نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کے دن عمران خان صاحب کی تقریر کا اشتیاق کی جس شدت سے انتظار تھا اس کا اندازہ آپ میرے ذاتی رویے سے بھی لگاسکتے ہیں۔عرصہ ہوا ٹیلی وژن دیکھنا میں نے چھوڑ رکھا ہے۔اتوار کی شام ڈھلتے ہی لیکن نہادھوکر بظاہر کسی تقریب میں جانے کی خاطر ریموٹ کا بٹن دباکر اپنے کمرے میں رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔بالآخر سات بجنے میں پانچ منٹ کے قریب خان صاحب نے ڈائس سنبھالا اور دو گھنٹوں تک بولتے ہی چلے گئے۔
مجھے گماں ہے کہ عوام کی بے پناہ اکثریت خواہ وہ تحریک انصاف کی خیرخواہ نہ بھی ہومذکورہ تقریر کا بے تابی سے انتظار کررہی ہوگی۔ان کی طلب بھڑکانے کے لئے افواہیں یہ بھی پھیلائی گئیں کہ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے ریاست کے اہم ترین عہدے کی بابت کوئی ’’ڈرامائی اعلان‘‘ نہ بھی کیا تب بھی وہ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے بقیہ اراکین سمیت مستعفی ہونے کا اعلان کرسکتے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختون اسمبلی تحلیل کرنے کی افواہیں بھی گردش میں رہیں۔مذکورہ افواہوں کی وجہ سے توانا تر ہوئے تجسس نے ویسی ہی فضا بنادی جو کسی فلم کی نمائش سے قبل شائقین کے دل ودماغ کو موہ لیتی ہے۔جو تجسس ابھارا گیا اس کے تناظر میں اگرچہ عمران خان صاحب کی ضرورت سے زیادہ طویل تقریر کا جائزہ لیں تو وہ ’’ڈبہ‘‘ ثابت ہوئی۔
عمران خان صاحب کو آپ پسند کریں یا نہیں۔یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ ہمارے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد ان کی جنونی حد تک گرویدہ ہے۔ان کی بتائی ہر بات کو مبنی برحق تصور کیا جاتا ہے۔اس تناظر میں مجھے ان کی زبان سے یہ دعویٰ سن کر واقعتا دُکھ ہوا کہ ان کی جانب سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت سنبھالنے سے قبل ہمارے کھلاڑی ’’گوروں‘‘ کے خلاف کھیلتے ہوئے گھبرائے رہتے تھے ۔ میں کرکٹ کی تاریخ سے قطعاََ نابلد ہوں۔مجھ جیسے بے خبر شخص کو بھی تاہم یاد ہے کہ میرے بچپن میں لاہور کی گلیوں میں فضل محمود کے بہت چرچے تھے۔انگلینڈ کے اوول سٹیڈیم میں ایک میچ ہوا تھا۔ کاردار ہماری ٹیم کے کپتان تھے اور فضل محمود نے مخالف ٹیم کی وکٹوں کو بے رحمی سے اُڑاتے ہوئے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا تھا۔اپنی ’’عظمت‘‘ کا احساس دلانے کے لئے عمران خان صاحب کا کار دار اور فضل محمود کی بنائی تاریخ کو رعونت سے بھلادینا غیر مناسب تھا۔
کرکٹ سے قطع نظر میری دانست میں عمران صاحب اتوار کے روز ہوئی تقریر کے ذریعے خود کو دورِ حاضر کا ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کی کوششوں میں بھی مبتلا نظر آئے۔ یوں کرتے ہوئے مگر انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ بھٹو نے محض ایک ’’دھمکی بھرے خط‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کو نہیں للکارا تھا۔ 1967ء میں ایوب حکومت سے مستعفی ہونے کے بعد انہوں نے Myth of Independenceکے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس کے ذریعے ثابت کرنا چاہا کہ پاکستان جیسے ممالک کی آزادی ’’بے وقار‘‘ ہے۔عالمی سامراج نے انہیں سیٹو اور سینٹو جیسے ’’اتحادوں‘‘ میں جکڑرکھا ہے۔یہ کتاب لکھنے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی نامی جماعت بنائی۔ اس نے پاکستان کے لئے خودمختار خارجہ پالیسی تیار کرنے کا عزم کیا۔اقتدار میں آنے سے کئی ماہ قبل وہ عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتے رہے کہ ان دنوں پاکستان میں امریکہ کے تعینات سفیر فارلینڈ کو ملک بدر کردیا جائے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ امریکہ نے انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنو کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش میں بھرپور حصہ لیا تھا اور سوئیکارنوبھٹو صاحب کے ذاتی دوست ہی نہیں پاکستان کے بھی دیرینہ خیرخواہ رہے تھے۔
پاکستان دولخت ہوجانے کے بعد بھٹو پاکستان کے حکمران ہوئے تو 1973ء میں عرب-اسرائیل جنگ چھڑگئی۔بھٹو حکومت نے پاکستان کے انتہائی تجربہ کار پائلٹوں کو شام روانہ کردیا تانکہ وہ اسرائیل کی فضائی جارحیت کو ناکارہ بناسکیں۔شام کے عوام آج تک پاکستان کا وہ کردار نہیں بھولے ہیں۔عرب-اسرائیل جنگ کے دوران امریکہ نے جس انداز میں اپنے روایتی حلیف کا کھل کر ساتھ دیا بھٹو صاحب نے اس کا توڑ مہیا کرنے کے لئے اسلامی ممالک کو متحد کرنے کی ٹھان لی۔تیل پیدا کرنے والے اسلامی ممالک کو اس کی قیمت بڑھانے کو بھی آمادہ کیا۔ بعدازاں لاہور میں فروری 1974ء کے دوران مسلم ممالک کے سربراہان کا تاریخی اجلاس بھی منعقد کروایا۔
1974ء ہی میں بھارت نے پاکستان کو سقوط ڈھاکہ سے دو چار کرنے کے بعد ایٹمی دھماکہ کردیا تھا۔بھٹو اس سے خوفزدہ نہ ہوئے اور پاکستان کو بھی ہر صورت ایٹمی قوت بنانے کا تہیہ کرلیا۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ان کی لگن نے امریکہ کے مشہور دانشور اور نکسن حکومت میں اہم پالیسی ساز عہدوں پر فائز رہے ڈاکٹر ہنری کسنجر کو پاکستان کے ہنگامی دورے پر مجبور کیا۔ اس کے دوران بھٹو صاحب کو پیغام دیا گیا کہ اگر انہوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام جاری رکھا تو انہیں ’’عبرت کا نشان‘‘ بنادیا جائے گا۔
بھٹو باز نہیں آئے تو 1977ء میں ان کے خلاف نوستاروں والی تحریک شروع ہوگئی۔ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کو برملا اس تحریک کی معاونت کا ذمہ دار ٹھہراتے ر ہے۔اپنی بات ثابت کرنے کو بارہا یاد دلاتے کہ ہمارے کرنسی بازار میں امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی روپے کے مقابلے میں مسلسل کم ہورہی ہے۔1977ء کی بھٹو مخالف تحریک کے دوران ’’پہیہ جام‘‘ ہڑتالیں بھی ہوئی تھیں۔ بھٹو صاحب عوامی اجتماعات میں یاد دلاتے رہے کہ ’’پہیہ جام‘‘ نامی بلاسب سے قبل چلی نامی ملک میں متعارف ہوئی تھی۔ لاطینی امریکہ کا آلنڈے امریکہ کو پسند نہیں تھا۔اس کی حکومت کو مفلوج کرنے کے لئے سی آئی اے نے کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ ’’پہیہ جام‘‘ اس ضمن میں اس کا اہم ترین ہتھیار تھا۔بھٹو صاحب کے امریکہ اور مغرب کے ساتھ اختلافات کی تفصیل بتانے کے لئے مگر کالم نہیں کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔
آج کے کالم میں فقط یہ عرض کرنے تک محدود رہوں گا کہ عمران صاحب کو امریکہ اور مغرب نے ابھی تک بھٹو صاحب کی طرح مستقل پریشان نہیں رکھا ہے۔آج سے تین سال قبل بلکہ ٹرمپ انتظامیہ نے بہت چائو سے انہیں امریکہ مدعو کیا تھا۔وائٹ ہائوس میں ان کے ہمراہ بیٹھے ٹرمپ نے ازخود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔عمران خان صاحب امریکہ میں اپنے ساتھ برتے سلوک سے اتنے خوش ہوئے کہ وطن لوٹتے ہی اعلان کردیا کہ انہیں ورلڈ کپ جیتنے جیسی شادمانی محسوس ہورہی ہے۔
خارجہ امور کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں اصرار کرتا ہوں کہ ’’دھمکیاں‘‘ باقاعدہ خط کے ذریعے تحریری صورت میں نہیں لکھی جاتیں۔ فرض کیاامریکہ یا اس کے اتحادیوں سے ایسی حماقت سرزد ہوہی گئی تھی تو ہمارے وزیر خارجہ دھمکی لکھنے والے ملک کے پاکستان میں تعین سفیر کو اپنے دفترطلب کرتے۔ مذکورہ یا مبینہ خط کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کا اظہار کرتے۔ اس احتجاج کو تحریری صورت بھی دی جاسکتی تھی جسے سفارتی زبان میں D’Marcheکہا جاتا ہے۔’’دھمکی‘‘ والے خط کو عوامی اجتماع میں اس کی تفصیل بیان کئے بغیر دکھانے کی قطعاََ ضرورت نہیں تھی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر