اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط19)۔۔۔ عباس سیال

مسجد کی مغربی جانب سلطان شمس الدین التمش کا مزار واقع ہے جس پر بھی قرآنی آیات تحریر ہیں،جسے بادشاہ نے جیتے جی بنوایا تھا

دِلّی میں پانچواں دن

            جامع مسجد ،چاندنی چوک ،لال قلعہ، غالب کی حویلی،درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءاور مقبرہ ہمایوں کو قریب سے کھنگالنے ، چاندنی چوک ،چھاﺅڑی بازاراور پرانی دِلی کو خوب لتاڑنے کے بعد اب میرے پاس تین دن باقی بچے تھے ۔صبح سویرے ڈاکٹر ملک راجکمار کے آفس میں چھولے بھٹوروں کا ناشتہ کرتے ہوئے انہوں نے کچھ ان الفاظ میں اپنی معصومانہ خواہش کا اظہار کیا تھا ۔”تاج محل تاں ڈِٹھی ونج“ ۔ ڈاکٹر صاحب تاج محل میرے شیڈول میں شامل نہیں کیونکہ ابھی فرید آباد اور گُڑگاﺅں کے سرائیکیوں سے ملنا باقی ہے۔چھولے بھٹوروں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے میں اپنا آئندہ کا شیڈول ڈاکٹر صاحب کے گوش گزار کرنے لگا ۔ انہوں نے حسب عادت تحکمانہ لہجے میں کہا :” میں جو تیکوں آکھدا پیاں کہ تاج محل ڈیکھ گھن تاں مطلب ضرور ڈیکھسیں،ورنہ ارمانی راسیں“۔اچھا وَت ڈساﺅ میں کے کراں؟۔ ”او میڈا بھرا ! تُوں کُجھ وِی نہ کر ،بس ہوٹل آلاں کوں فون بِھرکا ،او تیڈا ٹرپ ارینج کرڈیسن ورنہ میں تیڈی ٹکٹ بک کرواڈینداں “۔ ڈاکٹر راجکمار کی بات دل کو بھلی لگی، میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے پرنس ہوٹل کا نمبر ڈائیل کر دیا ۔دوسری طرف استقبالیہ ڈیسک پر بیٹھے ہوٹل منیجر پالے رام سے تاج محل آگرہ جانے کیلئے معلومات لینا شروع کیں۔بقول پالے رام،پرنس ہوٹل کے سامنے سے ائیرکنڈیشنڈ بسیں سیاحوں کو تاج محل دکھانے کیلئے علی الصبح آگرہ لے جاتی ہیں ،آپ جس دن کی چاہیں میں سیٹ بک کروائے دیتا ہوں ۔میرے ہاں کہنے کی دیر تھی کہ کوئی د س پندرہ منٹوں میں میرے موبائیل اسکرین پرایس ایم ایس موصول ہوا کہ کل صبح سویرے تم آگرہ جا رہے ہو۔ ناشتہ کرکے میں سیدھا پُوسہ روڈ پر وِجے کمار کی رہائش گاہ پر پہنچا، یہاں سے ہمیں سیدھا قطب مینار دیکھنے جانا تھا اور شام کو انڈین اسلامک کلچرل سنٹر پر دیوالی ملن پارٹی میں شرکت کرنا تھی۔

 قطب مینار کی سیر: یہ ہے دِلی کا قدیمی علاقہ مہرولی کہ جہاں سے کبھی دِلی شروع ہوتی تھی،دوسرے لفظوں میں دِلی کا یہ علاقہ سب سے پہلے آباد ہوا تھا۔تاریخ کے پنوں میں لکھا ہے کہ شہاب الدین محمد غوری نے جب ہندوستان کے راجہ پرتھوی راج چوہان کو ترائن کے مقام پر شکست دی تو دِلی سمیت اجمیر تک کے علاقے مسلمانوں کے زیرِنگین آگئے تھے۔اُس وقت دِلی کے اِسی مہر ولی علا قے میں واقع پرتھوی راج کا”رائے پتھورا“ نامی قلعہ مسلم سلطنت کا اولین مرکز بنا تھا اورپھر اِسی مقام سے علم و دانش کے دلدادہ بادشاہ قطب الدین ایبک کے ہاتھوں مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار جیسی شاہکار عمارتوں نے اہل ہند پر ہیبت طاری کر دی تھی۔

ٹکٹ ہاتھوں میں پکڑے سینکڑوں سیاحوں کے ہمراہ ہم جیسے ہی قطب مینار کے احاطے میں داخل ہوئے،سرخ اور بھوری رنگت والے پتھروں سے مزین عظیم الشان مینار نے دور ہی سے ہمارا سواگت کیا۔ایک اونچا مینار، قرآنی آیات کا لباس پہنے کھڑا تھا ۔ ملکی و غیر ملکی سیاح اس کے گرد ایسے چمٹے ہوئے تھے جیسے شہد کی مکھیاں اپنے چھتے کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ ہر کوئی مخصوص زاویوں سے قطب مینار کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر نے میں مگن تھا۔ نائیکون کا مہنگا کیمرہ ہاتھوں میں پکڑے فرش پر لیٹا کوئی چینی فوٹوگرافر لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو مینار کے سامنے کھڑا کئے ایسے زاویے سے شوٹ کر نے کی کوشش میں تھا کہ اس کی شولڈر کٹ بالوں والی حسینہ سمیت قطب مینار بھی بیک گرا ونڈ میں پوری طرح سما جائے ۔ مختلف زاویوں سے اپنی محبوبہ کو شوٹ کرنے کے بعد جیسے ہی اس نے اپنا کام مکمل کیا میں انکل وِجے کمار سمیت اس لڑکے کی جانب بڑھا اوراپنا کیمرہ تھماتے ہوئے اس سے درخواست کی کہ اُسی منفرد زاویے سے ہم دونوں کو بھی ویسے ہی شوٹ کرے جیسا کہ اپنی فرینڈ کو کیا تھا ۔ چینی لڑکا اثبات میں سر ہلاتے بولا کہ وہ آپ دونوں کو بخوشی شوٹ کردے گا۔دو تین تصویریں کھینچنے کے بعد سینک یو کے الفاظ سمیت اُس نے کیمرہ واپس لوٹا دیا، ہم نے بھی جوابی سینک یو کہہ کر اس کا برابر شکریہ ادا کیا۔

            تصویر کشی کے ابتدائی مرحلے کے بعد میں انکل کے ہمراہ قطب مینار کے اطراف گھوم پھر کر آرٹ کے اس انوکھے عجوبے کا جائزہ لینے لگا۔میرے اندازے کے مطابق پانچ منزلہ مینار کی ہر منزل پر قرآنی آیات بیلوں کی صورت خطِ کوفی میں کنداں کی گئی تھیں۔گردن اوپر اٹھا کر دیکھنے سے اندازہ ہواکہ مینارجوں جوں بلند ہوتا جاتاہے اس کی گولائی کم، اونچائی آسمان کو چھوتی چلی جاتی ہے۔یہاں پر بھی خوش قسمتی سے ایک گائیڈ مل گیا، میں آنکھیں مینار پر، کان گائیڈ کی آواز کی طرف لگائے دھیرے قدموں سے ٹہلنے لگا تھا۔

            قطب مینا ردراصل مسجد قوت الاسلام کا ہی حصہ ہے۔جس وقت قطب الدین ایبک نے دلی کی اولین مسجد قوت الاسلام کی تعمیر مکمل کروائی تو اُس نے کثیر المقاصد پہلو ﺅںکو سامنے رکھتے ہوئے ایک بلند و بالا مینار کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا کہ جس سے اسلام کی عظمت و ہیبت قائم ہونے کے ساتھ ساتھ دشمن پر بھی نظر رکھی جا سکے اور جو فتح کی یادگار نشانی بھی ہو اور ساتھ بنی مسجد میںپانچوں و قتوں کی اذانوں کیلئے بھی اسے استعمال کیا جا سکے ۔اسی مقصد کی خاطر مینار کے اندر سیڑھیاں تعمیر کی گئیں، جن کے سہارے موذن مینار کے آخری حصے پر چڑھ کر اہلِ ہند کو فلاح کی طرف بلاتا تھا۔ ابھی مینار کی صرف پہلی منزل کی تعمیر مکمل ہوئی تھی کہ قطب الدین ایبک کی لاہور میں پولو کھیلتے ہوئے ایک حادثہ میں موت ہوگئی، پھر اُس کے جانشین شمس الدین ا لتمش نے مینار کی بالائی تین منزلیں مکمل کروائیں جبکہ آخری منزل فیروز شاہ تغلق کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس طرح طرزِ تعمیر کا ایک نادر نمونہ دنیا کے سامنے آیا۔ مینار کے اندر بنی سیڑھیوں کے سہارے اوپری منزل پر چڑھ کر دلی شہر کے قرب و جوار کا بھی خوب نظارہ کیا جاتا تھا،مگر شاید سیکورٹی رسک کے سبب سیڑھیوں والا دروازہ مستقل طور پر مقفل کردیا گیا ہے۔ قطب مینار دیکھنے کے بعد ہم نے احاطے میں تعمیر کردہ دوسری تاریخی عمارتوں کا مشاہدہ کیا۔مینار کے گرد کئی جگہوں پر چھوٹی مسجدوں کے آثار ملتے ہیں جن کا رقبہ محض ایک چارپائی کے برابر ہوگا، غالبا انہیں تہجد یا نفلی عبادتوں کے لئے گوشہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہو گا۔

مسجد قوت الاسلام: مسجدقوت الاسلام ہندوستان کے دارالحکومت دلی میں خاندان ِغلاماں کے دورکی اولین یادگار کے طور پر اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔مسجد میں داخلے کیلئے کئی ڈیوڑھی نما دروازے ہیں،خصوصاً مسجدکا جنوبی دروازہ سلطان علا و الدین خلجی نے بنوایا تھاجسے ان کے نام کی مناسبت سے علائی دروازہ کہا جاتا ہے۔علائی دروازہ وہ پہلی عمارت ہے جس کی تعمیر ہندوستان میں اسلامی فن تعمیر کے اصولوں پر کی گئی تھی۔اگر مسجد کو مشاہداتی آنکھ سے گھوم پھر کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی تعمیر میں پرانی عمارتوں کا ملبہ استعمال کیا گیا تھا خصوصاً مسجد میں لگے پتھر کسی گزشتہ مندر کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جنہیں وہاں سے اکھاڑ کر مسجد کے ستون اور دیواریں استور کی گئی تھیں۔عام طور پر کٹر ہندو وں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جاتاہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اُن کے مندروں کو زبردستی توڑ کر وہاں مساجد تعمیر کیں اورکچھ مندروں کا ملبہ دوسری مسجدوں میں بھی استعمال کیا جس میں مسجد قوت الاسلام سرفہرست ہے جبکہ اس نظریے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستا ن میں جین اِزم کے ماننے والوں نے بڑی تعداد میں ہندو دھرم اپنا لیا تھا۔ تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ جین دھرمیوں کو برہمنوں نے زبردستی ہندو بنالیا تھا۔چونکہ جین مندروں میں پوجا پاٹ کرنے والے کم لوگ باقی بچے تھے اسی لئے اُن کے عبادت کدے اکثر سنسان و یران پڑے رہتے تھے۔مسلمانوں نے جب فاتح کی حیثیت سے ہندوستان میں قدم رکھا تو انہیں اردگرد کے جین مندر کھنڈردکھائی دئیے،شاید اسی لئے انہوں نے اُن پتھروں کو وہاں سے اکھاڑ کر مسجدوں میں استعمال کیا تھا، مسجد قوت الاسلام کی تعمیر بھی کچھ اسی طرح سے کی گئی تھی۔میں نے اپنے حساب سے خوب گھوم پھر کر دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ مسجد قوت الاسلام کے ستونوں اور دیواروں پر لگے پتھروں کی سلوں پر سجے بت کسی منہدم مندر کا حصہ معلوم ہوتے ہیں، شاید یہ وہی پتھر ہیں جو کسی مندر کی عمارت سے اتارکر لگائے گئے ہوں گے۔ ہندوستان پر حکومت کرنے والے مسلمان بادشاہوں کی یہ حرکت بہت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اگر مسجد ہی بنانا تھی تو کسی بت کدے کو مسمار کرنے یا ویران مندر کاپتھر استعمال کرنے کی کیا تُک تھی؟

            مسجد کی مغربی جانب سلطان شمس الدین التمش کا مزار واقع ہے جس پر بھی قرآنی آیات تحریر ہیں،جسے بادشاہ نے جیتے جی بنوایا تھا۔مسجد کی موجودہ صورتحال کسی ایسے کھنڈر جیسی ہے جس کی دیواریں دھیرے دھیرے منہدم ہوتی جارہی ہیں۔پوری مسجد ویران پڑی ہے، یہاں نماز ادا نہیں کی جا سکتی، نہ ہی محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کی بحالی اور حرمت کا کوئی خاص بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ہند کے مسلمانوں کو اس مسجد کی کوئی فکر ہے۔اپنے شاندار ماضی سے لپٹی کھنڈر نما مسجد کی ڈیوڑھیاں، ستون اور دیواریں نہ صرف مسلمانوں کی عظمت ِ رفتہ کی گواہ ہیں بلکہ مسجد کا کونہ کو نہ ہند کے مسلمانوں کو اپنی زبوں حالی کی داستان سنا رہا ہے۔ مسجد کے ٹوٹے پھوٹے ڈیوڑھی نما دروازے سے باہر نکل کر قطب مینار پر الوداعی نظر ڈالنے ہوئے ہم باہر نکل آئے۔پچھو، جیہڑ ی وِچھڑی کونج قطارُوں۔

یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی (قسط18)۔۔۔ عباس سیال

دلی دل والوں کی (قسط17)۔۔۔ عباس سیال

 دلی دل والوں کی (قسط16)۔۔۔عباس سیال


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

%d bloggers like this: