نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یہ کالم عید کے روز پڑھ رہے ہوں گے۔ رسم دنیا کا تقاضا تھا کہ میں اس تہوار سے جڑی چند یادوں کو آپ کی نذر کرتا۔ لاہور کے سرکلر روڈ پر واقع شاہ محمد غوث کے مزار کے سامنے لگائے میلے کا ذکر۔ لوہے کی زنجیر سے باندھے لکڑی کے گھوڑے اور ان پر بیٹھ کر دائرے میں لیا ’جھولا‘ جو دل کو خوف زدہ کرتے ہوئے بھی قہقہے لگانے کو اکساتا تھا۔ معاشرہ ہمارا گزشتہ دس سے زیادہ برسوں کے دوران بہت تیزی سے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔ چاند رات کو ہماری بچیاں بڑے چائو سے گوندھی مہندی ہاتھوں پر لگایا کرتی تھیں۔ ہاتھ پر چوڑیاں چڑھانے کے لئے بازار بھی جانا ہوتا تھا۔ عمران خان صاحب نے مگر اپنے نوجوان مداحین کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ اب کی بار آئی رات کو اپنے گھروں سے تحریک انصاف کے پرچم لے کر باہر نکلیں۔ دنیا کو دکھلا دیں کہ پاکستان سامراج کی مسلط کردہ ’امپورٹڈ حکومت‘ کو ٹکنے نہیں دے گا۔ ایسا ’انقلابی‘ حربہ گزشتہ صدی کی دہائی کے ابتدائی عشروں میں ’تحریک خلافت‘ برپا کرنے والے حریت پسندوں کے ذہن میں بھی نہیں آیا تھا۔ احتجاج کی نت نئی تراکیب سوچنے والے کل وقتی انقلابی دنیا بھر میں مذہبی تہوار کی روایات کا احترام کرتے ہوئے ’چھٹی‘ پر چلے جاتے ہیں۔ روایتی اقدار وروایات کو مگر تحریک انصاف ’نظامِ کہنہ‘ کا حصہ تصور کرتی ہے۔ ہمہ وقت ’نئی آن – نئی شان‘ دکھانے کو بے چین۔ عید گزرجانے کے بعد تیاری یہ بھی ہے کہ مئی کے آخری ہفتے میں ملک بھر سے کم از کم 20 لاکھ افراد اسلام آباد کے سفر پر روانہ ہوجائیں۔ اس شہر پہنچ کر ایک بار پھر ’دھرنا‘ دیا جائے۔ یہ ’امپورٹڈ حکومت‘ کے خاتمے تک جاری رہے۔ نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہو تاکہ تحریک انصاف اقتدار میں واپس لوٹ آئے۔
سیاسی تحاریک کا ایک متحرک کارکن رہنے کے بعد 1975ء سے ان کا بطور صحافی مشاہدہ کرتے ہوئے میں اگرچہ ابھی تک یہ سمجھ نہیں پایا ہوں کہ عمران خان صاحب محض قومی اسمبلی کے فوری انتخاب ہی کیوں چاہ رہے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی بھی تشکیل نو کیوں نہیں چاہ رہے۔ وہ یہ چاہ رہے ہوتے تو خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اپنے صوبے کی اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے ’بحران‘ کو سنگین تر بنا سکتے تھے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی سے بھی ان کی جماعت کے اراکین ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے۔ گزشتہ ہفتے لاہور ہائی کورٹ کے تیسرے حکم نے بالآخر حمزہ شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب حلف برادری یقینی بنا دی۔ اس ضمن میں جو تقریب ہونا تھی وہ گورنر ہائوس میں منعقد ہوئی۔ یہ ہائوس اگرچہ یہ کالم لکھنے تک تحریک انصاف کے ’قبضے‘ میں ہے۔ اس جماعت کے لگائے گورنر عمر چیمہ مگر ’ہارے ہوئے لشکر‘ میں تنہا ہی بڑھکیں لگاتے نظر آرہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن اگر حمزہ کی حلف برادری کے روز گورنر ہائوس کے احاطے میں جمع ہوجاتے تو کم از کم اس مقام پر جانے سے قبل قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف دائمی ’جیالے‘ ہوتے ہوئے بھی سو بار سوچتے۔
عمران خان صاحب کے ڈاہڈے اور چہیتے مصاحب جناب فواد چودھری کو شاید یاد نہیں رہا کہ ان کے مرحوم تایا چودھری الطاف حسین 1993ء میں گورنر پنجاب تھے۔ اس برس غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کرپشن کے الزامات لگاکر برطرف کردی تھی۔ چودھری صاحب نے پنجاب میں وٹو حکومت کے خلاف ویسا ہی رویہ اختیار کیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعت کے بعد تاریخی فیصلہ لکھتے ہوئے نواز حکومت اور قومی اسمبلی بحال کر دی۔ ہائی کورٹ نے بعد ازاں وٹو حکومت کی بابت ایسا ہی فیصلہ سنایا۔ غلام اسحاق خان سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دل گرفتہ ہوگئے۔ چودھری الطاف مرحوم نے مگر اپنے ’اختیارات‘ استعمال کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی ایک بار پھر توڑ دی۔ ایسا کرتے ہوئے نہایت استقامت سے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ عدلیہ کے ہاتھوں بحال ہوئی پنجاب اسمبلی کو اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مسلسل ’توڑتے‘ رہیں گے۔
چودھری الطاف حسین کو ’لگام‘ ڈالنے کے لیے نواز شریف کی بحال ہوئی حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا۔ تندوتیز اور طویل مباحثے کے بعد بالآخر ایک قرار داد منظور کروائی۔ اس قرارداد نے ان دنوں عمران خان کے وفادار ہوئے حماد اظہر کے والد کو گورنر ہائوس الطاف حسین مرحوم کے قبضے سے چھڑانے کا اختیار دیا۔ میاں اظہر مگر گورنر ہائوس داخل ہی نہ ہو پائے۔ اس ہائوس کے ’تحفظ‘ کے ارادے سے پیپلز پارٹی کے سینکڑوں کارکن وہاں ڈیرہ جماچکے تھے۔ گوجرہ کے ایک جی دار الیاس جٹ مرحوم کے درجنوں وفادار بھی ہر نوع کے ’پلس مقابلے‘ کے لیے وہاں جمع ہو گئے۔
حمزہ شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ حلف برادری کی تقریب ٹالنے کے لیے تحریک انصا ف کے سینکڑوں کارکن بھی گورنر ہائوس میں 1993ء جیسا مورچہ لگا سکتے تھے۔ فواد چودھری اور حماد اظہر کو غالباً اپنے بزرگوں کی تاریخ مگر یاد نہ رہی۔ اپنے قائد کو بروقت مشورہ نہ دے پائے۔ ’ویلے دی نماز‘ ادا نہ ہوپائی۔ عمران خان صاحب ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ جن قوتوں کو وہ ان دنوں حقارت سے ’میر جعفر‘ وغیرہ پکاررہے ہیں وہ آئندہ مالی سال کا بجٹ شہباز حکومت ہی سے تیار کروانا اور موجودہ قومی اسمبلی سے منظور کروانا چاہ رہی ہیں۔ اسی باعث وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی مفتاح اسماعیل واشنگٹن روانہ ہوگئے۔ آئی ایم ایف کو مزید امداد کے لیے قائل کر دیا۔ اس کے بعد وزیر اعظم ہمارے دیرینہ مربی سعودی عرب تشریف لے گئے۔ اب دورہ چین کی تیاری ہورہی ہے۔ شہباز حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار اور منظور کروانے میں ناکام رہی تو پاکستان سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ وہ جنہیں ’مقتدر‘ حلقے یا قوتیں کہا جاتا ہے ایٹمی قوت کے حامل ملک کے ’دیوالیہ‘ ہونے کا تاثر بھی برداشت نہیں کرسکتیں۔ ’امپورٹڈحکومت‘ کو اسی باعث کم از کم رواں برس کے جولائی کے آغاز تک تو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد فوری انتخاب کروانے کو شہباز حکومت رضا مند نہیں ہوگی۔
’دکھ جھیلیں بی فاختہ۔ ۔ ۔ ‘ والی دہائی مچانا شروع ہوجائے گی۔ یہ دہائی اسے چند مہینوں تک مہلت یقینا فراہم کرے گی۔ اس کے دوران نومبر جی ہاں نومبر2022ء آئے گا اور گزر جائے گا۔ یہ مہینہ گزرگیا تو عمران خان صاحب جس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے فوری انتخابات کو بضد ہیں وہ حاصل نہیں ہو پائے گا۔ آزادیِ اظہار کے رواں موسم میں مذکورہ اشاروں کنایوں کے سوا اور کچھ لکھنے کی ہمت نہیں۔ وقت ملے تو انہیں ڈی کوڈ کر لیں اور میری جانب سے عید مبارک وصول کرتے ہوئے مجھے دو دن کی چھٹی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر