نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جلسوں اور سیلاب میں بٹا پاکستان || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد بنیادی طور پر ”اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ“ کی سوچ سے مفلوج ہوئے افسروں کا شہر ہے۔ حکومت کسی کی بھی ہو، ان لوگوں کی جستجو ریاست پاکستان کے دائمی اور حتمی فیصلہ ساز اداروں کی ترجیحات کا تعین کرنے پر مرکوز رہتی ہے اور گزشتہ دو دنوں سے مذکورہ افراد کی خاطر خواہ تعداد بہت پریشان نظر آ رہی ہے۔

سبب ان کی تشویش کا ہمارے ایک بہت ہی باخبر شمار ہوتے ساتھی جناب نجم سیٹھی کی جانب سے حال ہی میں اعلان کردہ پیش گوئی تھی۔ نجم صاحب کی ایک ”چڑیا“ ہے۔ انگوٹھی میں قید ”جن“ کی طرح ان کی معاونت کو ہمہ وقت متحرک رہتی ہے۔ محاورتا جن اداروں کے قریب کوئی پرندہ پھٹک بھی نہیں سکتا ان کے درپھلانگ کر اندر گھس جاتی ہے اور وہاں ہوئے فیصلوں کا بروقت پتہ چلالیتی ہے۔ اسی ”چڑیا“ پر تکیہ کرتے ہوئے نجم صاحب نے ”خبر“ دی ہے کہ عمران خان صاحب کے غضب کو ٹالنے کی خاطر ان کے طیش کی گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل زد میں آئے اداروں کے اہم لوگوں نے ان سے روابط استوار کرلئے ہیں۔ منیر نیازی کے دریافت کیے ”جمال ابروباراں“ کے موسم میں ہوئی ان ملاقاتوں کے دوران تحریک انصاف کے قائد کو یقین دلادیا گیا ہے کہ وہ جس انتخاب کا تقاضا کر رہے ہیں اگلے مارچ کی کسی تاریخ انہیں فراہم کر دیا جائے گا۔

عمران خان صاحب لہٰذا تھوڑی نرمی دکھاتے ہوئے رواں برس ختم ہو جانے کا انتظار کریں۔ اس دوران آئی ایم ایف کی جانب سے جاری ہوئی امدادی رقم کی قسط سے مثبت پیغام لیتے ہوئے چند دیگر برادر اور دوست ممالک بھی ہماری معیشت کو سہارا دینے کی راہ نکال لیں گے۔ نومبر میں اہم ترین ریاستی ادارے کی سربراہی کی بابت بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ مذکورہ کلیدی فیصلے ہو گئے تو اگلے برس کا آغاز ہوتے ہی نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ یہ انتخاب ہر صورت عمران خان صاحب کی کامل تشفی کرتے انداز میں صاف وشفاف ہوں۔ تحریک انصاف کو کامل اعتماد ہے کہ ایسا انتخاب ان کی جماعت کو دوتہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹنا یقینی بنائے گا۔ اس کے بعد ”رقص میں سارا جنگل ہو گا“ والی فضا بن جائے گی۔ پاکستان ”حقیقی آزادی“ کی جانب سرپٹ دوڑنا شروع ہو جائے گا۔

نجم صاحب کا بیان کردہ زائچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو میرے ساتھ ”شہر سنگ دل“ کے کئی سرکاری کارندوں نے رابطہ کیا۔ شوکت ترین صاحب کی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے خزانہ سے ٹیلی فون پر گفتگو لیک ہو جانے کے بعد یہ لوگ بہت محتاط ہوچکے ہیں۔ محض یہ سوال کرتے کہ نجم سیٹھی کے خیالات سنے ہیں یا نہیں۔ عرصہ ہوا عملی صحافت سے میں ریٹائر ہو چکا ہوں۔ ”اندر کی خبر“ دینے والوں تک رسائی کا حامل ویسے بھی کبھی نہیں رہا۔ بہت مشقت اورچھان پھٹک کے بعد ہی ”خبر“ نکالنا پڑتی تھی۔ اپنی غفلت کا عاجزی سے اعتراف کرنے کے علاوہ کچھ بتا نہیں سکتا تھا۔ یہ عاجزی مجھ سے رابطہ کرنے والوں کو مزید فکرمند کرتی سنائی دی۔ آپ سے کیا پردہ؟ اس ضمن میں چند افراد کی فکر مندی نے مجھے کمینگی بھری لذت بھی فراہم کی۔

میں نجم صاحب کی بیان کردہ ”خبر“ کی تصدیق یا تردید کے ہرگز قابل نہیں۔ رواں برس کے اپریل میں عمران صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے البتہ مسلسل اصرار کر رہا ہوں کہ شہباز شریف صاحب کی سربراہی میں بنائی ”کمپنی“ چلتی نظر نہیں آ رہی۔ اس کا ”دیوالیہ“ ہونا دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ شہباز صاحب بھی غالباً اس امر کی بابت اپنے طویل سیاسی تجربے کی بدولت نابلد نہیں ہوں گے۔ اسی باعث اکثر گماں ہوتا ہے کہ عمر کے آخری حصے میں صوفی منش ہو رہے ہیں۔ اپنی اور اپنے بھائی کے نام سے منسوب جماعت کی ”سیاست بچانے“ کے بجائے ملک کا دیوالیہ ہونے سے بچانے کی ٹھان رکھی ہے۔

عمران خان صاحب ان کے برعکس ایک لمحے کو بھی ”سیاست“ بھلانے کو آمادہ نہیں ہوئے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام تر پلیٹ فارموں کے موثر ترین استعمال کے بعد شہر شہر جاکر جلسوں کے ذریعے عوام سے براہ راست رابطے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پاکستان کا ایک تہائی حصہ ان دنوں سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ افراد دربدر وبے حال ہوچکے ہیں۔ خان صاحب مگر ”جلسے پہ جلسہ“ کرتے ہوئے اپنا پیغام پھیلائے جا رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شرکت ان لوگوں کو بھی غلط ثابت کر رہی ہے جو اس فکر میں مبتلا تھے کہ آفت کے ان دنوں میں خان صاحب کے منعقد کردہ جلسے انہیں سیلاب زدگان کی مصیبتوں کے تناظر میں لاپروا دکھائیں گے اور مذکورہ لاپرواہی ان کی سیاست کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔

شاید میرا یہ دعویٰ آپ کو تلخ سنائی دے۔ گزشتہ چند دنوں سے مگر میڈیا پر نگاہ ڈالتاہوں تو مجھے ایک نہیں دو پاکستان اجاگر ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ ”ایک پاکستان“ پشاور سے ملتان تک پھیلا ہوا ہے جہاں ”امپورٹڈ حکومت“ سے نجات کی تڑپ نمایاں ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے سندھ اور بلوچستان کے بیشتر اضلاع اس کے برعکس سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کی فوری مدد کی کاوشیں بھی ناکافی نظر آ رہی ہیں۔ طویل المدت بحالی تو بہت دور کی بات ہے۔

اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ کم از کم ساڑھے تین کروڑ پاکستانیوں کی مناسب دادرسی کے بغیر عمران خان صاحب کے غضب سے گھبرائے حتمی فیصلہ ساز اگلے برس کے مارچ میں انتخاب کروانے کو کیوں بے چین ہیں۔ بہت کوشش کے باوجود مذکورہ سوال کا جواب سوچ نہیں سکا۔ نہایت خلوص سے اب مذکورہ سوال آپ کی جانب اچھال رہا ہوں۔ اس درخواست کے ساتھ کہ مجھے اس کا مناسب جواب فراہم کرنے میں مدد فرمائیں۔ اپنا فرض آپ کے سپرد کرتے ہوئے یہ بھی یاد آیا ہے کہ نجم سیٹھی صاحب کے فرمودات کو شہباز شریف صاحب نہایت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ عمران صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز جن دنوں نواز شریف صاحب منظور کرنے سے ہچکچارہے تھے تو شہباز صاحب اس ضمن میں نجم صاحب کی مدد کے طلب گار بھی رہے۔ نجم صاحب کی چڑیا اگر مارچ میں انتخاب کی ”خبر“ لے آئی ہے تو شہباز صاحب فوری استعفیٰ کا اعلان کیوں نہیں کردیتے تاکہ صاف ستھرے اور ہونہار ٹیکنوکریٹس کی حکومت ملک کو دیوالیہ سے بچانے کو یقینی بناتے مزید ”مشکل“ فیصلے اٹھالے اور نیا سال چڑھتے ہی نئے انتخاب کی بدولت عمران خان صاحب بھاری اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ کر ہمیں ”حقیقی آزادی“ سے ہمکنار کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author