکایک ایک گاڑی رکی۔ گاڑی کے اندر بیٹھے مرد اور عورت نے شیشے کے پار کا منظر دیکھا اور دونوں گاڑی سے باہرنکل آئے۔مرد نے پینٹ شرٹ جبکہ عورت نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی مگر ماتھے پر تلک کی وجہ سے وہ غیر مسلم لگتی تھی۔مرد کے ہاتھ میں کیمرہ تھا،وہ سمٹی دھوپ میں اردگرد پھیلی زندگی اور چلتے پھرتے ماحول کو کیمرے کی آنکھ میں اتارنے لگا جبکہ عورت ا شتیا ق بھری نظروں سے اردگرد کے ماحول کو تکنے لگی۔وہ عورت چلتی چلتی ڈیرہ آٹو اسٹور کے سامنے آن کھڑی ہوئی اور دکان پر لگے سائن بورڈ کو توجہ سے پڑھنے لگی۔ عورت کو دکان کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ کر دکان کا مالک(محمداسلم چکڑیال) باہرنکلا اور اس سے اردو میں ہم کلام ہوا۔ اسلم صاحب کے سوال کا جواب اردو میں دینے کی بجائے وہ عورت ٹھیٹھ سرائیکی میں بولی۔”میں ہندوستان کول آئی ہاں،پکی دیرے وال ہاں،میڈی اِ تھیئں دی پیدائش ھِ تے میں آپڑا گھر ڈیکھن کیتے آئی ہاں،مگر میکوں آپڑا گھر نیں پیا لبھدا،میڈی کجھ مدد کرو“۔میڈا ناں محمد اسلم ھِ تے میں تیڈی ضرور مدد کریساں۔اسلم صاحب کے لہجے کی سچائی جانتے ہی اُس عورت نے تصویر کشی میں مصروف اپنے خاوند کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا۔اسلم صاحب ان دونوں کو اپنی دکان کے اندر لے گئے۔سب سے پہلے اُن کی خاطر مدارت کی، اس کے بعد اپنا تعارف کروایا اور اس کے بعد ان سے بات چیت شروع ہوگئی۔سب سے پہلے مرد نے اپنا مختصر تعارف کروایا۔
میڈا ناں ہرِیش گروور ھ،میڈی پیدائش خاص پہاڑپور دی ھ،میں پیشے دے لحاظ نال ایم ایم بی ایس گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر ہاں،ہارٹ اسپیشلسٹ ہاں تے سر گنگا رام ہسپتال(دہلی)اِچ کنسلٹنٹ ہاں۔ میڈی پتنی وی ایم بی بی ایس ھِ۔اساڈا دہلی دے راجندر نگر اچ آپڑا ذاتی کلینک وی ھِ۔اساں لہور ہک انٹرنیشنل سیمینار دے سلسلے اچ پاکستان آئے ہوئے ہیں تے کل سرکار دی خصوصی اجا زت گھن تے لہور کول ہک ڈِیں کیتے سدھا دیرہ آئے ہیں۔اساں اِتھاں ڈاکٹر فتح اللہ کول ٹِکے پئے ہیں۔میڈی پتنی خاص دیرے وال ھِ تے آپڑی جنم بھومی ڈیکھن ایندی آخری اِکشا ہئی۔اسلم صاحب کے استفسار پر عورت نے بتایا کہ اُس کے پِتا جی ڈگری کالج ڈیرہ میں اکنامکس کے پروفیسر تھے۔تقسیم کے بعد ہمارا گھرانہ ہندوستان ہجرت کر گیا تھا۔ اس وقت میں سکول میں پڑھتی تھی لیکن مجھے ابھی تک اپناگھر اور محلہ یا دہے۔وہ چہک چہک کر سرائیکی بولنے لگی تھی۔جیڑی گلی اِچ میڈا گھر ہائی اُتھاں لوہے دا دروازہ ہئی تے بازار دے سِرے دے اُتے کھیری (دودھ دہی)دی دکان وی ہئی۔میکوں بس اتنا یاد ھِ۔
ٹھیک ہے جس مٹی کی خوشبو اور کشش آپ کو اتنی دور سے کھینچ لائی ہے تو میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے آپ کی ہر ممکن مدد کروں گا۔یہ کہتے ہی اسلم صاحب ایک عزمِ مصمم سے اٹھے اور ان سب کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔اسلم صاحب کو اس جوڑے کی یہ ادا بہت بھائی کہ ہائی کوالیفائیڈ ہونے کے باوجود وہ ٹھیٹھ سرائیکی میں ہر بات کا جواب دیتے رہے۔گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ عورت بولی۔میکوں سب کول پہلے زنانہ ہسپتال دکھاؤ، زنانہ ہسپتال دے وارڈ اچ میں جمی ہم۔اس کی فرمائش پر گاڑی کا رخ ہسپتال کی طر ف موڑ دیا گیا۔ہسپتال پہنچتے ہی وہاں عملے نے حد سے زیادہ تعاون کیا اور وہاں پر موجود لیڈی ڈاکٹرز انتہائی خلوص اور محبت سے ملیں۔اسے اپنا وہ وارڈ بھی دکھایا گیا جہاں اس کی پیدائش ہوئی تھی۔اس موقع پر تصویریں کھینچی گئیں اور آخر کار سب باہر نکل آئے۔
No photo description available.
ہسپتال دیکھنے کے بعدگاڑی جیسے ہی فقیرنی گیٹ کے اندر داخل ہوئی تو ڈاکٹر ہریش نے ہاتھ کے اشارے سے گاڑی رکوائی اور لپک کر وی بی سکول کے آ ہنی گیٹ کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔یہی میرا سکول ہے‘ میں یہیں پڑھتا تھا۔سب لوگ سکول کے اندر داخل ہوئے اورپرنسپل سے ملے۔ڈاکٹر ہریش کی خصوصی فرمائش پر اُسے سکول کاہاسٹل دکھایا گیا۔ایک بوسیدہ کمرے کے سامنے جا کر ڈاکٹر ہریش خوشی سے چلااٹھا۔یہی میرا کمرہ تھا‘جب میں پہاڑ پور سے ڈیرہ پڑھنے آ تا تھا تو اسی کمرے میں آکر ٹھہرتا تھا۔یہاں قریب ہی ایک میٹھے پانی کاکنواں بھی ہوا کرتا تھا۔میں اس کا پانی بڑے شوق سے پیا کرتا تھا۔مگر اب نہ کنواں باقی رہا تھا نہ ہی ہاسٹل کے کمرے اپنی اصل حالت میں باقی بچے تھے۔ڈاکٹر ہریش نے ایک گہری سانس لے کربہت سی یادوں کو اپنے ا ندر اتارا۔
سکول سے باہر نکلتے ہی کچھ نشانیوں اور چند ناموں کو ذہن نشین کرتے ہوئے اسلم صاحب منزل مقصود کی تلا ش میں نکل کھڑے ہوئے۔گاڑی میں بیٹھتے ہوئے عورت نے ایک بار پھر یاد دھانی کروائی۔”لوہے دا دروازہ،کھیری دی دکان“۔اسلم نے سر ہلاکر تصدیق کی اوراپنی دانست میں انہیں محلہ حیات اللہ کی گلی کوچوں میں پھرانے لگے۔محلہ حیات اللہ کاگورنمنٹ سکول نمبر۱،چیتر سین(پاکستان کے سفیر)کا گھر اور جنرل وی پی ملک(چیف آف آرمی اسٹاف آف انڈیا) کا گھر بھی دکھایا گیا۔بازار کی رونقوں اور ہجوم کی پشت سے لپٹی،خلوص،اپنائیت اور رواداری کے ریشم سے بندھی ماضی کی گلیاں،ہمیشہ کی طرح آج بھی ٹھنڈ ی محسوس ہو رہی تھیں۔ان پتلی گلیوں میں جہاں مکان اونچے ہوتے چلے جا رہے تھے،اُن کا سایہ وہاں سورج کی تما زتوں کو زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتا تھا۔بدلتے زمانے نے کچھ نہ کچھ اثر بہرحال ڈالا تھا۔ کہیں نہ کہیں نئی تعمیر کے نمونے بھی نظر آ رہے تھے مگر ماحول میں پرانی خوبصورتی آج بھی پہلے کی طرح جھلک رہی تھی۔چونے کے پتھروں سے تراشی دیواریں،دہلیزیں، لکڑ ی کے بھاری بھرکم دروازے،اونچی اونچی ماڑیاں ابھی تک سلامت تھیں۔باہرکی جانب کھلنے والے روشندان اور دروازوں میں لگی آ ہنی گرلیں۔شایدغیر محفوظ ہونے کا اندیشہ ان گلی کوچوں پر ابھی تک حاوی تھا۔
سب کچھ اشتیاق بھری نظروں سے دیکھنے کے بعد اس نے دکھ بھری آواز میں کہا۔اِنہاں گلیاں اچ میڈا گھر کونا ہئی۔لوہے دا دروازہ،کھیر دی دکان،وہ پھر سے ہم کلام ہوئی۔یہ واحد نشانی تھی جو اس کی یادوں کے تہہ خانے میں ابھی تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھی۔وجود رکھنے والی نشانیوں کا کیا ہے؟۔ آج ہیں کل نہیں۔ کچھ وجود بظاہر نظر نہیں آتے مگر ان کا طاقتور احسا س ماحول پر پوری طرح حاوی رہتا ہے۔ آج بھی علاقہ وہی تھا لیکن کچھ تبدیلیاں آ چکی تھیں، تبھی تو وہ اپنا گھرپہچاننے میں بھی دِقت محسوس کر رہی تھی۔تنگ گلیوں سے بچتے بچاتے گاڑی بھاٹیہ بازار کی طرف رینگنے لگی۔کچھ ہلکی سی دھوپ نکل آنے سے روشنی اور دھوپ بھلی لگ رہی تھی۔بھاٹیہ بازار کی گہما گہمیاں اپنے عروج پر تھیں۔دکانوں کے باہر پھٹوں پر اہتمام سے سجاسامان،پھل فروٹ بیچنے والوں کے ٹھیلوں سے لے کر پلاسٹک کی اشیاء اور چپل بیچنے والوں تک،کپڑے کی دکانوں سے لے کر سائیکل و موٹر سائیکل کے پنکچر لگانے والوں تک اورپنساری کی دکانوں سے جنرل اسٹوروں تک،ہر قسم کی اشیاء بیچنے والوں کا ایک سیلا ب امڈ آیا تھا۔دکانوں کے اوپربنی لکڑ ی کی ماڑیاں اور ان کے آگے جھکے چھجے،نہ جانے کتنے عشروں سے اسی حالت میں تھے۔یہ سب کچھ یہاں ہمیشہ سے موجود تھا۔بہت پہلے جب وہ بچی تھی تب بھی یہ بازار ایسا ہی تھا، گلیاں بھی وہی تھیں ہاں مگر نام تبدیل ہو چکے تھے،لیبل بدلے جا چکے تھے۔گاڑی کو کسی دکان کے سامنے پارک کر دیا گیا۔دکان کا مالک اپنی دکان کے سامنے یوں گاڑی کھڑا کرنے پر معترض ضرور ہوتااگر اس میں بیٹھی خاتون اسے بہت شاندار اور پروقار محسوس نہ ہوتیں۔وہ اسلم صاحب کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے من ہی من میں بولے جا رہی تھی:لوہے دا دروازہ، کِھیری دی دکان۔اس منظر کو پچاس سال ہونے کو آئے تھے مگر وہ ابھی تک اس کے فلیش بیک میں زندہ تھا۔اس نے بے چین ہوکر اسلم صاحب کو دیکھا،وہ انہیں بتاناچاہ رہی تھی کہ گھر یہیں کہیں آس پاس ہی ہونا چاہیے۔آخر کار اس گھتی کو سلجھانے کیلئے اسلم صاحب ماسٹر سدو ٹیلر کی دکان پر پہنچے اور ان سے کہا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر گھر تلاش کرنے میں اُن کی مدد کریں۔ماسٹر سدو نے اپنی یاداشت پر زور دیتے ہوئے کہا: منگلا میڈیکل ہال دے سامنے آلی گلی اِچ لوہے دا دروازہ ہونداہئی،ایکوں اتُھئیں گھن ونجو۔اُتھاں کیں زمانے گلی دِی نکر تے کھیر ی دی دکان وی ہئی تے ہن وی ھِ،میکوں امید ھِ کہ ایند اگھر اُتھیئں آس پاس ہوسی۔
ماسٹر سدوکا شکریہ ادا کرکے اسلم صاحب اُن سب کو رش میں سے گزارتے ہوئے آگے چلے جا رہے تھے۔پھٹ پھٹ کرتے آٹو رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے سائیلنسروں سے خارج ہوتا دھواں،پانچ دھائیاں دِیار غیر میں گزارنے کے باوجود وہ محبت اور عقیدت کے ساتھ اس آلودہ ماحول کا حصہ بن گئی تھی۔آج وہ اس پانچ سالہ بچی کو یاد کرنا چاہ رہی تھی جو دکانوں کے پیچھے سے ہوتی ہوئی اپنے پِتا جی کی معیت میں تیز قدم اٹھاتی چلی آ رہی تھی۔چاروں جانب لوگ ہی لوگ،اپنی اپنی خوشیاں اور اپنے اپنے غموں کا بوجھ اٹھائے زندگی سے نبرد آزما لوگ۔یہ سب لوگ اسے آج بھی اپنے اپنے سے لگ رہے تھے۔بازار کے دونوں جانب کچھ فاصلے پر بنی پر پیچ گلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔وہ ہر گلی کی نکر پر تھوڑا ٹھہرتی،گلی کے اندر جھانکتی اور اس کی نگا ہیں بے اختیار اپنے دروازے کو تلاش کرنا شروع کر دیتیں۔وہ بچپن سے کچھ ایسے ہی گلی کوچوں میں پلی بڑھی تھی۔اچانک ہی اسلم صاحب منگلا میڈیکل ہال کے سامنے بنی ایک گلی میں مڑ گئے،سب نے اس کی تقلید کی تھی۔گلی میں داخل ہوتے ہی جیسے اس کے جسم میں اسپارک پیدا ہوا اوروہ پھرتی سے قدم اٹھا نے لگی، سارا راستہ اس کی سمجھ میں آنے لگا تھا۔یکایک اس نے اسلم کا ہاتھ چھوڑا اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔وہ بے اختیاری میں سب سے آگے بڑ ھ گئی تھی۔ لکڑ ی کے ایک اونچے دروازے والے گھر کے سامنے پہنچ کر وہ رک گئی۔یہ وہی دروازہ تھا جسے وہ خوابوں میں دیکھا کرتی تھی۔ وہ ایک خواب کی سی کیفیت سے بیدار ہوئی اور ایک بھرپور چیخ ماری۔ایہو میڈا گھرھ ِ۔ایہو میڈا گھرھ ِ۔وہ ایک عجیب قسم کی جذباتی کیفیت کا شکار تھی۔اس نے دروازے کی دہلیز کو چھوا،چوما۔اس کی آ نکھوں کے کنارے گیلے ہو گئے۔اس گھر کی دہلیز کو نہ جانے اس نے کتنی بار پار کیا تھا،لیکن آج یہ گھر اس کا اپنا نہ تھا۔اسی لیے اسے اندر جانے میں دشواری ہو رہی تھی۔اس کے قدم بھاری ہو گئے تھے۔وہ اس زمانے میں چلنے لگی تھی جب تقسیم کے نام پر اس دھرتی نے اپنے حصے کے بخت ہارے تھے۔جب دھرتی ماں کے سر کے سائیں، ا س کے اصل والی وارث اسے چھوڑ چلے تھے۔بیچ میں آئے پچاس سال کہیں کھو سے گئے تھے اورسب کچھ بھولی بسری یادوں میں ڈھل چکا تھا۔اس گھر میں اس کی آمد پچاس برس بعد ہوئی تھی مگر ان پچاس برسوں کو اس نے جیسے ایک مونو سیکنڈ کے وقفے میں کالکولیٹ کر لیا تھا۔ یہ عبدالمجید نازک (سعیداللہ مروت صاحب کے والد) کا گھر تھا۔اسلم نے گھر پر دستک دی،دروازہ کھلا،مجید نازک صاحب باہر تشریف لائے۔اسلم نے ان کا سب سے تعارف کروایا۔عبدالمجید نازک کے منہ سے نکلا۔جی ہاں ضرور، اندر آ جایئے۔انہوں نے ہلکے سے مسکرا کر اندر آنے کااشارہ کیا۔اس نے سانس روک کردروازے کے اندر قدم رکھ دیا۔وہ اس گھر کی یاداشت کا انمٹ حصہ تھی۔گھر کے اندر پہنچ کر اس کے قدم فریز ہو گئے۔وہ سیڑھیاں،دالان،صحن،کمرے، سب کچھ اس کے سامنے تھا۔ وہ چیخیں، وہ آہ و بکا کہ جب اس گھر کو چھوڑنا پڑا تھا۔وہ ایک چارپائی پر بیٹھ گئی اور اپنے اعصاب پر بیک وقت قابو پاتے ہی کہنے لگی۔پانی مل سکتا ہے کیا؟۔ اس نے ایک سانس میں پانی کا گلاس خالی کیا تھا۔مجھے اس گھر کو ایک نظر جی بھر کر دیکھ لینے د یجئے، مجھے صرف دس منٹ کیلئے اکیلا چھوڑ دیجئے۔اسے اپنے اردگرد جو خاموشی چاہیے تھی وہ چند لمحوں کے لیے سہی لیکن اسے مل گئی تھی۔جسم کے اندر خوف کی گزرتی لہر کو اس نے جیسے خود کو ساکت کرتے ہوئے اپنے آپ کو ارتھ کیا تھا۔گھر میں موجو دپرانی چیزوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں تھی کہ جسے اس نے ایک ہی نظر میں پہچان نہ لیا ہو۔اس عمارت میں ایک عجیب قسم کی مانوسیت اور واقفیت تھی۔اس کے قدم اب وہاں تھے جہاں پر اس کی زندگی کی بہترین اوربدترین یادیں بکھری پڑی تھیں۔چند لمحوں کیلئے اس نے اپنے آپ کو شاک اور بے بسی کی حالت میں پایا جو اس نے پچاس سال پہلے محسوس کی تھی۔اس کے چہرے پرایک ناقابل بیان اذیت،دکھ اور کرب کا ایک عجیب و غریب احساس تھا۔تکلیف دہ یادوں کی طرح جو اس کے اندر سرکنڈوں کی طرح سرنکالے ہمہ وقت موجو درہنے کے باوجود ایک لمبے عرصے سے اسے کاٹ رہی تھیں وہ ایک کُر لاتی کونج کی طرح ایک کمرے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوتی اور ایک بکاٹ مار کر باہر نکل آتی۔ اس گھرنے ا س کے بچپن کے ایک حصے کو لہولہان اور مسخ کیا تھا۔گھر کے نئے مکینوں نے اس گھر کو بہترین طریقے سے renovate کیا تھا۔اس نے اہل خانہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھتے ہی اسلم چکڑیال سے بولی۔ آپ نے مجھے میری جنم بھومی دکھا کر پھر سے زندہ کر دیا ہے۔میں انہی پتلی گلیوں میں پیدا ہوئی تھی،یہاں پر رہنا باعث شرم نہیں باعث افتخار تھا،کیونکہ یہی میرا اصل تھا اور آپ نے مجھے میرا اصل لوٹا دیا،آپ کا شکریہ۔

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

عباس سیال کی دیگر تحریریں پڑھیے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: