نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست 2018ء میں عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فقط دو ماہ بعد مجھے نوکری سے فارغ کردیا گیا تھا۔میری صحافتی زندگی کی تین دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ تھا جب ایسی فراغت کی ذلت دیکھنا پڑی۔اس سے قبل جن اداروں سے وابستہ رہا وہاں سے ہمیشہ ازخود ہی مستعفی ہوا تھا۔میری فراغت نے ٹی وی صحافت سے وابستہ دیگر اداروں کو بھی مجھے ’’ناپسندیدہ‘‘ شمار کرنے کو مجبور کردیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے مگر نہایت جی داری اور استقامت سے یہ کالم جاری رکھا۔اسے لکھتے ہوئے تاہم نامعلوم کا خوف ہمیشہ ذہن کوجکڑے رکھتا۔معاشی اور پیشہ وارانہ مشکلات کے تین سے زیادہ برسوں کے دوران میری بیوی اور بیٹیاں بھی فراخ دلی سے میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔چند دوستوں نے بھائیوں سے بڑھ کر ساتھ دیا۔
عمران خان صاحب کے اقتدار کے دوران جن مشکلات کا مستقل سامنا رہا انہیں ذہن میں رکھوں تو مجھے ان کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں فراغت کی بابت جشن مناتا کالم لکھنا چاہیے تھا۔ میں لیکن واقعتا اداس ہوں۔
اپنے خلاف قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو عمران خان صاحب نے جس ڈھٹائی سے ناکام بنانا چاہا وہ ہمیں اکتوبر1999ء کی جانب دھکیلنے ہی والا تھا ۔’’سسٹم‘‘ تو ’’بچ‘‘ گیا ہے مگر تحریک عدم اعتماد کو عمران خان صاحب جس انداز میں غچہ دینے کی کوشش کرتے رہے اس نے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی قوم کو مزید منقسم کردیا ہے۔ فریقین کے مابین ایسی خلیج پیدا ہوچکی ہے جسے پرخلوص تدبر اور دردمندی سے مٹانے کی کوشش نہ ہوئی تو ہم بتدریج خانہ جنگی کی جانب بڑھنا شروع ہوجائیں گے۔ابتری اور خلفشار سنگین تر ہوئے تو میرے منہ میں خاک پاکستان شام اور یمن کی بے بس رعایا کی طرح دربدری اور مایوسی کی پاتال میں گرجائے گا۔
کئی بار اس کالم میں دہراتا رہا ہوں کہ ہمارا آئین ’’تحریری‘‘ ہے ۔اس وضع کا آئین ریاستی اور حکومتی بندوبست کو قواعد وضوابط کا پابند بنائے رکھتا ہے۔ عوام کی براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی اپنے ہی کسی رکن کو وزیر اعظم منتخب کرتی ہے۔قومی اسمبلی اگر اس کی کارکردگی اور رویے سے مایوس ہوجائے تو اسے وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا حق واختیار بھی میسر ہے۔ عمران خان صاحب مذکورہ حقیقت کی مبادیات بخوبی جان کر ان کے مطابق عمل کرنے میں ناکام رہے۔
قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے کئی روز بعد انہوں نے یہ داستان تراشنا شروع کردی کہ خود کو دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتا امریکہ ان کی ’’خودارپالیسیوں‘‘ سے چراغ پا ہوگیا ہے۔ اس نے باہمی اختلافات میں بٹی اپوزیشن جماعتوں کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو اُکسایا اور اسے کامیاب بنانے کے لئے ہر نوعیت کی ’’کمک‘‘ بھی فراہم کی۔اچانک گھڑی اس داستان نے قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کو بالآخر یہ جواز فراہم کیا کہ وہ ’’ملکی سا لمیت‘‘کا تحفظ یقینی بنانے والے آئین کے آرٹیکل 5کا سہارا لیتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک اعتماد کو ’’مسترد‘‘ کردیں۔اپنا فیصلہ سنانے سے قبل قاسم سوری نے مگر 3اپریل کے روز اپوزیشن کو اپنے مؤقف کی حمایت میں ایک دلیل پیش کرنے کا موقع بھی نہ دیا۔تحریک عدم اعتماد ڈپٹی سپیکر کے عاجلانہ فیصلے سے ردکروانے کے بعد وزیر اعظم نے صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش بھجوادی۔صدر مملکت نے اسے فی الفور منظور کرلیا۔
جس دیدہ دلیری سے تحریک عدم اعتماد مسترد کروانے کے بعد نئے انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی اس نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ کو ازخود نوٹس لینے کو مجبور کردیا۔ حکومتی وکلاء سپریم کورٹ کے روبرو ٹھوس آئینی اور قانونی جواز فراہم کرنے میں ناکام رہے۔بالآخرگزرے جمعرات کی شام سپریم کورٹ کے پانچ-رکنی بنچ نے 3اپریل کو اٹھائے اقدام غیر آئینی ٹھہرادئیے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کو واضح الفاظ میں ہدایت دی گئی کہ وہ ہفتے کی صبح ایوان کا اجلاس طلب کریں اور تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے عمل کو مکمل کریں۔
اندھی نفرت وعقید ت میں بٹے معاشروں میں عدالتی فیصلے بھی تمام فریقین خوش دلی سے قبول نہیں کرتے۔ عمران خان صاحب اور ان کی جماعت جمعرات کی شام آئے فیصلے کی بابت اپنی مایوسی کو غصے میں بدلنے میں مصروف رہی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے مگر ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔
عمران خان صاحب کرکٹ سے سیاست میں آئے تھے۔ اس کھیل کو برطانوی اشرافیہ کی بردباری اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔کرکٹ سے کئی برس قبل ریٹائر ہوجانے کے باوجود عمران خان صاحب خود کو اب بھی ’’کپتان‘‘ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ’’آخری گیند‘‘ تک میدان میں ڈٹے رہنے کا عہد بھی دہراتے رہے۔ ان کے دعوے کو ذہن میں رکھتے ہوئے لازمی تھا کہ وہ ہفتے کی صبح قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی وہاں پہنچ کر وزیر اعظم کے لئے مختص نشست سنبھال لیتے۔تحریک عدم اعتماد کا ’’تجزیہ‘‘ مؤثر ترین دلائل کیساتھ پیش کرنے کے بعد کھلے دل سے سپیکر اسد قیصر کو دعوت دیتے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ تحریک پر گنتی کا عمل مکمل کروائے۔
پارلیمانی نظام میں سیاست دانوں کی اصل ’’پچ‘‘ یا اکھاڑہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے والا ایوان ہی ہوتا ہے۔عمران خان صاحب مگر وہاں تشریف ہی نہ لائے۔ وزیر اعظم کے دفتر بیٹھے ہی اپنے مہرے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے آگے بڑھاتے اور ہٹواتے رہے۔دریں اثناء ان کے قریب ترین وزراء کا ایک وفد اپوزیشن رہ نمائوں سے مسلسل رابطے میں رہا۔ انہیں واضح الفاظ میں پیغام دیا گیا کہ عمران خان صاحب اپنی جگہ شہباز شریف جیسے ’’چور اور لٹیرے‘‘ کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوا نہیں دیکھ سکتے۔اپوزیشن واقعتا ’’سسٹم‘‘ کو بچانا چاہ رہی ہے تو شہباز شریف کی جگہ وزیر اعظم کے منصب کے لئے کسی اور شخص کو نامزد کردے۔ چند وزراء نے مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ پیغام بھی دیا کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے آگے جھکنے کے بجائے و ہ اقتدار عسکری اداروں کے حوالے کرنے کو ترجیح دیں گے۔
قومی اسمبلی کے ہفتے کے دوران ہوئے اجلاس کے درمیان لئے طویل وقفے واضح انداز میں پیغام دیتے رہے کہ عمران خان صاحب اسد قیصر کو تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے نہیں دیں گے۔اس مؤقف پر ضدی بچوں کی طرح ڈٹے ہوئے ایک لمحے کو انہوں نے یہ سوچنا بھی گوارہ نہ کیا کہ سپریم کورٹ کے دئے واضح احکامات کی عدم پذیرائی ان کی ذات اور کئی برسوں سے وفادار ساتھیوں کے لئے کیسی مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی کے وقفوں کے دوران کچھ ایسے اقدامات بھی لینا چاہے جن کا ذکر میں فی الوقت مناسب محسوس نہیں کرتا۔
یہ جان لینے کے بعد کہ عمران خان اسد قیصر کو تحریک عدم اعتماد پر گنتی نہیں کروانے دیں گے۔ ہماری ریاست کے دائمی ادارے ہفتے کی شام خاموش مہارت سے متحرک ہوگئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے شام ڈھلتے ہی اپنے دروازے کھولنے کے احکامات صادر کردئیے۔ عمران خان صاحب جو اپنے مخالفین کو ’’سرپرائز‘‘ دینے کو تلے بیٹھے تھے یہ جان کر ہکا بکا رہ گئے کہ وزیر اعظم سے مختص اختیارات تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے بغیر بھی اب ان کے ہاتھ نہیں رہے۔ہماری حالیہ تاریخ میں پانامہ پیپرز منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی عمل 2018ء کے اپریل سے شروع ہوگیا تھا۔’’ہونی‘‘ کو مگر بہت دیر تک سابق وزیر اعظم نے ٹالے رکھا۔سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی نااہلی کے باوجود شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ کے لئے منتخب کروایا اور 2013ء میں قائم ہوئی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کو یقینی بنایا۔ عمران خان صاحب مگر چند گھنٹوں کے دبائو کے بعد ہی ’’ڈھیر‘‘ ہوگئے۔اپنی محدودات جان لینے کے باوجود انہوں نے اسد قیصر کو تحریک عدم اعتماد پر گنتی نہیں کروانے دی۔ان سے ’’قربانی‘‘ کے طلب گار ہوئے۔ اسد قیصر نے وفاداری بشرط استواری نبھائی اور بالآخر سپریم کورٹ کے احکامات کے عین مطابق ایاز صادق نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پرگنتی کروائی اور عمران خان صاحب ہمارے وزیر اعظم نہ رہے۔
اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ہماری قوم مگر کئی گھنٹوں تک خود کو کامل خلفشا رکی زد میں آئی محسوس کرتی رہی۔ عمران خان صاحب کو یقینا گماں ہوگا کہ مذکورہ خلفشار نے ان کی ’’ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان‘‘ والی شہرت کو مزید اجاگر کیا ہے۔قومی اسمبلی سے کہیں دور بیٹھ کر تاہم وہ جس انداز میں مہرے بڑھاتے اور پٹواتے رہے اس نے درحقیقت پیغام یہ دیا ہے کہ وہ ہر صورت وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہنا چاہتے تھے اور اپنی ضد نبھانے کے لئے پورے نظام کو خودکش بمبار کی طرح تباہ کرنے کو بھی ڈٹے ہوئے تھے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر