نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے قارئین کی اکثریت بخوبی جانتی ہے کہ ہماری ٹی وی سکرینوں پر ’’ذہن سازی‘‘ کے لئے چند ’’جگا‘‘ صحافی بھی مسلط کئے گئے ہیں۔اپنی نام نہاد حق گوئی سے وہ 2008کے برس سے حکومتیں بناتے اور انہیں گھر بھیجتے نظر آتے رہے۔ناظرین کی بے تحاشہ تعداد مگر اب جان چکی ہے کہ ان ’’جگوں‘‘ کی ’’بے باکی‘‘ طاقت ور حلقوں کی محتاج ہے۔ وہ ’’تھانے دار‘‘ کی معاونت کے بغیر کسی علاقے میں گھس کر ’’سنسنی خیز واردات‘‘ کی جرأت نہیں دکھاسکتے۔
ایسے ’’جگا‘‘ صحافیوں نے جن کی نمایاں تعداد 2011سے ’’جب آئے گا عمران…‘‘ والا ماحول بنانے میں بھی مصروف رہی گزشتہ برس کے اکتوبر سے حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ڈھنڈوراپیٹنا شروع کردیا۔’’شیر آیا -شیر آیا‘‘ کا واویلا بالآخر رواں مہینے کے آغاز میں عملی صورت اختیار کرتا نظر آیا۔اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم ا عتماد جمع کروادی۔
یہ تحریک اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اپنے تئیں قوم کی رہ نمائی کو مامور ’’صحافی‘‘ تاہم حکومت اور اس کے مخالفین کو ’’معقولیت‘‘ کی راہ اختیار کرنے کے مشورے دینا شروع ہوگئے۔ فریقین کو نہایت درد مندی سے سمجھارہے ہیں کہ وطن عزیز محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر یہی ہوگا کہ سڑکوں پر ایک دوسرے کی سرپھٹول کے بجائے یہ فریقین مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر کوئی سمجھوتہ کرلیں۔فریقین نے ان کے حکیمانہ مشوروں پر کان نہ دھرے تو دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ معاملات شدید سے شدید تر تنائو کی صورت اختیار کرگئے تو اب تک ’’نیوٹرل‘‘ رہی قوتوں کو متحرک ہونا پڑے گا۔ان کے متحرک ہوجانے کے بعد نمودار ہوئے مصالحتی فارمولوں پر عمل نہ ہوا تو ’’سسٹم‘‘ خطرے میں پڑجائے گا۔ میں اگرچہ آج تک سمجھ نہیں پایا کہ جس ’’سسٹم‘‘ کو بچانے کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں اس نے میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کس نوع کا ’’اختیار‘‘ فراہم کررکھا ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات کے ہاتھوں بے بس ہوئے ہم ذلتوں کے مارے عوام کامبینہ ’’سسٹم‘‘ میں کیا اور کتنا حصہ ہے۔ ہم اسے بچانے کی فکر میں مبتلا کیوں ہوں۔
اگست 2018سے گزشتہ برس کے اکتوبر تک میڈیا کی محدودات عام آدمی نے بخوبی جان لی ہیں۔عمران حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے صحافتی اداروں کو معاشی دبائو کی چھری تلے رکھ کر فقط وہ دکھانے اور شائع کرنے کو مجبور کیا گیا جو ’’سب اچھا‘‘ کی خبردے۔یہ فریضہ سرانجام دینے کے ناقابل صحافی ویسے بھی ’’لفافے‘‘ قرار دے کر پہلے ہی معتوب ٹھہرادئیے گئے تھے۔عمران خان صاحب کا ’’نیا پاکستان‘‘ وجود میں آنے کے بعد وہ صحافتی اداروں پر ’’مالی بوجھ‘‘ بھی بن گئے۔ان دنوں ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘ والی گمنامی اور بے اثری کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔
1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔
میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔
ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔
تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔
اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔
سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔
ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر