مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جماران : امام انقلاب آیتہ اللہ خمینی کا گھر اور امام بارگاہ حسینیہ(13)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب اسرار عسکر خانی ہمیں ساتھ لے کر چند قدموں کے فاصلے پر اس امام بارگاہ میں لے آتے ہیں جو آیتہ اللہ خمینی کے گھر کے عین سامنے واقع ہے اور جہاں وہ مقامی اور بین الاقوامی وفود اور ہر عام وخاص سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ہم سب اس امام بارگاہ میں داخل ہوتے ہیں۔ دروزاے سے داخلے ہونے کے بعد دائیں جانب ایک بڑی اسکرین لگی ہے۔ جبکہ بالکل سامنے ایک اسٹیج ہے جو خاصی بلندی پر بنایا گیا مگر اس اسٹیج پر آنے کا راستہ عمارت سے باہر پیچھے سے بنایا گیا ہے۔ اسٹیج پر آنے کیلئے ایک بڑا سا عقبی دروازہ موجود ہے۔ یہ اس عمارت میں داخلے کا دوسرا دروازہ ہے مگر اس دروازے سے صرف اسٹیج پر ہی آیا جا سکتا ہے۔ اسی دروازے سے آیتہ اللہ خمینی اس امام بارگاہ کے اندر داخل ہوتے تھے۔ وہ سیدھے اسٹیج پر ہی آتے تھے۔ وہ اپنے گھر سے ایک پُل نما پلیٹ فارم پر چلتے ہوئے دروازے سے گزر کر یہاں پہنچتے تھے۔ یہ اسٹیج ایک بالکونی کی طرح ہے۔ اندر سامنے کی طرف تین ستون ہیں اور ایک ستون ذرا ہٹ  کر ہٹ کر بنایا گیا ہے۔ آیتہ اللہ خمینی بالعموم اپنے صاحبزادے کے ہمراہ یہاں اس بالکونی تک آتے تھے اور یہاں موجود کرسی پر بیٹھا جایا کرتے تھے۔اس اسٹیج پر موجود اُن کے صاحبزادے یا دیگر کوئی بھی اہم شخصیت فرش پر بیٹھ کر اُن کی گفتگو سنتے تھے۔ ہم نے بہت پہلے یہاں دوسرے ایرانی صدر محمد علی رجائی اور آیتہ اللہ خمینی کے صاحبزادے احمد خمینی کی اسی مقام پر بیٹھ کر تقریر سنتے ہوئے تصویر دیکھی تھی۔ اس امام بارگاہ میں تین اطراف سے ایک بالائی بالکونی بنی ہوئی ہے۔ جہاں پر خواتین کے بیٹھنے اور آیتہ اللہ خمینی کی تقریر یا گفتگو سننے کا انتظام کیاگیا تھا۔ اس حسینیہ امام بارگاہ کو کوئی بڑی عمارت یا بڑا ہال نہیں کہا جا سکتا۔

اسرار عسکر خانی یہاں کی انتظامیہ سے کوئی ایسی فلم چلانے کو کہتے ہیں جس میں اسی ہال کے اندر جناب آیتہ اللہ خمینی تقریر کر رہے ہوں۔ اب کمپیوٹر کا نیٹ ورک آن ہوجاتا ہے اور پاور پوائنٹ پر آیتہ اللہ خمینی کی تقریر شروع ہوجاتی ہے۔ میں انٹر نیٹ پر پہلے ہی ان کی کئی تقریریں سُن چکا ہوں۔ ہم سب آیتہ اللہ خمینی کی تقریر سُنتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی بولی گئی فارسی یا تو زین نقوی سمجھ رہے ہیں یا پھر علی فاطمی ، محمد بھائی اور اسرار عسکر خانی کو سمجھ میں آ رہی ہوگی۔ ہم ایک انقلابی کی تقریر کی آواز اور ان کے لب ولہجہ سے ہی اُن کے جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ میں انٹرنیٹ پر ولادیمیر لینن، ماؤزے تنگ، جوزف اسٹالن، فیڈل کاسترو، کِم ال سنگ، ہوچی منہہ، چی گویرا اور بیسویں صدی کے کئی دیگر انقلابیوں کی تقریریں اور اُن کی آوازیں سن چکا ہوں۔ ان تقریروں کا سب سے طاقتور عنصر اُن کی آواز کا ٹھہراؤ اور اُن کے لہجے کا یقین ہوتا ہے۔

انقلاب آ رہا ہو یا آ چکا ہو۔ اس کے اصل محرکات اس خطہ کے معروضی حالات اوران حالات پر عوام کا مجموعی ردعمل ہوتا ہے۔ پھر انقلابی قیادت کا ان حالات کے بارے میں ٹھوس تجزیہ، پالیسی، حکمت عملی اور اور اقدامات یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انقلاب کا بہاؤ کس سمت ہوگا۔ انقلاب کا رُخ موڑنے اور اس کے نتائج اور اثرات کو عوام تک پہنچنے سے روکنے کیلئے جوڑ توڑ کرنے والی عوام دشمن اور انقلاب دشمن قوتیں کیا پالیسی اور حکمت عملی طے کرتی ہیں اور اس سے عوام کو منزل سے کس طرح اور کس حد تک بھٹکایا جا سکتا ہے۔ ان حالات میں انقلاب سچ مچ ایک پتھروں کو پیسنے والی مشین کا روپ دھار لیتا ہے۔ ہم نے یونیورسٹی آف تہران سے آزادی چوک تک اور پھر وہاں سے ایران کے کونے کونے تک انقلاب کو پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھتے اور اس کے سامنے آکر رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو کچلتے اور پامال کرتےہوئے دیکھا ہے۔

Advertisement

آیتہ اللہ خمینی شاہ ایران کے “سفید انقلاب” کی شدید مخالفت کرنے پر 1963ء میں قم سے گرفتار کرکے جلا وطن کر دیئے گئے۔  شاہ ایران نے انہیں ترکی جلاوطن کر دیا ۔ پہلے انہیں انقرہ لے جایا گیا بعدازاں وہ ترکی کے ایک اور شہر بروسا بھیج دیئے گئے۔ یہ ترکی کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں اس شہر کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ 5 ستمبر1965ء کو وہ ترکی چھوڑ کر نجف اشرف چلے آئے۔ انقلاب کے بعد وہ کچھ دنوں کیلئے قم میں مقیم رہے بعد ازاں عارضۂ قلب کے باعث انہیں تہران منتقل ہونا پڑا۔

تہران میں وہ 23 جنوری 1980ء کو جماران کے علاقے میں آئے۔ ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ قم کی آب و ہوا ان کی صحت کیلئے موزوں نہیں چنانچہ انہوں نے تہران میں رہائش کیلئے جماران کا رُخ کیا۔ یہاں ایک بہت ہی چھوٹے اور مختصر سے گھرکا انتخاب کیا۔

منظرنقوی صاحب نے اس گھر کو پہلی بار دیکھتے ہی مجھ سے پوچھا کہ اس گھر کا رقبہ کیا ہوگا۔ میں نے بے خبری کا اظہار کیا تو انہوں نے اندازہ لگا یا کہ اُن کے خیال میں اس گھر کا رقبہ 50 مربع گز رہا ہوگا۔ میں دل ہی دل میں اس گھر کا کراچی کے 60 مربع گز کے چھوٹے رہائشی یونٹوں سے موازنہ کرنے لگا۔ مگر بعد میں ایک ویب سائٹ سے معلوم ہوا کہ اس گھر کے ایک کمرہ کا مجموعی رقبہ 12 مربع میٹرہے۔ ہمارے ہاں غریب آبادیوں کے چھوٹے یونٹوں کے کمرے 10/12 فٹ کے ہوتے ہیں۔ یہ گھر بھی اتنے ہی رقبہ کا لگتا ہے۔ اس گھر کے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جن کا کوئی صحن نہیں۔ گھر سے باہر کچھ کُھلی جگہ پڑی ہے جہاں ایک پلیٹ فارم بنایا گیا جس پر چند قدم چل کر آیتہ اللہ خمینی عقبی دروازے سے امام بارگاہ حسینیہ میں اس بالکونی تک پہنچ جایا کرتے تھے، جس کے بارے میں آپ کو پہلے ہی بتایا جا چکا ہے۔ مشرقی کمرہ آیتہ اللہ خمینی کے استعمال میں تھا۔ وہ ایرانی صدر، غیرملکی سربراہانِ مملکت اور دیگر اعلی حکام سے اسی کرے میں ملتے تھے۔ آج کل مختلف یوٹیوبر حضرات ایک محل نما گھر کو آیتہ اللہ خمینی سے منسوب کرتے ہیں جو درست نہیں۔ میں کوئی 23 سال بعد اس گھر میں دوسری بار آیا ہوں۔ اس وقت اس گھر کے دونوں کمرے کھلے ہوئے تھے مگر یہ دونوں کمرے بند پڑے ہیں۔ گھر کی مشرقی جانب ایک دومنزلہ گھر میں نے پہلی بار نہیں دیکھا تھا۔ غالباً یہ بعد کی تعمیرات ہوں گی۔

میں جب پہلے آیا تھا تو ہمیں اس گھر کے قریب ایک اسپتال میں لے جایا  گیا تھا جہاں ہمیں اسپتال کا وہ چھوٹا سا کمرہ اور اس کے اندر پڑا ہوا ایک بستر دکھایا گیا تھا جہاں آیتہ اللہ خمینی نے زندگی کے آخری ایام گزارے تھے اور جہاں انہوں نے زندگی کی آخری سانس لی تھی۔ پہلی بار ہمیں آیتہ اللہ خمینی  کے گھر کا وہ بستر دکھایا گیا تھا جس پر وہ آرام کرتے تھے۔ ہمیں اُن کے صاحبزادے احمد خمینی کی روایت سے ایک واقعہ سنایا گیا تھا۔ “ایک بار رات کو عراقی طیاروں نے تہران پر شدید بمباری کی تھی ۔لگتا تھا کہ پورا شہر لرز رہا ہوگا۔ میں اپنے کمرے سے اُٹھ کر تیزی سے اپنے والد صاحب کے کمرے میں آیا۔ میں نے آکر دیکھا کہ وہ نہایت سکون سے بستر پر بیٹھے کسی دستاویز کا مطالعہ کررہے ہیں۔ میری موجودگی کو محسوس کرکے انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ احمد یہاں کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا کہ اس قدر شدید بمباری ہو رہی ہے ، کیا آپ سن رہے ہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ جاؤ سو جاؤ کچھ نہیں ہوگا”

Advertisement

ہم اسرار عسکرخانی کے ہمراہ باہر سے اس مختصر سے گھر اور اس کے آگے امام بارگاہ تک پہنچنے کے پلیٹ فارم اور گھرکے مغربی کمرے کے سامنے بنی سیڑھیوں کودیکھتے ہیں ۔ اس موقع پر اسرارعسکرخانی ہمیں کتب کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہ دو کتابیں آیتہ اللہ خمینی کی کتابوں کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہیں۔ ایک کتاب تجلئ توحید ہے اور دوسری کتاب کا نام تہذیب نفس ہے۔ ہم اس گھر سے گلی میں آجاتے ہیں۔ علی فاطمی  یہ بتا کر ہمیں حیرت زدہ کر دیتے ہیں کہ اب ہم سابق شاہ کا محل سعد پیلس دیکھنے جا رہے ہیں۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: