نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ عمران خان کو منگل کے روز ہر صورت گرفتار کرنے کا ارادہ باندھ لیا گیا ہے۔ اس دن صبح اٹھتے ہی لیکن جو کالم لکھا وہ سابق وزیر اعظم کے خلاف ”بس بھئی بس“ والی فضا دیکھ رہا تھا۔ بہرحال اب وہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ الزام کرپشن کا ہے جو عمران خان سے قبل آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے رہ نماؤں کے خلاف بھی بروئے کار لایا گیا تھا۔ نیب نے گویا سپریم کورٹ کے سند یافتہ ”صادق و امین“ کو بھی ”چور اور لٹیرے“ سیاستدانوں کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
”القادر ٹرسٹ“ کو بنیاد بناتے ہوئے عمران خان کے خلاف جس کارروائی کا آغاز ہوا ہے اس کی ”باریکیاں“ عاشقان عمران فی الوقت سمجھ نہیں پائیں گے۔ تحریک انصاف کے قائد کی گرفتاری کو یہ عاشقان اپنی ”ریڈ لائن“ قرار دیتے رہے ہیں۔ یہ لائن کراس ہوئی تو وہ ملک بھر میں سڑکوں پر نکل آئے۔ ہنگامہ آرائی کی بدولت سوشل میڈیا پر کامل انتشار کا جو ماحول نمایاں ہوا اس نے حکومت کو ٹویٹر اور یوٹیوب جیسی ایپس معطل کرنے پر مجبور کر دیا۔
اپنے بیانیے کے فروغ کے لئے تحریک انصاف پاکستان کی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے سوشل میڈیا کی اہمیت کو دریافت کیا۔ اس کی حرکیات پر کامل گرفت کے حامل ہنر مندوں کو معقول تنخواہوں پر ناقدین و مخالفین کی بھد اڑانے اور ”کپتان“ کو ”کرپٹ سسٹم“ کے خلاف لڑتا ”تنہا مجاہد“ ثابت کرنے کو مامور کیا۔ ٹویٹر، فیس بک اور یوٹیوب تحریک انصاف کے کلیدی ہتھیار ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ وقتی طور پر ان سے محروم ہو جانے کے بعد عاشقان عمران احتجاجی تحریک کی شدت برقرار رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ سوشل میڈیا پر کامل انحصار کرنے والی تحاریک کا تجزیہ کرنے والے کئی مستند محققین اگرچہ مصر ہیں کہ ایسی تحاریک ہیجانی کیفیات کی انتہاؤں کو چھو لینے کے بعد بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں چلی نام نہاد ”عرب بہار“ کا انجام اس ضمن میں دلیل کی صورت پیش کیا جاتا ہے۔
برجستہ اشتعال کے اظہار کے بعد آئندہ تین چار دنوں کے دوران تحریک انصاف کے رہ نما احتجاجی تحریک کی شدت و توانائی برقرار نہ رکھ پائے تو ریاست و حکومت لوگوں کی توجہ ”القادر ٹرسٹ“ کی تفصیلات کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسے ”دور حاضر کا سب سے بڑا سکینڈل“ بنا کر پیش کیا جائے گا۔ خلقت معصوم کو سمجھانے کی کوشش ہوگی کہ اپنے مخالفین کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ”چور چور“ پکارتے عمران خان خود بھی ”سادہ اور درویش صفت“ نہیں ہیں۔
عمران خان ”احتساب“ کے جس عمل سے گزریں گے اس کے خلاف یہ بدنصیب برسوں سے دہائی مچائے چلا جا رہا ہے۔ اکتوبر 1999 ءمیں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل مشرف نے جب ”احتساب بیورو“ کی بنیاد رکھی تو اس کے دو کلیدی عہدے دار میرے بے تکلف دوست تھے۔ نجی محفلوں میں انہیں سمجھاتا رہا کہ سیاستدانوں کو جنگی قیدیوں کی طرح قید میں رکھتے ہوئے بدنام اور بے اثر نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ قائل نہ ہوئے تو میں اپنے کالموں میں تواتر سے کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہوئے کئی افراد کے خلاف بالآخر بنائے مقدمات کی بے اثری کی بابت لکھنا شروع ہو گیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ کئی سیاستدان جو اکتوبر 1999 ءمیں ”کرپٹ“ ٹھہرا کر ”جنگی قیدیوں“ کی صورت رکھے گئے تھے بعد ازاں 2002ء کے انتخابات کے ذریعے قائم ہوئے حکومتی بندوبست میں نمایاں عہدوں پر فائز رہے۔
تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہی ہے کہ اس سے سبق سیکھنے کو حکمران اشرافیہ کبھی تیار نہیں ہوتی۔ عمران حکومت کے دوران سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن بنانے کے لئے نیب کو انتہائی بے دردی سے استعمال کیا جاتا رہا۔ ان کے ساتھ ہوئے سلوک کا ذکر ہوتا تو فواد چودھری صاحب جیسے وزرا پنجابی محاورے والا ”پولا“ منہ بنا کر وہ محاورہ دہرا دیتے جو گاجریں کھانے کی وجہ سے پیٹ میں اٹھے درد کا ذکر کرتا ہے۔ عمران خان بطور وزیر اعظم نہایت حقارت سے یہ فرماتے کہ دیانت داروں کو نیب سے گھبرانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونا چاہیے۔
نیب کی حراست کے دوران مجھے امید ہے کہ وہ جان لیں گے کہ اس ادارے کا ”کلیدی“ ہدف ”احتساب“ نہیں انتقام ہے۔ اس کے قواعد و ضوابط اور انتظامی ڈھانچہ فقط یہ سوچ کر تشکیل دیے گئے ہیں کہ حکمرانوں کو ناپسند شخص کو زیادہ سے زیادہ ذلت و رسوائی کا نشانہ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ عمران خان نیب کی حراست کے دوران میری دانست میں ”بریک“ نہیں ہوں گے۔ جبلی طور پر وہ ایک کھلاڑی ہیں جو اونچ نیچ اور کڑے وقت کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ ”القادر ٹرسٹ“ کے حوالے سے مگر ان کی اہلیہ کو ”شریک مجرم“ بنانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ عمران خان نے چند ہی دن قبل زمان پارک میں جمع ہوئے عاشقان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنا ”مرشد“ ٹھہرایا تھا۔ اس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا وہ دنیا سے کنارہ کش ہوئی درویش ہیں جو چھ مہینے ایک ہی کمرے میں تنہا بیٹھی رہتی ہیں۔ نیب اگر انہیں بھی گرفتار کرنے کے بعد تفتیش کے مراحل سے گزارنا چاہے گی تو عمران خان کے لئے برداشت کے بندھن برقرار رکھنا کافی دشوار ہو جائے گا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے ”القادر ٹرسٹ“ سے جڑے معاملات ہی میری توجہ کا مرکز نہیں۔ منگل کے دن عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل ہجوم نے ”برجستہ“ انداز میں جن عمارتوں کا رخ کیا اس نے مجھے چونکا دیا ہے۔
کالج داخل ہوتے ہی طالب علموں کی چلائی تحاریک کا متحرک کارکن بن گیا تھا۔ بعد ازاں عمر کا طویل حصہ سیاسی جلسوں اور جلوسوں کی رپورٹنگ کی نذر کیا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ جن عمارتوں کا ذکر ہوا ہے ”مشتعل ہجوم“ وہاں ”برجستہ“ پہنچ ہی نہیں سکتے۔ حیرانی اس بات پر بھی ہوئی کہ ان عمارتوں کے اندر گھسے ہجوم کے غضب کا اظہار پانچ تصاویر کے ایک سیٹ کے ذریعے ہوا جو واٹس ایپ کے ذریعے ملک بھر میں پھیلا دی گئیں۔ مشتعل ہجوم کی ”برجستگی“ سادہ نہیں پرکار تھی۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے رہ نماؤں کو مذکورہ ”پرکاری“ کے نتائج کا بخوبی اندازہ ہے۔ اسی باعث ان مناظر سے اپنی جماعت کی لاتعلقی پر اصرار کر رہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان کی وضاحتیں انگریزی محاورے والے نقصان (Damage) کو کنٹرول نہیں کر پائیں گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر