نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لانگ مارچ کی تڑی اور بیک ڈور مذاکرات۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاست میں”مائنس ون“ جیسے فارمولے کارگر ثابت نہیں ہوتے۔ عمران خان صاحب کے خلاف لہٰذا گزرے جمعہ کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے سنایا فیصلہ انہیں پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے غائب نہیں کر پائے گا۔توشہ خانے سے لئے تحائف کی بنیاد پر عمران خان صاحب کی ہوئی ”نااہلی“ اتنی سنگین بھی نہیں جو مثال کے طورپر نواز شریف صاحب کا مقدر ہوئی۔ پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے نواز شریف کو اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے بعد ”تاحیات“ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل ٹھہرادیا تھا۔جو فیصلہ آیا اس کے خلاف اپیل کی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔

عمران خان صاحب ان کے برعکس تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ ہونے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق مزید ”خطرے ناک“ ہو چکے ہیں۔ ان کی جارحانہ حکمت عملی پنجاب اسمبلی کی ”لوٹوں“ سے خالی کروائی نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو حیران کن حد تک کامیاب کروانے کے کام آئی۔حال ہی میں قومی اسمبلی کی جن آٹھ نشستوں پر انتخاب ہوئے ان میں سے سات پر عمران خان صاحب بذاتِ خود امیدوار بن گئے۔فقط ایک پر ناکام رہے۔انتخابی میدان میں مضبوط تر ہونے کے علاوہ وہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ نااہلی کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں موثر دلائل کی بدولت اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بالآخر بے گناہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔قصہ مختصر آنے والے کئی دنوں تک وہ سیاسی میدان میں سرپٹ دوڑتے رہیں گے۔

ٹھوس سیاسی بنیادوں پر خود کو میسر برتری کو مگر عمران خان صاحب کماحقہ انداز میں مزید کامیابیوں کے حصول کے لئے بروئے کار لانے کو آمادہ نظر نہیں آرہے۔ریاستی اداروں پر احتجاجی سیاست کے ذریعے دباﺅ بڑھاتے ہوئے ”نیوٹرل“ کو مجبور کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے ”تحریری آئین“ میں طے شدہ ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے فوری انتخاب کے انعقاد کے لئے کلیدی کردار ادا کریں۔اسی باعث یہ فیصلہ منظر عام پر لائے ہیں کہ آئندہ جمعرات یا جمعہ کے دن وہ اسلام آباد پر ”لانگ مارچ“ کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں گے۔

ریاستی اداروں کو لانگ مارچ کی تڑی لگاتے ہوئے وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پائے کہ جمعہ کی سہ پہر جب ان کے خلاف الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہلی کا اعلان ہوا تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا ماحول بن نہیں پایا۔ اِکادکا مقامات پر ٹولیوں کی صورت ان کے حامی جمع ہوئے۔ شہروں میں معمول کی زندگی مگر رواں رہی۔ بالآخر مایوس ہوکر ان کے حامی گھروں کو لوٹ گئے۔ راولپنڈی کو اسلام آباد اور پشاور سے ملانے والے راستوں پر کچھ دیر گڑبڑ رہی۔ چند گھنٹوں بعد مگر معمول کی ٹریفک بحال ہو گئی۔

جمعہ کے دن الیکشن کمیشن کی جانب سے سنائے فیصلے کے خلاف ان کے حامیوں نے جس ردعمل کا مظاہرہ کیا اس کا منطقی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے عمران خان صاحب کو فی الوقت ”لانگ مارچ“ کی بابت حتمی تاریخ کے اعلان سے گریز کرنا چاہیے تھا۔جمعہ کے روز سنائے فیصلے کی وجوہات اب 36 صفحات پر مشتمل دستاویز کی صورت یہ کالم لکھنے تک سرکاری طورپر نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ان پر اعتبار کریں تو مذکورہ فیصلہ واضح انداز میں یہ عندیہ دے رہا ہے کہ معاملہ عمران خان صاحب کو محض موجودہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے محروم یا De-Seat کرنے پر ہی ختم نہیں ہوا۔ اس اسمبلی سے تو وہ ویسے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے قائد کی اصل مشکلات کا آغاز اس وقت ہو گا جب توشہ خانہ سے جڑی تفصیلات کی بنیاد پر الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کرتے ہوئے انہیں ”بدعنوانی‘کے الزامات کے تحت سزا دلوانے کے علاوہ آئندہ انتخاب میں حصہ لینے کے لئے بھی ”نااہل“ ٹھہرائے جانے کی کوشش کرے گا۔ عمران صاحب اس عمل کے باعث گرفتار بھی ہو سکتے ہیں۔ جس کے بعد ضمانتوں کے حصول کے لئے طویل عدالتی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔

انتہائی عجلت میں لانگ مارچ کے ذریعے ”تخت یا تختہ“ والے معرکے میں توانائی ضائع کرنے کے بجائے عمران خان صاحب کو صدر مملکت کی معاونت سے ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی بنیاد پر مقتدر قوتوں سے بیک ڈور مذاکرات جاری رکھنا ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپیل کی سماعت ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا کی توجہ عمران خان صاحب پر مرکوز رکھے گی۔اس کی بدولت وہ یہ تاثر اجاگر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کہ ان کی مخالف قوتیں یکجا ہو کر انہیں سیاسی میدان سے ”غیر سیاسی ہتھکنڈے“ اختیار کرتے ہوئے باہر رکھنا چاہ رہی ہیں۔ یہ تاثر ان کے حامیوں کو یقین دلائے گا کہ عمران خان صاحب سیاسی میدان میں ناقابل تسخیر بن چکے ہیں۔اسی باعث ان کے مخالفین دیگر حربے اختیار کرنے کو مجبور ہوئے۔

لانگ مارچ کے ذریعے تخت یا تختہ والے معرکے کی جانب بڑھتے ہوئے عمران خان صاحب اس بنیادی حقیقت کو بھی نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ پاکستا ن کی Deep State یا ”دریں دولت“ کا اصل مسئلہ ان دنوں پاکستان کی اقتصادی مشکلات ہیں۔ پاکستان یقینا دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ شہباز حکومت نے مفتاح اسماعیل کے ذریعے عوام کے لئے قطعاََ ناقابل قبول اقدامات لیتے ہوئے آئی ایم ایف کو رام کیا۔ آئی ایم ایف سے آئی رقم مگر ہماری معیشت کی بحالی کے لئے کافی نہیں ہے۔ ہمیں عالمی اداروں اور دوست ممالک سے ”مزید“ کی ضرورت ہے۔ مون سون کی ریکارڈ ساز بارشیں سندھ اور بلوچستان میں جو تباہی لائی ہیں اس نے عالمی اداروں کو ہمارے لئے فکر مند بنایا ہے۔ان کی بھرپور توجہ مگر ان مختلف النوع بحرانوں پر مرکوز ہے جو روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی بدولت پاکستان جیسے کئی ممالک میں غریب کا زندہ رہنا بھی ناممکن بنا سکتے ہیں۔ عالمی اداروں کے علاوہ ہماری ریاست کو پاکستان کے دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین سے بھی ٹھوس توقعات ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف اگلے ماہ کا آغاز ہوتے ہی وہاں جائیں گے۔ ہمارے ریاستی ادارے ہرگز نہیں چاہیں گے کہ شہباز شریف ایسے ماحول میں چین کو پاکستان میں طویل المدت اقتصادی منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کو مائل کرنے کی کوشش کریں جب ان کی اپنی حکومت ”چل چلاﺅ“ کا نشانہ ہوئی نظر  آئے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author