اپریل 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شعیب اختر بنام وسیم اکرم||رؤف کلاسرا

پاکستان کرکٹ ٹیم کی لڑائیوں اور ایک دوسرے سے حسد کی کہانیاں سن کر مجھے اپنے گائوں کے لڑکوں کی 1980ء کی دہائی کی کرکٹ ٹیم بہتر اور ورلڈ کلاس لگنے لگی ہے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے دو سپر سٹار باؤلرز شعیب اختر اور وسیم اکرم کے درمیان جاری بیان بازی نے مجھے حیران نہیں کیا۔
1980ء کی دہائی ہوتی تو میں یقینا حیران ہوتا بلکہ شاید افسردہ بھی لیکن ان برسوں میں بہت کچھ جانا ہے اور انسانی رویوں کو سمجھا ہے لہٰذا عمر بڑھنے کے ساتھ کچھ میچورٹی آئی ہے۔ اب وسیم اکرم اور شعیب اختر کے مابین جاری لفظی جنگ پر میرا وہ حال نہیں ہوا جو کبھی عمران خان اور جاوید میانداد کے مابین 80 ء کی دہائی میں کپتانی پر جھگڑے کی خبروں پر ہوا تھا‘ جب میانداد کو کپتان بنانے پر بغاوت ہوگئی تھی۔
کرکٹ کا جنون مجھے بھی بچپن سے تھا۔گائوں میں کرکٹ کھیلی‘ پھر قریبی شہر کوٹ سلطان سکول جا کر کھیلی‘ پھر لیہ کالج کھیلی۔ ملتان یونیورسٹی میں مجھ سے زیادہ اچھے کھلاڑی تھے لہٰذا وہاں کھیلنے کا موقع نہ ملا۔سلیم بھائی لیہ شہر سے جہاں اخبار اور رسالے لاتے تھے وہیں وہ کرکٹ کا ماہنامہ میگزین ”اخبارِ وطن‘‘ بھی لاتے تھے۔مجھے آج تک اپنی اس احمقانہ حرکت پر ہنسی آتی ہے۔ اخبارِ وطن میں پڑھا کہ انتخاب عالم نے 125کے قریب ٹیسٹ وکٹیں لے رکھی ہیں۔میں سمجھتا تھا کہ جو باؤلر وکٹ لیتا ہے تو اسے باقاعدہ ایک لکڑی کی وکٹ دی جاتی ہے لہٰذا انتخاب عالم کے گھر پر اس وقت سوا سو کے قریب وکٹیں رکھی ہوں گی۔ ہمارے پاس تین وکٹیں تو تھیں سوچا خط لکھ کر ان سے تین وکٹیں مزید مانگ لیتے ہیں جو باؤلنگ اینڈ پر لگا دیں گے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے باقاعدہ ایک خط لکھا تھا کہ آپ ہمیں تین وکٹیں دے دیں۔
کرکٹ میں میرے فیورٹ جاوید میانداد تھے اور ان کے ریٹائرڈ ہونے پر میں نے لمبا عرصہ کرکٹ دیکھنا چھوڑ دی تھی۔ میرا خیال تھا کھلاڑی کتنا انجوائے کرتے ہوں گے‘ زبردست دوستیاں ہوتی ہوں گی‘ کھیل کا کھیل اور پوری دنیا کے سیر سپاٹے الگ‘ لیکن مجھے پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب عمران خان کی قیادت میں جاوید میانداد کے خلاف بغاوت ہوئی۔ مجھے محسوس ہواکہ کھلاڑی دوست نہیں ہوتے‘ جیسے ہمارے گائوں کی ٹیم کے ہم سب دوست ہیں۔ یہ تو کچھ اور کہانی ہے۔
آنے والے برسوں میں کرکٹرز کی ایک دوسرے سے لڑائی اور بیان بازی کے واقعات سامنے آنا شروع ہوئے تو میرا کھلاڑیوں سے جڑا رومانس ہرٹ ہونا شروع ہوا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ وہ کون سے عوامل ہوتے ہیں جو ٹیم کے مستقل کھلاڑیوں کو بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں۔مجھے حسد کے جذبات کا اندازہ بھی برسوں بعد ہوا کہ یہ کس بلا کا نام ہے اور ہم انسان کیسے اس حسد کے آگے بے بس ہیں۔ کون سی پاکستانی ٹیم یا کھلاڑی ہوں گے جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کی ہوں گی۔ آنے والے برسوں میں لڑائی تیز تر ہوتی گئی جو بعد میں عمران خان اور جاوید میانداد کیمپوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد وسیم اکرم اور راشد لطیف نے اس لڑائی کو زندہ رکھا‘ پھر وسیم اکرم اور وقار یونس کی کہانیاں سامنے آئیں۔ اگرچہ وسیم اکرم اور عامر سہیل کے مابین بھی چپقلش تیز تر رہی۔ وسیم اکرم معین خان کو پسند کرتے تھے اور راشد لطیف سے ان کی نہ بن سکی۔
جوحیران کن کہانیاں مجھے ڈاکٹر ظفر الطاف نے سنائی تھیں اس کے بعد پاکستانی کرکٹ اور کرکٹرز سے دل بھر گیا۔ ڈاکٹرصاحب خود کرکٹ کے کھلاڑی تھے اورکاردار صاحب جب چیئر مین کرکٹ بورڈ تھے تو وہ سات سال بورڈ کے سیکرٹری رہے‘ برسوں کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر رہے‘ پھر 1999ء کرکٹ ورلڈ کپ ٹیم کے منیجر اور آخر میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ وہ 1960ء سے لے کر ہر کھلاڑی اور ا س کی حرکتوں کو اچھی طرح جانتے تھے۔میں نے ان کی یادداشتیں لکھنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن ان کی اچانک وفات کی وجہ سے یہ نہ ہوسکا۔ مجھے اگر زندگی میں پچھتاوا یا دکھ ہے تویہی کہ میں ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے بڑے آدمی کی بائیوگرافی نہ لکھ سکا۔ ان کے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا۔ڈاکٹرصاحب تین‘ چار کھلاڑیوں کو بہت پسند کرتے تھے۔ سرفراز نواز‘ وسیم راجہ اورشعیب اختر ان کے فیورٹ باؤلر تھے۔ کپتانوں میں کاردار‘ عمران خان اور وسیم اکرم کے فین تھے۔ وسیم اکرم کی بہت تعریفیں کرتے تھے لیکن جب برطانیہ میں ورلڈ کپ کا فائنل ہارے‘ جہاں وہ ٹیم کے ساتھ منیجر کے طور پر گئے تھے تو وسیم اکرم سے شدید مایوس لوٹے۔کہتے تھے :وسیم اکرم کو شعیب اختر سے insecure دیکھا تو دکھ ہوا‘ سارا ورلڈ کپ اور ٹیموں کے کھلاڑی ایک طرف ‘ شعیب اختر اکیلا ایک طرف‘ لوگ شعیب اختر کیلئے دیوانے ہورہے تھے اور یہ وسیم سے ہضم نہیں ہورہا تھا۔ان کے نزدیک وسیم اکرم کا رویہ نوجوان فاسٹ باؤلر سے مناسب نہیں تھا۔ ڈاکٹرصاحب نے وسیم اکرم کو سمجھایا کہ شعیب اختر تمہیں ورلڈ کپ جتوائے گا‘یہ تمہارا میچ وننگ باؤلر ہے‘ اس کو آگے بڑھنے کا اس طرح راستہ دو اور اسے ورلڈ کپ جیتنے کیلئے استعمال کرو جیسے عمران خان نے تمہیں 1992ء میں کیا تھا ‘لیکن شعیب کی مقبولیت وسیم کو ہرٹ کررہی تھی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے وسیم اکرم کی بیگم صاحبہ سے بھی را بطہ کیا کہ اپنے میاں کو سمجھائو‘ اپنے سٹارباؤلر کو خراب نہ کرے‘ مگر یہ توقع پوری نہ ہوئی۔ ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ شعیب اختر کو ڈسپلن کیوں نہیں کرتے وہ گھوریاں ڈالتا ہے‘ کھلاڑیوں سے لڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے: 80 ء کی دہائی میں ویسٹ انڈیز باؤلرز ہمارے کھلاڑیوں کو باؤنسر مار مار کر ادھ موا کرتے تھے اور سب سر جھکائے کھڑے رہتے تھے‘ اب ہمارے پاس ایک باؤلر ہے جس سے پوری کرکٹ کی دنیا ڈرتی ہے تو تم لوگوں کو اپنے امیج کی فکر پڑ گئی ہے۔ شعیب فاسٹ باؤلر ہے اور وہ ایسے ہی رہے گا‘ اسے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اس کے اندر سے جارحانہ پن نکل گیا تو وہ اقبال قاسم کی طرح بال تو کرا سکتا ہے‘160کلومیٹر کی سپیڈ سے نہیں۔وہ کہتے: شعیب اختر کو پراپر ہینڈل نہ کرکے ہم نے پاکستان کرکٹ کا نقصان کیا ہے۔
اگر آج شعیب اختر وسیم اکرم کے کمنٹس پر سخت ردعمل دے رہا ہے تو اس کے پیچھے ان برسوں کی تلخی ہے جو شعیب نے اپنے اندر چھپا کر رکھی تھی کہ اس کے ساتھ وسیم اکرم کا رویہ کبھی اچھا نہیں رہا جس کی گواہی ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا بندہ دیتا تھا‘ بلکہ شعیب اختر کی خاطر ڈاکٹر ظفر الطاف نے وسیم اکرم سے اپنے ذاتی تعلقات تک خراب کیے ۔ویسے اگر شعیب اختر بھی وسیم اکرم کی بھارتی کامیڈین کپل شرما کے برسوں پہلے شو میں ایک لائٹ موڈ میں دیے گئے کمنٹس کو نظر انداز کر جاتا تو بہتر تھا۔ وسیم اکرم جیسا بھی تھا شعیب اختر کا کپتان رہا تھا‘ اس سے بڑا تھا اور بڑا باؤلر۔
مجھے وسیم اکرم اور شعیب اختر کے اس قصے کا برسوں پہلے پتہ تھا لیکن اب دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے دیکھ کر ایک دفعہ پھر رومانس ٹوٹا ہے کہ میں تو سمجھتا تھا کہ یہ کھلاڑی میرے گائوں کی کرکٹ ٹیم کی طرح دوست ہوں گے‘ ایک دوسرے کی کامیابیوں پر خوش ہوتے ہوں گے‘ لیکن مجھے کیا پتہ تھا انسان جوں جوں ترقی کرتا جاتا ہے وہ زیادہ insecure اور حسد کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر وسیم اکرم جیسا ورلڈ کلاس باؤلر بھی شعیب اختر سے insecure محسوس کر سکتا تھا تو پھر بندہ کس سے گلہ کرے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کی لڑائیوں اور ایک دوسرے سے حسد کی کہانیاں سن کر مجھے اپنے گائوں کے لڑکوں کی 1980ء کی دہائی کی کرکٹ ٹیم بہتر اور ورلڈ کلاس لگنے لگی ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کی کامیابی اور مخالف ٹیموں کیخلاف اچھی پرفارمنس پر خوشی سے پاگل ہو جاتے تھے‘حسد کا شکار نہیں ہوتے تھے نہ ہی ایک دوسرے کیخلاف سازشیں کرتے تھے‘ جیسے آج کل کرکٹ ٹیم میں مشاہدے میں آ رہی ہیں۔ ہم پینڈو کھلاڑی ہی بہتر تھے۔ آج چالیس برس بعد ان سب دوستوں کی یاد دھیرے سے لوٹ آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: