نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرکٹ سے میرے مرجھائے دل کو رتی بھر دلچسپی نہیں۔ بدھ کی رات سونے سے قبل ٹویٹر پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین ایک میچ تھا۔کانٹے دار مقابلے کے بعد پاکستان آخری لمحات میں لگائے چھکوں کی بدولت جیت گیا۔یہ جیت مگر افغان تماشائیوں کو ہضم نہیں ہوئی۔سٹیڈیم میں تماشائیوں کے لئے نصب نشستوں کو اکھاڑ کر وہاں موجود پاکستانیوں کی طرف اچھالنا شروع ہوگئے۔ٹویٹر پر چھائے پاکستانیوں کی ’’غیرت‘‘ افغان تماشائیوں کے رویے کی وجہ سے جوش میں آگئی۔ ’’نمک حرامی‘‘ کے طعنے کے ساتھ مطالبہ شروع ہوگیا کہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو فی الفور ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے۔اپنے ہم وطنوں کا چراغ پا ہونا مجھے حیران کرگیا۔
بارہا اس کالم میں افغانستان کے پیشہ وارانہ امور کی خاطر ہوئے مختلف سفر کے دوران درپیش آئے میں نے کئی ذاتی واقعات بیان کئے ہیں۔مقصد ان کا آپ کو احساس دلانا تھا کہ افغان عوام کی اکثریت پاکستانیوں کو ناپسند کرتی ہے۔ حقیقت جو بھی رہی ہو اس ملک کا عام شہری شدت سے یہ محسوس کرتا ہے کہ 1980کی دہائی سے پاکستان افغان جہاد اور بعدازاں کئی برسوں تک جاری رہی خانہ جنگی کی بدولت اپنا ’’سیزن‘‘ لگاتا رہا ہے۔ اپنی تباہی اور بربادی کا حقیقی ذمہ دار وہ افغان فریقین کو نہیں بلکہ پاکستان کی پالیسیوںکو ٹھہراتے ہیں۔ان کی نفرت کا ٹھوس اظہار 1996میں کابل میں قیام کے دوران میرے روبرو آیا تھا۔
طالبان ان دنوں جنوبی افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے بعد کابل کی جانب پیش قدمی کو تلے ہوئے تھے۔ایوان صدر میں تاہم برہان الدین ربانی ہی براجمان تھا۔افغانستان کے لئے نامزد پاکستانی سفیر نے اسے اسناد پیش کرنا تھی۔ اپنے ایک مرحوم ساتھی رپورٹر کے ساتھ میں بھی اس قافلے میں شامل ہوگیا جو اس غرض سے کابل جارہا تھا ۔اس شہر کے حالات بہت مخدوش تھے۔ہمیں مشورہ دیا گیا کہ کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے پاکستان کے سفارت خانے ہی میں رہا جائے۔ برطانیہ نے اپنے سامراجی عروج کے دور میں جس وسیع وعریض رقبے پر اپنا سفارت خانہ بنایا تھا وہ پاکستان کے حوالے کردیا گیا تھا۔وہاں رہائش کے لئے مختلف کمپائونڈ 1947سے قبل ہی تعمیر ہوچکے تھے۔پہاڑ کے دامن میں موجود یہ رقبہ منظم شجرکاری کی وجہ سے پھولوں کی وادی محسوس ہوتا۔
1980کی دہائی سے عام افغان کے دل میں پاکستان کے خلاف جو جذبات ابھررہے تھے ہم ان کی بابت قطعاََ غافل رہے۔ہماری غفلت ہی اس غصے کا حقیقی سبب ہے جو بدھ کے روز افغانستان اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان ہوئے میچ کے اختتام کے بعد افغان تماشائیوں کے رویے کی وجہ سے ’’اچانک‘‘ابھرتا نظر آیا۔ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے ہم یہ حقیقت بھی نظرانداز کررہے ہیں کہ یورپ میں Football Hooligansبھی ہوتے ہیں۔جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے تاریخی حریف رہے ہیں۔ ان دوممالک کی ٹیموں کے مابین فٹ بال میچ ہورہا ہو تو دونوں ٹیموں کے حامی نوجوانوں کو قابو میں رکھنے کے لئے پولیس اور امن وامان یقینی بنانے والے اداروں کو حالت جنگ کی مانند چوکس رہنا پڑتا ہے۔متحدہ عرب امارات کی ریاست بہت طاقت ور ہے۔وہاں ہنگامہ آرائی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ کرکٹ کے جنون نے مگر اب وہاں بھی اس کی راہ دکھادی ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ جدید ترین جاسوسی آلات کی مدد سے وہاں کی حکومت ہنگامہ آرائی کے مرتکب افراد کا بے رحمی سے سراغ لگائے گی۔ اس کے نتیجے میں بالآخر افغان تماشائیوں کی بھاری بھر کم تعداد کو سزائیں دینے کے علاوہ وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی ملے گا۔جذبات سے بپھرے نوجوانوں کا نصیب دِکھتی مصیبت کا ہمیں دردمندی سے احساس کرنا ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر