اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

سندھ کنارے چوہوں کی طرح بلوں میں گھسی سرائیکی قوم جب تلک باہر نہیں آئے گی ،اسے کبھی بھی اپنے قومی حقوق نہیں ملیں گے

            غضنفر گڑھ کی ڈھنڈ(جوہڑ) میری زندگی کی سانسوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور ہمیشہ جڑی رہے گی۔ہمارے علاقے کے دریا، نہریں، کنویں، ٹوبے اور ڈھنڈیں ہی ہماری ثقافت کی اصل نشانیاں تھیں اور ہم وہاں کی کونجیں جو کرُلاتی رہ گئیں:درد وِچھوڑے کیویں ہوندن کیویں دل تڑپیندن،اُوں کول ونج کے پچھو یارو جیہڑ ی وِچھڑی کونج قطاروں۔

            بترا صاحب کو1988ءمیںپہلی بار اپنی جنم بھومی دیکھنے کا موقع ملا ۔ویزہ ملتے ہی وہ سیدھااپنی بستی غضنفر گڑھ پہنچ گئے،مگروہاں بہت کچھ بدل چکا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ معصومیت کے سارے منظر غائب ہو چکے تھے اور وہ سادہ لوح لوگ بھی کہیں کھو گئے تھے۔کوئی عفریت انہیں یوں چھین کر لے گیا تھا جیسے کوئی کوا کسی معصوم بچے کے ہاتھ سے جھپٹ کر اس کے منہ کا نوالہ چھین لے جاتاہے۔بترا صاحب وہاں اپنے بچپن کے دوست منیر احمد اعوان کے ساتھ اپنی ماں بولی میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک بچہ اندر آیا اور منیر سے کہنے لگا ۔” بابا تساں تاں آکھدے ہاوے اے ہندو ہے، اے تاں ساڈے وانگوں چٹا بگا ہے تے سرائیکی وی بولیندا بیٹھے، میکوں تاں اے کیں پاسوں وی ہندو نیں پیا لگدا“۔ اصل میںپاکستان کی نئی نسل جو ہندوستانی فلمیں دیکھ کر جوان ہوئی ہے، انہیں اتنا شعور نہیں کہ تقسیم سے پہلے سرائیکی علاقے کے ہندو اور مسلمان میں فرق کرنا انتہائی مشکل تھا ، ایک جیسی صورت، ایک زبان اور ایک جیسے کلچر سے جڑے لوگ تھے۔بہرحال پاکستان جا کر مجھے علم ہوا کہ وہاں پر سرائیکی زبان و ادب میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے۔ہندوستان واپس پہنچتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد سپریم کورٹ میں پریکٹس نہیں کرنی بلکہ سرائیکی زبان کی ترویج و اشاعت کیلئے کام کرنا ہے۔اپنی نوکری کے عروج کے زمانے میںوکالت کا کوٹ اُتارا اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سرائیکی چولا پہن لیا۔سالوں کی مسلسل تگ ودو کے بعد سرائیکی ادب ،ثقافت اور سرائیکی تحریک پر جتنی کتابیں تھیں ساری کی ساری پڑھ چکا ہوں۔اِس وقت دو ہزار کے قریب کتابیں میری ذاتی لائبریری کی زینت ہیں۔یہ کہتے ہی بترا صاحب ہمیں اپنے گھر کی بالائی منزل پر لے گئے جہاں پر اردو اور سرائیکی زبان کا قیمتی خزانہ انتہائی قرینے سے لکڑی کے شیلفوں میں سجا کر رکھا گیا تھا۔سرائیکی زبان کی شاعری، ریسرچ اور رسالوں سے بھرے علمی خزانے کو دیکھتے ہی عقل دنگ رہ گئی۔ہندوستان سے شائع ہونے والا سرائیکی انٹرنیشنل رسالہ اور سرائیکی دنیا نامی رسالوں کی چند کاپیاں انہوں نے مجھے بطور تحفہ دیں۔اسی دوران کھانا تیار ہو چکا تھا۔ بترا سیئں کی پتنی نے مزیدار آلو گوبھی، اچار اور توے کی گرما گرم روٹی سے سب کی تواضع کی اور پھر ہم سب بیٹھک میں آبیٹھے۔

             باتوں باتوں میںسرائیکی صوبے کے حوالے سے بحث چل نکلی اور بترا صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔یاد رکھنا دنیا کی کسی بھی قوم کو حقوق اور صوبے ایسے نہیں ملا کرتے اور یہ دنیا کا دستور ہے کہ کوئی کسی کو حق ہتھیلی میں رکھ کر نہیں دیتا بلکہ اس کیلئے جانیں دینا پڑتی ہیں۔چونکہ وہ خود سپریم کورٹ کے وکیل رہے ہیں،اسی لئے قومی حقوق کے حوالے سے ان کے پاس کئی واضح مثالیں تھیں،مثلاً ہندوستان کے جنوب میں زبان کی بنیاد پر تلنگانہ ریاست کا قیام کہ جب ہندوستانی سرکار نے آندھرا پردیش کے تیلگو اکثریتی علاقے کو الگ ریاست کا درجہ دینے کی بجائے ریاست آندھرا پردیش میں اسی طرح ضم کر دیا جس طرح پاکستان نے سرائیکی بیلٹ کو پنجاب اور سرحدی صوبے میںتقسیم کرکے سرائیکی قوم کی وحدت کمزور کر رکھا ہے ۔آندھرا پردیش کی ریاست بھی پاکستانی پنجاب کی طرح خوشحال اور با اثر طبقات کے کنٹرول میں تھی اور تیلگو بولی والوں کو شکایت تھی کہ ریاست غریب اور پسماندہ تیلگو زبان بولنے والی اکثریتی عوام کے ساتھ معاشی ،سماجی اور دوسرے شعبوں میں انصاف نہیں کر رہی – وقفے وقفے سے تیلگو زبان کی بنیاد پر تیلگو لوگوں کو آندھرا پردیش سے الگ کرکے نئی تلنگانہ ریاست بنانے کامطالبہ اُسی طرح سر اٹھاتا رہا جس طرح آج سرائیکی قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔اُس وقت کے تیلگو وکیل نے اعلان کیا کہ جب تلک تیلگو کو الگ بھاشا کا درجہ نہیں ملے گا وہ اپنا مرن برت جاری رکھے گا۔اُس نے ڈیڑھ ماہ تک روٹی کا ایک نوالہ تک نہ کھایا اور مرن بھرت کے52 دن بھوک اور نقاہت کے ہاتھوں مر گیا ۔آندھرا پردیش ریاست کی ستائی تیلگو قوم اپنی زبان کی بنیاد پر بننے والے تلنگانہ صوبے کے حق میں سڑکوں پر نکل آئی ۔ پرتشدد عوامی احتجاج ہوا جس کے نتیجے میں سینکڑوں تیلگو اپنی بھاشا اور الگ ریاست کیلئے پولیس کی گولیوں کے آگے مارے گئے، تیلگو وکیل کی موت کے دوسرے دن ہندوستانی وزیر اعظم نے مجبوراً اعلان کر دیا کہ تیلگو زبان بولنے والوں کو آندھرا پردیش سے الگ کرکے انہیں الگ تلنگانہ صوبہ دیا جاتا ہے، ،تب کہیں جا کر تلنگانہ ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا،اسی طرح ریاست مدراس کیلئے تمل لوگوں نے قربانیاں دیں تب وہ تامل ناڈو(تمل زبان بولنے والوں کی سرزمین) بنا۔چھتیس گڑھ مدہیہ پردیش سے زبان کی بنیاد پر الگ ہوکر الگ ریاست بنی ۔ گجرات جو مہاراشٹر کا حصہ تھا ممبئی سے الگ ہوکر ریاست بنا،پنجاب ہریانہ سے الگ ہوا، اُتر اکھنڈ الگ ریاست بنی ، ہماچل پردیش الگ ریاست بنی، پنجاب میں پنجابی صوبہ بنانے کیلئے لوگوں نے جانیں دیں ۔ہندوستان کے ہر صوبے میں لوگوں نے اپنی زبان اور اپنی قوم کے جائز حقوق کیلئے جانیں دیں، تب کہیں جا کر انہیں اپنے صوبے ملے اور ریاست نے انہیں زبان و ثقافت کی بنیاد پر علیحدہ قوم تسلیم کیا اور عوامی خواہشات پر کی گئی لسانی تقسیم سے ہندوستان کمزور ہونے کی بجائے مضبوط تر ہوا۔دنیا بھر کی پسماندہ قوموں کو حقوق ایسے نہیں ملا کرتے ۔ بھول جائیے کہ سرائیکی بیلٹ کے حکمران کبھی آپ کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے۔ قوم کو مل کر قربانیاں دینی ہوں گی۔ میں بندوق اٹھانے کی قطعاً بات نہیں کر رہا بلکہ بندوق کے آگے کھڑے ہونے کی بات کر رہا ہوں۔پرامن احتجاج کی بات کر رہا ہوں، مرن بھرت کی بات کر رہا ہوں،ہمت، بہادری اورجرت کی بات کر رہا ہوں۔سندھ کنارے چوہوں کی طرح بلوں میں گھسی سرائیکی قوم جب تلک باہر نہیں آئے گی ،اسے کبھی بھی اپنے قومی حقوق نہیں ملیں گے۔اس کیلئے پر امن اور مسلسل احتجاج اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔

            آخرمیں انہوں نے سرائیکی شاعر امان اللہ ارشد کی فریم شدہ نظم ”نماڑیاں کونجھاں“ پڑھ کر سنائی جو پاکستان میں ”پتن منارہ کانفرنس“ کے دوران اُنکے اعزاز میں منعقد کی گئی ایک تقریب میں شاعر نے خود پڑھ کر سنائی تھی ۔

 یاد آندن و یلے خشیاں دے، ہین جھوک تے میلے خشیاں دے۔ ہر پاسے مینگھ ملہاراں ہن۔ہرپاسے کونجھ قطاراں ہن۔سیڈے ویہڑے کونجھاں لاندھیاں ہین۔سیڈے کندھیاں تے آ باندھیاں ہین۔بے خوف ہن دل کونجھاں دے۔ساڈے گل تے ہن گل کونجھاں دے۔ساڈیاں کو نجھا ں جیہڑے دیس گیاں۔ اُوں پاسے وا وِی نیںآندی۔جے ویندی ہووے اُوکوں آکھو ہا۔ونج آکھیں ساڈیاں کو نجھا ں کوں۔ہیوے واسطہ سخی سرور دا۔ ساڈے دیس تے پھیرا پا ونجو۔۔ نظم کے آخری بند تک پہنچتے ہی وہ کسی بچے کی طرح سسکیاں بھر کر رونے لگے ۔سائیں بترا سمیت ان کی پتنی، انکل وجے کمار سب کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔کچھ لمحے پہلے جس گھر میں بترا سائیں کی گونجدار آواز سے پورا گھر لرز رہا تھا ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہاں کوئی فوتگی ہو گئی ہو۔ واقعی ہجرت سے بڑا کرب کوئی ہو ہی نہیں سکتا ۔ میں آپڑی حیاتی وِچ کڈاھیں کونجھ کُو ں اِیویں کُرلاندا نم ڈٹھا، لیکن میکوں عمراں دے کھادے ہوئے انہاں لوکاں کوں بکا ٹ بھر بھر کے روندا، بکاندا ڈیکھ کے اندازہ تھیا کہ ونڈ کیا ہوندی ہے؟ وِچھوڑا کیا ہوندے؟ وِچھوڑے دی ماری کونجھ دی مونجھ کیا ہوندی ہے؟ کونجھ مونجھی تھیوے تاں وت اِیویں کرلاٹ بھریندی ہے جیویں ساڈیاں اے نماڑیاں کونجھاں۔۔ عمراں دے کھادے ہوئے اے لوک آپڑے دریاواں، آپڑے پہاڑاں، آپڑے جنگلاں، پانڑیاں، سخی سرور بادشاہواں، آپڑے ڈھنڈاں، آپڑے اُٹھ کچاواں،رہی، تھل، دامان دیاں ریت رواجاں تے آپڑی دھرتی دے وچھوڑے کوں یاد کر کے بکاٹاں بھریندن۔۔ڈُکھ دے مارے آپ وی روندن تے نالے ساکوں وی رویندن۔درد وِچھوڑے کیویں ہوندن کیویں دل تڑپیندن؟؟ اُوں کول ونج کے پچھو، جیہڑ ی وِچھڑی کونج قطارُوں۔

یہ بھی پڑھیے: دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: