مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

انگریزوں نے دِلی کے وائسرائے ہاﺅس سمیت اردگرد کی ساری عمارتوں کے درمیان سڑکوں کو دفاعی نقطہ نظر سے کافی چوڑا تعمیر کیا تھا

انڈیا گیٹ نیو دِلی : قطب کمپلیکس میں دو تین گھنٹے گھومنے پھرنے کے بعد پروگرام کے مطابق ہمیں انڈیا گیٹ (باب الہند) دیکھنے جانا تھا۔انڈیا گیٹ کی طرف جانے والے راج پاتھ روڈ پر دائیں طرف سب سے پہلے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ایک دائروی شکل کی عمارت دکھائی دیتی ہے ، یہ ہے پارلیمنٹ ہاﺅس ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کا گھر، جہاںاپنے اردگرد بھگوا دھاریوں والے منتریوں کے بیچ بیٹھا مُکھ منتری نریندر مودی ماضی کے مسلمان حکمرانوں سمیت پاک وہند کے مسلمانوں کو کھلنائیک(ولن) اور ہندو مہاراجوں کے ماتھوں پر نائیک (ہیرو) کے ٹھپے لگا کر سوسائٹی کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کا بلاتکار کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔

            راج پاتھ سڑک پر تھوڑا سا آگے ٹریفک سگنل پار کرتے ہی دو نوں جانب بڑے بڑے ستونوں اور گنبدوں والی عالیشان عمارتیں دکھائی دیتی ہیں، یہ سب انگریزی عہد کی یادگاریں ہیں۔عین سامنے ایک گنبد نما عمارت پر نظر پڑتی ہے، جسے وائسرائے ہاﺅس کہا جاتا تھا ۔یہ عمارت تقسیم سے قبل وائسرائے ہندکی ذاتی رہائش گاہ تھی جسے آزادی کے بعد راشٹرپتی بھون(صدارتی محل) کا نام دیا گیا۔ مہاتما گاندھی کی دلی خواہش تھی اور وہ چاہتے تھے کہ دِلی کے وائسرائے ہاﺅس کو سرکاری ہسپتال میں بدل دیا جائے مگر نہرو گاندھی کے بیشتر خیالات کی طرح اس خیال سے بھی متفق نہ تھے ،یہاں بھی اُس نے گاندھی کی ایک نہ چلنے دی اور وائسرائے ہاﺅس کو صدارتی محل میں بدل ڈالا ۔اگر تاریخ کی سفاک سرجری کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح آزادی کے بعد ہمارے قائد تنہا رہ گئے تھے، اسی طرح سرحد پار مہاتما گاندھی کو بھی کوئی خاص گھاس نہیں ڈالتا تھا ۔قائد اعظم اور گاندھی برصغیر کی تحریک آزادی کے دو بڑے رہنما مانے جاتے ہیں۔ گاندھی سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ”اہنسا“( عدم تشدد) پر مبنی آندولن( احتجاجی تحریک )کے قائل تھے، مگر بدقسمتی سے وہ ایک شدت پسند ہندو ”نتھو رام گوڈسے“ کی ہنسا(تشدد)کا شکار بنے تھے،دوسری طرف ہمارے قائد کی سب سے بڑی خوبی اصول پسندی اور ڈٹ کر کھڑے ہونے کی طاقت تھی مگر بدقسمتی سے ان کی جیب بھی کھوٹے سکوں سے بھری ہوئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ”میرا بھائی“ میں لکھتی ہیں۔”یہ اگست 1948ءکا دن تھا، قائد اعظم نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا” فاطی! مجھے اب مزید زندہ رہنے سے ۔۔کوئی دلچسپی نہیں،۔۔۔ میں جتنی جلدی چلا جاﺅں ۔۔۔ اتنا ہی بہتر ہوگا“۔، برصغیر پاک و ہند کی دونوں عظیم ہستیاں انتہائی مایوسی اور افسردگی کے عالم میں اس دنیا سے رخصت ہوئی تھیں۔

            انگریزوں نے دِلی کے وائسرائے ہاﺅس سمیت اردگرد کی ساری عمارتوں کے درمیان سڑکوں کو دفاعی نقطہ نظر سے کافی چوڑا تعمیر کیا تھا جہاں سویلین آبادکاری ممنوع تھی۔ آزادی ملنے کے بعد اس سارے علاقے کو انڈین بیوروکریٹس،سیاستدانوں اور فوجیوں نے اپنا مسکن بنایا۔پندرہ اگست ( یوم آزادی) اور چھبیس جنوری( ری پبلکن ڈے ) کی فوجی پریڈیں راشٹر پتی بھون سے شروع ہوتی ہیں اور انڈیا گیٹ کے سامنے سے گزرتی ہیں۔

            صدارتی محل کے بالکل سامنے انڈیا گیٹ کی عمارت صاف دکھائی دیتی ہے ۔ ہم نے انڈیا گیٹ کے قریب ایک سائیڈ پر گاڑی روکی اور تھوڑا سا پیدل چل کرگیٹ کو نز دیک سے دیکھا ۔ دلی کے عین قلب میں کھڑا اِنڈیا گیٹ دلی کی عوام کیلئے تفریح گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔جو پیرس میں انقلاب فرانس کی یاد میں بنائی گئی فرانسیسی یادگار Thr Arch of Triumph کی ہو بہو نقل لگتی ہے۔

            انڈیا گیٹ کی پیشانی پر انگریزی میں بڑا سا انڈیا لکھا ہو اہے جس کے نیچے انگریزی میں درج کی گئی عبارت پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ یہ فوجی یادگار ان بیاسی ہزار ہندوستانی فوجیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی جو جنگ عظیم اول میں کام آئے تھے۔ جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ تھے تو دوسری طرف برطانیہ سمیت اس کے اتحادی ممالک فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکہ شامل تھے ۔ ہندوستان اس جنگ میں محض اس لیے شریک تھا کہ ہم برطانیہ کی کالونی تھے۔مرنے والے دیسی فوجیوں کے ناموں کو”انڈیاوار میموریل“کے ستونوں پر لکھ دیا گیاہے ، جن میں ہندو،سکھ، مسلمان ، عیسائی سبھی فوجی شامل ہیں ۔ متحدہ ہندوستان کی طرف سے لڑتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے یہ مختلف مذاہب کے ماننے والے فوجی تھے لیکن جنگ عظیم میں ان کا جو لہو بہا تھا، وہ سرخ رنگ کا ہی تھا۔وہ لہو درحقیقت برطانوی غلامی کا خراج تھا ورنہ جنگ کی آنچ بھی ہندوستان تک نہیں پہنچی تھی اور وہ سب اپنے شکستہ بازو ¶ں اور لڑکھڑاتے قدموں سے تاجِ برطانیہ کی حفاظت کرنے پر مجبور تھے۔انڈیا گیٹ کے عین نیچے انڈین بری، بحری اور فضائی فوج کے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور قریب ہی گمنام سپاہیوں کی یاد میں جلتی مشعل کو مسلسل روشن رکھا گیا ہے، جس کی چاروں جانب ہتھیار بند جوان ہمہ وقت مستعد کھڑے رہتے ہیں، کسی کی کیا مجال جو احاطہ میں لگی زنجیر کو ہاتھ لگادے یا سلیقے سے رکھے گملوں میں سے کوئی پھول توڑ کر دکھائے؟

            انگریزکے ڈیزائن کردہ دائرے کے اندر بنے انڈیا گیٹ کے سامنے کھڑا میں سوچ رہا تھا کہ جن انگریزوں نے یہاں کے ہندو، مسلم اور سکھوں کو لمبے عرصے تک غلام بنائے رکھا اور جنہوں نے دلی کے سینے پر میموریل وار نامی ستون کھڑا کرکے ایک عام ہندوستانی کو یہی پیغام دیا کہ کمپنی سرکار سے وفا کرو گے تو تمہارے نام بھی دیواروں پر کندہ کئے جائیں گے اور اگر انحراف کی کوشش کی تو انہی دیواروں کے اندر جیتے جی چنوا دیے جاﺅ گے۔ انگریز نے مسلمانوںسے اقتدار چھینا تھا اسی لئے اسے مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ ہر عمارت سے نفرت، بغض اور حسد محسوس ہوتا تھا۔کہتے ہیں کہ لارڈ ولیم جب ہندوستان کا گورنر جنرل بنا تو اس نے اعلان کیا کہ تاج محل کا سنگ ِمر مر اور دیگر قیمتی پتھر اکھاڑ کر لندن بھیج دئیے جائیں اور پھرتاج محل کو مکمل مسمار کر دیا جائے۔پہلے مرحلے کے طور پر لارڈ ولیم نے لاہور ،آگرہ اور دلی کے قلعوں کی دیواروں سے قیمتی پتھر اُترواکر اُسے بحری جہازوں کے ذریعے برطانیہ بھجوایا۔ کچھ قیمتی پتھر اُس وقت کے بادشاہ جارج چہارم نے رکھ لئے، باقی کے پتھروں کی نیلامی کیلئے لندن کے امراءکو بلوایا گیا ۔لارڈ ولیم کے حکم پرتاج محل کو مسمار کرنے کی خاطر بھاری مشینری اور افرادی قوت تک جمع کرلی گئی اوردنیا کے اس نایاب عجوبے کی توڑ پھوڑ کا کام شروع ہوا چاہتا تھا کہ اچانک لندن سے خبر آئی:” مغل عمارتوں سے اتارے گئے قیمتی پتھر وںکی نیلامی کامیاب نہیں ہوسکی اور لندن کے امراءنے ہندوستانی پتھر خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی لہٰذا یہ نِرا گھاٹے کا سودا ہے “۔اس خبر کے پہنچتے ہی تاج محل کی مسماری کا خوفناک منصوبہ ترک کردیا گیا،ورنہ لارڈ ولیم جیسا لالچی اور متعصب گورا پیسہ کمانے کے چکر وں میں اس عجوبہ عالم کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا بیٹھا تھا ۔

            انڈیا گیٹ کے گرد گھومنے پھرنے والے میری جیسی غلام نسل کے باشندے اپنے بچوں کی انگلیاں تھامے انہیں فخر سے بتا رہے تھے کہ ستونوں پر کنداں یہ سب اُن شہیدوں کے نام ہیں جنہوں نے ہماری آزادی کی یدھ( جنگ) لڑی تھی؟ افسوس کہ اکیسویں صدی کا پڑھا لکھا ہندوستانی اپنی نئی نسل کو اپنے پُرکھوں کی اصل تاریخ پڑھانے کی بجائے ،غلامی کی یادگار کے سامنے کھڑا کئے نہ جانے دیش بھگتی کا کونسا نیا پاٹ پڑھا رہا ہے؟

            انڈیا گیٹ ہندوستانیوں کیلئے کوئی اعزاز نہیں بلکہ غلامی کی زندہ دلیل ہے۔ایک ایسی غلامی کہ جس سے چھٹکارا پانے کیلئے ہمارے مشترکہ آباﺅ اجداد نے گولیاں کھائیں ، توپوں کے دھانوں سے باندھے گئے اور پھانسی کے پھندوں کو چوما۔ وہ ہندوستانی جو انگریزی تسلط کے خلاف تھے ، اُن سب پر غداری کے لیبل چسپاں کئے گئے اور جنہوں نے انگریز وںکی نیکریں پہن کر ہندوستان میں سامراجی تسلط کو مضبوط کیا، انگریز نے اُن کے نام اپنی عمارتوں پر کندہ کیے اور جاتے وقت اقتدار بھی ا نہیں کے حوالے کر گئے۔انگریز بہت مکار قوم ہے اگرچہ اس نے اپنے نمک خواروں سے خوب کام نکلوایا۔ انہیں نیکریں پہنواکر بندوقیں تھمائیں اور محازِ جنگ پر بھی بھیجا۔ ان کی شجاعت پر انہیں خطابات دئیے ، مراعات سے بھی نوازا مگر دوسری طرف اپنے اپنے علاقوں کے ڈپٹی کمشنران کے ذمے یہ کام لگایا کہ جس جس قوم کو خدمات کے عوض مربعے الاٹ کئے گئے ہیں، ان کا پورا حساب کتاب گزٹیئرز میں درج کر دیاجائے ۔انگریز اس خطے کو اپنے نمک خواروں کے ہاتھوں میں دیتے وقت گز ٹیئر ز نامی لعنت کے گوشوارے بھی پیچھے چھوڑ گیا اورہمارے کالے حکمرانوں نے ندامت کے خوف سے لعنت کے اُن سارے گوشواروں کو لائبریریوں سے ہٹوا دیاتھا ۔آج بھی اگر کسی کو اپنے علاقے کا گزیٹئرز پڑھنے کا موقع ملے تو وہ بخوبی جان پائے کہ ہمارے اوپر ستر سالوں سے مسلط کردہ حکمران نسلیں(نواب، سردار، خان، چوہدری، وڈیرے ) دراصل انہی خاندانوں کا تسلسل ہیں جو انگریز کے نمک خوار اور غلام تھے،تب ہمیں آزادی نامی ڈھکوسلے کا بخوبی علم ہو سکے گا۔ ہمارے بازار کی واحد سوشلسٹ ہستی چاچا غلام حسین کپاس فروش خوب کہا کرتے تھے کہ انگریز لٹیرے کی غلامی اُ ن کے بٹھائے گئے دیسی لٹیروں سے بدرجہا بہتر تھی۔ انگریز ہمارے اجداد سے ایک روپیہ لوٹتا ، بارہ آنے اپنی ملکہ کو ولایت بھجواتا مگر اس میں اتنی حیا تھی کہ وہ لوٹے گئے سولہ آنوں میں سے چار آنے ہماری فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا کرتا تھا۔انگریزوں کے کتے نہلانے والوں، نیکر پہن کراُن کی بگھیاں کھینچنے والے دیسی حکمرانوں کی غلامی سے انگریز کی غلامی کہیں بہتر تھی۔

             انڈیا گیٹ کو پس منظر میں رکھتے ہوئے ہم نے بھی خوب تصویریں کھینچوائیں،آخر کو غلام جو ٹھہرے۔انڈیا گیٹ سے واپسی پر ملک راجکمار سے سنی ایک سرائیکی نظم بعنوان ” ڈین (ڈائن) غلامی ویندی پئی ہے کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔آزادی کی خوش فہمی میں لکھی اُس نظم کے بول کچھ یوں تھے ۔ ڈَین غلامی ویندی پئی ہے۔ اگلے ہفتے دِلی ہئی ،گھنٹہ گھر تے ملی ہئی،صحت ڈاڈھی ڈِھلی ہئی،کُجھ رُنی کُجھ کِھلی ہئی۔ٹھڈے ساہ بھریندی پئی ہے، ڈَین غلامی ویندی پئی ہے۔ آئے تھی گین ڈِڈھ سو سال۔ سِردے تھی گین چٹے وال۔ڈیراں کُوں سڈویندی پئی ہے۔ پیکے خط بھجویندی پئی ہے۔ ڈَین غلامی ویندی پئی ہے۔ کٹھے کرکے زیور گانڑے۔ کپڑے لتے ٹین پر انڑے۔ پلنگ پیڑھے تے سوِڑ وِہانڑے۔ لونڑ مسالے چاول دانڑے۔ ہتھُوں پھتُوں لیندی پئی ہے۔ ڈین غلامی ویندی پئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: