مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کہانی کلائمکس پر پہنچ گئی ہے۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینظیر جانتی تھیں کہ وہ پاکستان جائیں گی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔ غیر ملکی دوستوں نے بھی خبردار کردیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ سے بھی اچھے سگنل نہیں ملے۔ لیکن وہ گئیں۔ انھیں جانا پڑا۔ موت کو دیکھ کر بھی قبول کرنا پڑا۔
سیاست یہ سب کرواتی ہے۔ سیاست نہیں، کیونکہ حقیقی معنوں میں جو سیاست ہے، وہ عظیم کام ہے۔ یہ سیاسی انا ہوتی ہے جو آگے دھکیلتی ہے۔
بھٹو صاحب کی مثال ہزار بار دی جاچکی ہے۔ میں نے ان سے بات اس لیے شروع نہیں کی کہ ان کی موت واضح طور پر سامنے تھی۔ وہ جانتے بوجھتے پھانسی چڑھ گئے۔ شاید ایک لمحے کو بھی انھوں نے پیچھے ہٹنے کا نہیں سوچا ہوگا۔
بھٹو صاحب ذہین آدمی تھے۔ بینظیر دانشور تھیں۔ ایسے سمجھ دار رہنما تک حالات سے مجبور ہوگئے۔ سیاسی انا کے لیے موت قبول کرلی۔
یوتھیوں کے مہاتما کے پاس عقل نام کی چیز کبھی تھی ہی نہیں۔ وہ تو مجسم انا ہے۔ اس کی انا سیاسی نہیں، ذاتی ہے۔ وہ طاقت کے مرکز کی کٹھ پتلی بنا رہا اور اب خود کو ان کا باپ سمجھ رہا ہے۔ ڈکٹیٹ کرنے والوں کو ذلیل بھی کررہا ہے اور ڈکٹیٹ بھی کروانا چاہ رہا ہے۔
کوئی سمجھ دار آدمی ہوتا تو عدم اعتماد پر باز آجاتا۔ نہیں تو آڈیو لیکس پر سنبھل جاتا۔ نہیں تو شہباز گل کو جوتے پڑنے پر مستقبل میں جھانکتا۔ نہیں تو اپنے ہمنوا صحافیوں کو چپ کرائے جانے پر ہوش کے ناخن لیتا۔ لیکن نہیں۔ یہ وہ بلیک ہول ہے جو عقل کی کہکشاں سے سات کھرب نوری سال دور ہے۔
مجھے خدشہ ہے کہ ایک بڑا قتل ہونے والا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مہاتما کی زندگی باقی رہے، کسی اور کی قربانی ہوجائے، لیکن اس قصے کا انجام اچھا نہیں لگ رہا۔
کہانی کلائمکس پر پہنچ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: