نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کامل مایوسی کی فضا میں امید کی توقع؟ ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریاست کے نہایت ہی طاقت ور حلقوں کی جانب سے امید تو یہ دلائی جا رہی ہے کہ سب ”ٹھیک ہو جائے گا“ ۔ دل مگر مطمئن نہیں ہو پا رہا۔ میری مایوسی کی اصل وجہ عمران مخالف سیاسی جماعتوں کا گزشتہ برس کے اپریل میں ہوا یہ فیصلہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد فوری انتخاب کروانے کے بجائے قومی اسمبلی کی ”آئینی مدت“ ہر صورت پوری کی جائے۔

اس کالم کے باقاعدہ قارئین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ میں عمران خان کے انداز حکمرانی کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کا حامی نہیں تھا۔ میری پرخلوص خواہش تھی کہ انہیں آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ اکتوبر 2021 ء میں لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے بارے میں ایک قضیہ شروع ہوا۔ وہ اپنے تئیں ختم تو ہو گیا مگر اس کی وجہ سے سرگوشیوں میں یہ افواہ شہر اقتدار میں تیزی سے پھیلنے لگی کہ عمران خان اپنی پسند کے جنرل فیض حمید کو قمر جاوید باجوہ کی میعاد ملازمت ختم ہونے سے کم از کم چھ ماہ قبل نیا آرمی چیف نامزد کرنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ نومبر 2022 ء کے اختتام پر اگر فیض حمید اپنے منصب پر فائز ہو گئے تو سابق وزیر اعظم قبل از وقت انتخاب کا اعلان کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیں گے۔ ممکنہ انتخابات کے نتیجے میں انہیں دو تہائی اکثریت میسر ہونا یقینی نظر آ رہا تھا۔ وہ مل جاتی تو عمران خان بتدریج ہمارے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدل کر ترکی کے اردوان کی طرح آئندہ برس تک ہمارے ”سلطان“ بنے رہ سکتے تھے۔

کئی نجی محفلوں میں سرگوشیوں میں بیان ہوئی عمران خان کی مبینہ طور پر سوچی ”دس سالہ سکیم“ سننے کو ملتی تو میں تلملا جاتا۔ کئی دوستوں کو یاد دلاتا کہ آئینی اعتبار سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا آغاز 1973 ء میں ہوا تھا۔ اس حوالے سے نئے انتخاب 1978 ء میں واجب تھے۔ بھٹو صاحب نے مگر جنوری 1977 ء میں انہیں مارچ کی سات تاریخ کو منعقد کروانے کا اعلان کر دیا۔ انہیں گماں تھا کہ کئی ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن جماعتیں ان کا مقابلہ نہیں کر پائیں گی۔ وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹ آئیں گے۔ ان دنوں بھی یہ افواہ گردش میں تھی کہ ”دو تہائی اکثریت“ کے ساتھ اقتدار میں لوٹ آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے با اختیار صدر بننا چاہیں گے۔ پارلیمانی طرز حکومت سے جان چھڑا لیں گے۔

جن لوگوں کو 1976 / 77 ء کے حقائق یاد نہیں تھے ان کے روبرو مصر رہا کہ ”ہیوی مینڈیٹ“ کے حصول اور 1998 ء میں پاکستان کو ایٹمی قوت ڈیکلئر کرنے کے بعد نواز شریف بھی ”نظام شریعت“ کے نفاذ کے بعد وطن عزیز کے ”امیر المومنین“ بننا چاہ رہے تھے۔ ان کی خواہش بھی لیکن 12 اکتوبر 1999 ء کی نذر ہو گئی اور ہمیں جنرل مشرف کے نو برس برداشت کرنا پڑے۔ جبلی طور پر 2021 ء کے اختتامی ایام میں مجھے یہ خدشہ لاحق رہا کہ عمران حکومت کے خلاف لگائی گیم بھی بالآخر ملک کو ویسے ہی عدم استحکام سے دو چار کرے گی جس کا ہمیں 1977 ء اور 1999 ء میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ دونوں برسوں میں جو بندوبست ”عدم استحکام“ کو سنبھالنے کے نام پر بالآخر نمودار ہوا اس کے نتیجے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ان کی اجتماعی ساکھ بلکہ مزید مجروح ہوئی اور اس کی بدولت غیر پارلیمانی قوتیں مزید طاقت ور ہو گئیں۔

کوئی پسند کرے یا نہیں 2023 ء کے ستمبر میں ہم ویسی ہی کیفیت سے دو چار ہیں۔ تحریک انصاف اپنی بقاء کی فکر میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اس کی جگہ 16 مہینوں تک اقتدار میں رہی جماعتوں کے قائدین مہنگائی کے عذاب کی بدولت عوام کو منہ دکھانے جوگے نہیں رہے۔ جلسے جلوس تو دور کی بات ہیں۔ وہ روایتی بیانات جاری کرنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ شہباز حکومت کی جگہ جو نگران حکومت آئی ہے وہ اقتدار میں محض دو ہفتے گزارنے کے بعد اپنی ساکھ لٹوا بیٹھی ہے۔ ہمارے گھروں میں بجلی کے جو کمر توڑ بل آئے تھے ان کی شدت میں دو بار ”آئندہ 48 گھنٹوں میں“ کچھ ریلیف فراہم کرنے کا وعدہ ہوا۔ یہ وعدہ مگر خام خیالی ہی ثابت ہوا۔

بجلی کے بلوں کی وجہ سے ہمارے نصیب میں آئی اذیت ابھی کم نہیں ہو پائی تھی تو پٹرول کے نرخوں میں بھی 15 روپے کا اضافہ ہو گیا۔ ڈالر کی قدر بھی دو بارہ آسمان کی جانب بڑھنے لگی۔ کامل مایوسی کے اس عالم میں آرمی چیف کو ازخود متحرک ہو کر لاہور اور کراچی میں صنعت کاروں سے ملاقاتوں کے ذریعے عوام کو حوصلہ فراہم کرنے کی مشقت سے گزرنا پڑا۔

دریں اثناء سیاسی بحران بھی گمبھیر تر ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال یہ کالم چھپنے کے آٹھ دن بعد اپنے منصب سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ منصب چھوڑنے سے قبل وہ چند اہم ترین مقدمات کی بابت ”شارٹ اینڈ سویٹ“ فیصلہ سنانا چاہ رہے ہیں۔ عارف علوی کی میعاد ملازمت بھی ختم ہونے کو ہے۔ آئینی اعتبار سے نئے صدر کے انتخاب تک وہ ایوان صدر میں براجمان رہ سکتے ہیں۔ وہاں مقیم رہتے ہوئے تاہم وہ کئی ایسے فیصلوں کا کم از کم ”اعلان“ کر سکتے ہیں جو سیاسی محاذ پر تھرتھلی مچا سکتی ہے۔ ایسے کئی سوالات اور تنازعات بھی اٹھ رہے ہیں جن کے بارے میں آئندہ آنے والے چیف جسٹس بھی حیران کن رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ گزشتہ برس کے اپریل سے شروع ہوا افراتفری کا ماحول مجھ نا امید کو لہٰذا جلد ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں ”سب اچھا ہو جائے گا“ والی تسلی پر جی چاہتے ہوئے بھی اعتبار کرنا مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author