اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط22)۔۔۔ عباس سیال

دِلی سے آگرہ کا سفر:صبح پانچ بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور ضروری سفری سامان پیک کر کے بس کے انتظار میں بیٹھ گیا۔صبح چھ بجے ہوٹل کے سامنے سے ایک وین ہمیں اور دیگر مسافروں کو لینے کیلئے تیار کھڑی تھی

 

عباس سیال 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دِلّی سے آگرہ کا سفر

دِلی سے آگرہ کا سفر:صبح پانچ بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور ضروری سفری سامان پیک کر کے بس کے انتظار میں بیٹھ گیا۔صبح چھ بجے ہوٹل کے سامنے سے ایک وین ہمیں اور دیگر مسافروں کو لینے کیلئے تیار کھڑی تھی۔ میں تاج محل کا خوش کن تصور لئے وین میں سوار ہو گیا ۔تقریباًدس منٹ کی مسافت کے بعد قرول باغ کے وسط میں وین نے ہمیں ایک بس کے سامنے اتاردیا۔ بس کا انجن پہلے سے اسٹارٹ تھا ۔

آدھے سے زیادہ سیاح بس کے اندر بیٹھے تھے جبکہ اِکا دُکا لوگ باہر کھڑے تھے ۔ یکایک بس کی چھت سے ایک چست نوجوان جو اپنی وضع قطع کے لحاظ سے کنڈیکٹر لگ رہا تھا آہنی سیڑھیوں کے سہارے نیچے اترا اور میرے قریب پہنچ کر ایک سانس میں بولا۔بابو اندر آجا ئیے، بس روانہ ہونے والی ہے،صبح کا وقت ہے، ٹریفک بھی کوئی خاص نہیں ، ہم ساڑھے تین سے چار گھنٹو ں میں آ گرہ پہنچ جائیں گے۔

میری سیٹ بس کے تقریباً وسط میں کھڑکی کی جانب تھی لیکن اس پر ایک نوجوان جوڑا پہلے سے قابض ہو چکا تھا۔شلوار قمیض میں ملبوس ایک لڑکی کے ساتھ جڑ کر بیٹھے نوجوان کے دائیں ہاتھ کی کلائی میں پہنا اسٹیل کا چمکدار کڑا اس کے پنجابی ہونے کی واضح دلیل تھا۔اپنا سفری بیگ بس کے بالائی شیلف پر رکھنے کے بعد میں نوجوان جوڑے کے سر پر کھڑا ہو گیا اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے بولا۔

کھڑکی والی سیٹ میرے لئے بُک تھی ۔ لڑکے نے میری بات سنتے ہی اپنے ساتھ سیٹ پربیٹھی لڑکی کو کہنی ماری ۔وہ ابھی اپنی سیٹ سے اٹھنے لگی تھی کہ پتہ نہیں کیا سوچ کر میں نے اسے منع کر دیا ۔ نہیں بھائی صاحب آپ آجائیے ۔

نہیں نہیں آپ بیٹھئے ۔یہ کہتے ہوئے بیگ سے ڈائری نکالی اور سکھ لڑکے کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔دونوں نے مجھے ممنون و متشکر نظروں سے دیکھا اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پنجابی میں باتیں کرنے لگے ۔

            بس کی سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے اندرکا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کر دیا۔ بس اندر سے کافی کشادہ اور صاف ستھری لگی، خصوصاً اس کی کھلی کھلی آرام دہ کشن والی سیٹیں اورایئر کنڈیشنڈ ماحول مسحور کن تھا۔اگرچہ یہ ایک ائیر کنڈیشنڈ لگژری بس تھی لیکن پچھلے ایک ہفتے کے دوران دلی کی بسوں میں سفر کے تجربے کے بعد مجھے اپنے ملک کی بس سروس ہندوستانی بسوں کے مقابلے میں کہیں بہتر لگی ۔

مثلاً ہماری ایئرکنڈیشنڈ ڈائیوو بسیں زیادہ صاف ستھری اور سبک رفتار ہیں جبکہ اُن کے مقابلے میں ہندوستانی بسیں اتنی صاف اور آرام دہ نہیں مگر ہندوستانی بسوں کی ایک خوبی ان کا سستا ٹکٹ اور دوسرا دِلی کی سڑکیں ہیں جو پاکستانی سڑکوں کے مقابلے میں کافی اچھی حالت میں ہیں۔اس بس کا کرایہ فی کس چھ سو روپے(بارہ سو پاکستانی) تھا ۔ ٹھیک سات بجکر دس منٹ پر ہماری بس آگرہ کی طرف روانہ ہوئی ۔

قرول باغ کے اردگرد کی ساری دکانیں اُس وقت بند تھیں ۔ فیض روڈ، چترا گپتا روڈ،پہاڑ گنج ، اشوک روڈ سنسان پڑے تھے ۔میں اپنی ڈائری میں اردگرد کی عمارتوں اور سڑکوں کے نام لکھنے میں مگن تھا کہ ایک شخص اپنی سیٹ سے اٹھا اور بس کے درمیان کھڑے ہو کر شستہ اُردو میں اپنا تعارف کروانے لگا۔گندمی چہرے پر موٹے عدسوں کی عینک لگائے یہ مسٹر خان تھے جو دِلی سے آگرہ تک ہماری بس میں بیٹھے سیاحوں کیلئے گائیڈ مقرر کئے گئے تھے ۔

ہماری بس گپتا روڈ سے دائیں کروٹ لیتی رانی جھانسی روڈ پر آچکی تھی،جب کچھ فاصلے پر پنچکوئیاں روڈ آیا تو مسٹر خان سیاحوں کو بتانے لگے کہ یہاں پر دل اور پھیپھڑوں کے مریضوں کیلئے ”دہلی ہارٹ اینڈ لنگز“ نامی ایک بہت بڑا ہسپتال ہے ۔

            بلاشبہ اکیسویں صدی کا ہندوستان دل کی سرجری کے حوالے سے دنیا بھر میں سب سے سستا اور معیاری مانا جا تا ہے اسی لئے امریکہ ،کینیڈا،یورپ اور آسٹریلیا سے ہر سال ہزاروں دل کے مریض ہندوستان کا رخ کرتے ہیں۔

جہاںدِلی کا اپالو اور بترا ہسپتال اپنی جگہ اہم ہے وہیں بنگلو ر کا نارائن ہردیالے ہسپتال پوری دنیا میں دل کی کامیاب سرجری کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔پاکستان سے بھی بڑی تعداد میں دل کے مریض علاج معالجے اور سرجری کی غرض سے دِلی آتے ہیں اور صحت یاب ہو کر واپس لوٹتے ہیں ۔

ہماری بس اشوکا روڈ پر دوڑ رہی تھی، وہی گریٹ اشوکاکہ جس کا راج ہندو سندھ سے کابل، قندھار ،ہرات، کشمیر ،نیپال ا ور بنگال تک پھیلا ہوا تھا۔اشوکا ہمارے خطے کا پہلا حکمران تھا جس نے نہ صرف خون ریزی سے توبہ کی تھی بلکہ قتل و غارت گری کو ختم کرکے اپنی پوری سلطنت میں امن و امان قائم کیا تھا۔

اشوکا کے بعد اگر کوئی حکمران اس پورے خطے کو نصیب ہوا تو وہ بلا شبہ جلال الدین محمداکبر تھے جو پاک و ہند ،کشمیر، قندھار اور سنٹرل ایشیاءتک کے حاکم تھے ۔ ہندوستانی سرکار کی دانشمندی کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے مسلمان شہنشاہوں کے ناموں سے اپنی سڑکوں کو منسوب کر رکھا ہے مثلاًانڈ یا گیٹ کے آس پاس اکبر روڈ،لودھی روڈ، شاہجہان روڈ، صفدر یار جنگ روڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اشوکا روڈ اور اکبر روڈ متوازی چل کر انڈیا گیٹ پر آ ملتے ہیں جبکہ انڈ یا گیٹ سے پہلے بھی ان دو مشہور سڑکوں کو درمیان سے مان سنگھ روڈ کاٹ کر ملاتی ہے ۔ میں گائیڈ مسٹر خان کی ساری باتیں اپنی ڈائری میں نوٹ کر تا جا رہا تھا ۔

            انڈ یا گیٹ پہنچتے ہی سڑک ایک گول چکر کے ذریعے چار مزید سڑکوں میں تقسیم ہو جاتی ہے جس میں سے ایک سڑک ڈاکٹر ذاکر حسین مارگ ہے جو ہمیں انڈیا گیٹ سے سیدھا ہمایوں کے مقبرے ،درگاہ نظام الدین اور سرائے کالُو خان لے جاتی ہے ۔ ہمارے میزبان مسٹر خان نہایت شائستہ اور مہذب انسان نکلے ۔

انہوں نے ضروری معلومات کچھ اس سلیقے سے بہم پہنچائیں کہ تھوڑی ہی دیر میں مسافروں کے درمیان اجنبیت ختم ہو گئی۔مسٹر خان جب ہچکولے کھاتی بس میں چلتے ہوئے میرے قریب سے گزرنے لگے تو ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک کر پوچھا : خان صاحب ایک تو مجھے یہ بتائیے کہ دِلی سے آگرہ جانے کیلئے کون کون سے راستے ہیں؟

۔دوسرا آپ نے اپنا مکمل تعارف نہیں کروایا اور تیسرا یہ کہ دِلی میں کسی سڑک پر روڈ لکھا ہو اہے تو کہیں مارگ ۔ یہ مارگ کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟۔اب بولنے کی باری اُن کی تھی ۔میرا نام بشیرالدین خان ہے، میںپرانی دلی کا رہائشی ہوں اور عرصہ دراز سے گائیڈ کی خدمات سرانجام دے رہا ہوں ۔مارگ سنسکرتی بھاشا میں راستے، سڑک کو بولا جاتا ہے۔ اب وہ اپنی کمر سیدھی کرکے سیاحوں کو بتانے لگے کہ دِلی سے آگرہ جانے کے دو راستے ہیں۔

ایک براستہ نوئیڈا جبکہ دوسرا نیشنل ہائی وے 2جو دِلی سے براستہ فرید آباد، پلوال، ہوڈل اور متھرا سے ہو کر آگرہ پہنچتی ہے اوریہ کوئی ساڑھے تین گھنٹے کا راستہ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے ایکسپریس ٹرینیں دو سے اڑھائی گھنٹے میں آگرہ پہنچا دیتی ہیں،جن میںتاج ایکسپریس اور بھوپال ایکسپریس نمایاں ہیں۔

پرانی دلی کے رہائشی پچاس پچپن سالہ بشیرالدین خان جو اُردو اور انگریزی زبانوں پرمکمل عبور رکھتے تھے سیاحوں کو معلومات دینے کے بعد ڈرائیور کے متوازی خالی سیٹ پر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ ہماری بس جیسے ہی متھرا روڈ کے نیشنل ہائی وے 2 پر چڑھی مسٹر خان ایک بار پھر متحرک ہوگئے ۔یہ متھرا روڈ ہے جو سیدھا جنوب کی طرف ہمیں آگرہ لے جائے گا۔

یہاں سے تقریباً پینتیس کلومیٹر کی دوری پر نارتھ انڈیا کی حدود ختم ہو جائے گی اور ہمارے دائیں طرف ریاست ہریانہ جبکہ بائیں جانب ریاست اترپردیش کی حدود شروع ہو جائیں گی۔ متھرا روڈ پر سب سے پہلا شہر فریدآباد آئے گا۔

جاری ہے۔۔۔۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دلی دل والوں کی (قسط21)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط20)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: