نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا کی بدولت ہیجان اور چسکے کے عادی ہوئے اذہان اہم ترین موضوعات کی بابت سوال اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے ساتھی ارشد شریف کے المناک قتل کی خبر آئی تو عمران خان صاحب نے اسلام آباد پر یلغار کی تاریخ کا اعلان کردیا۔غالباََ انہیں یہ گماں ہوا کہ مذکورہ قتل نے عوام کی وسیع تر تعداد کے دل ودماغ میں جو سوالات اٹھائے ہیں انہیں برملا بیان کرتے ہوئے ”احتجاجی تحریک“ بھرپور انداز میں چلائی جاسکتی ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ برجستہ غم و غصہ فقط چند لمحوں تک ہی برقرار رہتا ہے۔ سمندر کی تندوتیز لہریں بھی ساحل تک پہنچنے کے بعد نسبتاًاطمینان سے واپس لوٹ جاتی ہیں۔ اپنے حامیوں کے جوش وخروش کو مزید توانا بنانے کے لئے انہیں 28 اکتوبر کے دن فی الفور اسلام آباد پہنچ جانے کے ارادے کا اظہار کردینا چاہیے تھا۔انہوں نے مگر اس کے لئے آٹھ دن تک پھیلے سفر کا ٹائم ٹیبل طے کردیا۔ ان کے دئے ٹائم ٹیبل کی بدولت ”لانگ مارچ“ کی فضا نہ بن پائی جو اپنی منزل تک پہنچنے کو بے قرار اور بے چین نظر آتا ہے۔
میں ”کتنے لوگ تھے؟“ والی بحث کو ہمیشہ وقت کا زیاں سمجھتا ہوں۔عمران خان صاحب کے متعصب ترین ناقد کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ فی الوقت ہمارے عوام کے بھاری بھر کم حلقے میں وہ نہایت مقبول ہیں۔ ان کی مخالف جماعتوں میں قائد تحریک انصاف جیسی طلسماتی شخصیت موجود ہی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (نون) میں محترمہ مریم نواز ایک او ر”نڈر اور بے باک“ شخصیت ثابت ہوسکتی تھیں۔ان کی جماعت نے حکومت بناکر مگر ان کے امکانات کو گہنا دیا۔ عمران حکومت کو ہٹاکر اقتدار میں آنے کے بعد بلکہ یہ جماعت اب مہنگائی کی اذیت ناک لہر کی ذمہ دار تصور کی جارہی ہے۔
انگریزی میں ایک ترکیب استعمال ہوتی ہے جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اگر آپ اپنی قوت کو حد سے زیادہ پھیلانا شروع ہو جائیں تو وہ روٹی کی طرح پتلی ہوجاتی ہے۔میری دانست میں خا ن صاحب نے اپنے ”لانگ مارچ“ کو آٹھ دنوں تک پھیلاتے ہوئے ایسی ہی صورتحال بنائی ہے۔”احتجاجی تحریک“ کا ماحول بنانے کے بجائے تاثر یہ ابھر رہا ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچنے سے قبل جی ٹی روڈ پر واقع شہروں اور قصبوں میں محض جلسوں سے خطاب کررہے ہیں جو غروب آفتاب کے بعد ختم ہو جاتے ہیں۔ ان کے حامیوں کی خاطر خواہ تعداد ”لانگ مارچ“ کے دوران ”پڑاﺅ“ والا پیغام ہرگز نہیں دے رہی۔ عمران خان صاحب کی طرح جلسوں کے اختتام پر گھر لوٹ جاتی ہے۔
آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اگرچہ ان کی جماعت کے حقیقی نمائندہ نہیں۔ وہ اپنی ”مسلم لیگ“ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ چودھری صاحب کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے پولیس اور مقامی انتظامیہ ”لانگ مارچ“ پر ”قابو“ پانے کی کوششوں میں مصروف نظر نہیں آرہی اور ”پلس مقابلہ“ کے بغیر ”احتجاجی تحریک“ کی فضا بنائی نہیں جا سکتی۔
لانگ مارچ کے شروع ہونے سے اب تک جو ماحول بنا ہے وہ وفاقی حکومت کو یہ سہولت فراہم کررہا ہے کہ عمران خان صاحب جب کسی جلسے سے خطاب کے بعد لاہور کے زمان پارک والے آبائی گھر لوٹ جائیں تو ایسی افواہیں پھیلائے جو اس تاثر کو فروغ دیں کہ لاہور لوٹنے کے بعد عمران صاحب ”مقتدر قوتوں“ یا ان کے بھیجے قاصدوں کے ساتھ ”مذاکرات“ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ذاتی طورپر میں ان افواہوں کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ گزرے جمعرات کے روز راولپنڈی میں جو غیر معمولی پریس کانفرنس ہوئی مجھے بلکہ یہ پیغام دیتی محسوس ہوئی کہ عمران خان اور ”ان“ کے درمیان اب انگریزی محاورے والی ”سرخ لائن“ کھینچ دی گئی ہے۔ مذکورہ پریس کانفرنس کے بعد ”وہ“ اب عمران خان صاحب ہی سے ”لچک“ دکھانے میں پیش قدمی کے متقاضی ہوں گے۔ اپنا ”بھرم“ برقرار رکھنے کے لئے اگرچہ سابق وزیر اعظم کے لئے متوقع لچک دکھانا بھی ممکن نہیں رہا۔ ہمارے صوفی شاعر میاں محمد نے ”جان پھسی شکنجے اندر“ والا جو شعر لکھ رکھاہے موجودہ صورتحال میں عمران خان کو وہ ”روہ(رس)“ بنا رہا ہے جسے ہر صورت گنے سے باہر آنا ہے۔
دریں اثناء آڈیو لیک کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تازہ ترین میں عمران خان صاحب کے ایک دبنگ وفادار-علی امین گنڈاپور-بندوں اور بندوقوں کی ”تعداد“ پوچھتے سنائی دیے۔ حقیقت کچھ بھی رہی ہو تازہ ترین آڈیو لیک نے ان افواہوں کو قابل اعتبار مواد فراہم کیا ہے جو اسلام آباد میں کئی دنوں سے پھیلی ہوئی ہیں۔سرگوشیوں میں اصرار ہورہا ہے کہ مارگلہ پہاڑ کے اس پار خیبرپختونخواہ حکومت کے زیر نگین علاقوں میں انتہائی تربیت یافتہ ”کمانڈوز“ جیسے کئی لوگ” فارم ہاوئسز“ میں بھاری بھر کم اسلحے کے ساتھ پہنچادیے گئے ہیں۔عمران خان صاحب جیسے ہی راولپنڈی سے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوں گے تو مبینہ افراد لشکر کی صورت مارگلہ کی پہاڑیوں سے اترنا شروع ہو جائیں گے۔”لانگ مارچ“ کو کنٹینروں، لاٹھیوں اور آنسو گیس سے روکنے کی کوشش ہوئی تو یہ افراد ”پلس مقابلے“ کو ڈٹ جائیں گے۔یوں جو ”مقابلہ“ ہوگا وہ ”خوں خوار“ بھی ہو سکتا ہے۔
عمران خان صاحب کے کئی برسوں تک وفادار رہے فیصل واوڈا نے ”منحرف“ ہونے کے بعد مذکورہ افواہوں کو پہلی ”تصدیق“ فراہم کی۔ علی امین گنڈا پور سے منسوب آڈیو لیک نے ”خونی فساد“ کے خوف کو مزید تقویت بخشی۔ فرض کیا مذکورہ خدشے کو ”ٹھوس مواد“ فراہم کرتی چند اور لیکس بھی بازار میں آگئیں تو عاشقانِ عمران کی کماحقہ تعداد بھی اسلام آباد داخل ہونے سے پہلے سوبار سوچے گی۔
جمعہ کے روز لاہور سے چل کر عمران خان صاحب کا ”لانگ مارچ“ اتوار کی صبح یہ کالم لکھنے تک اسلام آباد میں داخل ہو چکا ہوتا تو مذکورہ افواہیں اپنا اثر کھو دیتیں۔ لوگ بلکہ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہوجاتے کہ اسلام آباد میں در آنے کے بعد عمران خان صاحب 2014ء والا دھرنا دیں گے یا پولیس اور انتظامیہ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے ”ریڈزون“ کی جانب چل پڑیں اور یوں وزیر اعظم ہاﺅس کے اردگرد ”سری لنکا“ جیسا ماحول بناتے نظر آئیں۔ مختصراََ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو دن گزر جانے کے باوجود عمران خان صاحب ابھی تک ”تخت یا تختہ“ والا ماحول نہیں بنا پائے۔ غالباََ انہیں اپنی جانب سے آٹھ دن تک پھیلائی ٹائم لائن پر ازسرنو غور کرنا ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر