نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سچ کی تلاش۔۔۔|| اظہر عباس

ہم نے تاریخ کو سائینسی انداز میں پڑھنے کی بجائے قصہ کہانیوں کی کتابوں کی طرح پڑھنے کے عادی ہیں تاریخ سے سبق سیکھنا تو درکنار تاریخ کو پڑھنے کی نسبت گوگل کر کے اپنے پسند کے حقائق دریافت کرنا ہی اپنے علم کی معراج سمجھتے ہیں۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بار ارادہ تو یہی کیا تھا کہ راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی پر کچھ لکھوں جس کے تحت زمینوں پر قبضے دھڑا دھڑ جاری ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک اس پراجیکٹ کا ماحولیاتی سرٹیفیکیٹ ہی نہیں لیا گیا۔ پبلک ہئیرنگ جو کہ کسی بھی پراجیکٹ کی ماحولیاتی سرٹیفیکیشن کیلئے لازمی ہوتی ہے اب تک نہیں ہوئی اور جب سے پنجاب اسمبلی توڑنے کے اعلانات ہوئے ہیں، اس سرٹیفیکیشن کیلئے محکمے پر سرٹیفیکٹ جاری کرنے کا دباو ہے اور اب تو سنا جا رہا ہے کہ رولز میں کچھ ترامیم تک کرنے کا کام جاری ہے۔ اربوں/ کھربوں کے اس پراجیکٹ کیلئے اتنی جلدی کیوں ہے ؟

پھر سوچا کہ کچھ پنجاب کے محکمہ تعلیم کے وزیر کی کارستانیوں پر کچھ لکھا جائے جنہوں نے ایک این جی او کی یہ تجویز کہ اس کی مجموعی فنڈنگ کا کچھ حصہ سیلاب زدگان کیلئے مختص کر دیا جائے نا صرف بے دردی سے رد کر دی بلکہ کال سنٹر قائم کرنے پر زیادہ فوکس کیا جو ان کی سوشل میڈیا ٹیم کیلئے ایسے ہی استعمال ہوں جیسے کے پی کے میں ہو رہے ہیں۔

لیکن پھر میں نے فیصلہ کیا کہ قارئین کو لیکر سچ کی تلاش میں نکلا جائے۔

یہ کائنات جس کا مادی آغاز ایک نقطے سے ہوا تھا ہر لمحہ ارتقاء کی جانب گامزن ہے۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے آگے بڑھ رہی ہے ہر پل نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور جن ستاروں کا سفر رک جاتا ہے وہ ختم ہو جاتے ہیں اور یہ ہی فطرت ہے کہ انسانی شعور مسلسل آگے بڑھتا رہے کیونکہ اس کی ہر روز ایک نئی شان ہے۔

اللہ کے قانون کو اسی بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون اپنی جہالت پر قائم رہنے پر مصر ہے اور کون خودساختہ روایات کی تقلید میں جمود کا شکار ہے۔ کیونکہ ہر ساعت نہ رکنے والا وقت ان کو ان کی جہالت سمیت اپنے پاؤں تلے کچلتے ہوئے آگے نکل رہا ہے۔ وقت کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ وہ ہر پل آگے نکل رہا ہے اور اس کا ساتھ نہ دینے والے ماضی کا قصہ بن کر مٹ جانے والے ہیں

شعوری ارتقاء ہی وہ واحد قوت ہے جو انسان کو وقت سے بھی آگے لے جاتی ہے اور اسی کو زندگی کہتے ہیں

افسوس ہم نے سائنس میں تحقیق کرنے والوں، انسانی ارتقاء کے بارے میں تحقیق کرنے والوں اور اس میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں پر غیر سائینسی ذہن کو مقدم سمجھا۔ اور ہم نے قرآن کریم جو انسانیت کیلئے ھدایت کی کتاب تھی کو اور قرآن مجید میں غور و فکر کو چھوڑ دیا۔

اسی طرح ہم نے اپنی پسند کی تاریخ مرتب کی اور اس میں اپنی پسند کے قصے شامل کر کے اسے قومی تاریخ کا نام دے دیا۔ پاکستان کے ایک سابقہ بیورو کریٹ راؤ منظر حیات لکھتے ہیں کہ:

"ہم نے درسی کتب کا آغاز ہی محمد بن قاسم کے دیبل پر حملے سے کیا ہے۔ مگر محمد بن قاسم سے پہلے بھی برصغیر کی ایک شاندار تاریخ تھی جس کا ذکر کرنا ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ یا شاید مقامی تاریخ کو بھی ہم ایرانی‘ تورانی اور عرب سے درآمد ی کے گئے نظریات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔” "اس امر کا بھی اقرار نہیں کرتے کہ تاریخ کا بلکہ کسی بھی علم کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ ”

ہم نے تاریخ کو سائینسی انداز میں پڑھنے کی بجائے قصہ کہانیوں کی کتابوں کی طرح پڑھنے کے عادی ہیں تاریخ سے سبق سیکھنا تو درکنار تاریخ کو پڑھنے کی نسبت گوگل کر کے اپنے پسند کے حقائق دریافت کرنا ہی اپنے علم کی معراج سمجھتے ہیں۔

آئیے آپ کو تاریخ سے ایک نئی اور دلچسپ حقیقت بتاتے ہیں اور پھر آپ کو موقع دیں گے کہ آپ اپنی ملکی تاریخ میں ایسے کرداروں کو دریافت کر سکیں:

معروف مؤرخ رین ہارڈ لوتھن نے ایک مروج اصطلاح ڈیماگوگ کی تعریف یہ کی ہے کہ "ایک سیاست دان جو تقریر کرنے میں مہارت رکھتا ہے، چاپلوسی اور ترغیب دینے والا؛ اہم مسائل پر بات کرنے میں ٹال مٹول کرنے والا؛ ہر ایک سے ہر چیز کا وعدہ کرنے والا؛ جذبات کی طرف راغب کرنے والا؛ اور نسلی اور مذہبی جذبات کو ہوا دینے والا۔ طبقاتی تعصبات – ایک ایسا آدمی جس کی اقتدار کی ہوس اصول کے بغیر اسے عوام کا مالک بننے کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈیماگوگس قدیم ایتھنز سے جمہوریتوں میں نمودار ہوئے ہیں۔ وہ جمہوریت میں ایک بنیادی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں: چونکہ حتمی طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے، اس لیے عوام کے لیے یہ طاقت کسی ایسے شخص کو دینا ممکن ہے جو آبادی کے ایک بڑے طبقے کے سب سے نچلے عام فرقے کو اپیل کرتا ہے۔ Demagogues عام طور پر ایک بحران سے نمٹنے کے لیے فوری، زبردستی کارروائی کی وکالت کرتے ہیں جبکہ معتدل اور سوچنے والے مخالفین پر کمزوری یا بے وفائی/ غداری کا الزام لگاتے ہیں۔ اعلیٰ ایگزیکٹو آفس کے لیے منتخب ہونے والے بہت سے ڈیماگوگس نے ایگزیکٹو پاور پر آئینی حدود کو تہس نہس کر دیا ہے اور اپنی جمہوریت کو آمریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے، اور انہیں بیشتر اوقات اس میں کامیابی بھی ہوئی ہے۔

دنیا میں نظر دوڑائیں تو امریکہ میں ٹرمپ اور بھارت میں مودی اس ڈیماگوگ کی اصطلاح پر پورا اترتے نظر آتے ہیں۔

غور کیجئے ہمارا ڈیماگوگ کون ہے ؟

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author