نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد|| نصرت جاوید

شہباز صاحب کے گھر جانے سے انکار کے باوجود پرویز الٰہی صاحب کے فرزند اور سیاسی وارث چودھری مونس الٰہی نہایت خلوص سے خواہش مند تھے کہ کراچی سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی صورت بڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری جب گجرات پہنچیں تو ان کے آبائی گھر ”چائے پانی“ کے لئے رکیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی دنوں سے اس کالم میں اصرار کیے چلا جا رہا ہوں کہ وزیر اعظم خواہ کتنا ہی کمزور اور غیر مقبول کیوں نہ ہو جائے اسے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا جوئے شیر لانے والی مشقت کا تقاضا کرتا ہے۔ عمران خان صاحب کو یقیناً موجودہ پارلیمان میں اپنے تئیں بھاری بھر کم اکثریت میسر نہیں۔ اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے نام نہاد ”اتحادی“ جماعتوں کے محتاج ہیں۔ ان جماعتوں کو ”اشارہ“ نہ ملا تو وہ عمران خان صاحب کی حمایت یا مخالفت میں اپنا ووٹ ڈالنے سے قبل متعلقہ فریقین سے سخت گیر بھاؤ تاؤ کریں گے۔

تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دن اپنے بندے جمع کر کے انہیں قومی اسمبلی تک لانا ویسے بھی اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مذکورہ گنتی سے چند روز قبل وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات ڈھٹائی سے استعمال کرتے ہوئے 25 سے 30 اراکین قومی اسمبلی کو جھوٹے سچے مقدمات میں گرفتار کر لیں تو وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک بآسانی ناکام بنائی جا سکتی ہے۔ اپوزیشن کے لئے اپنے نمبر یکجا رکھنے والے عمل کو ایک بار میں نے مینڈکوں کو ترازو کے پلڑے میں جمع کرنے کے مترادف ٹھہرایا تھا۔ یہ لکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے اپوزیشن رہ نماؤں کی آنیاں جانیاں ہمارے سیاسی منظر نامے پر ”گھڑمس“ برپاکر سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے سیاستدان اجتماعی شرمندگی اور پریشانی سے دو چار ہوسکتے ہیں۔

جس ”گھڑمس“ کا مجھے خدشہ تھا پیر کے دن اس کا آغاز ہو گیا۔ عمران خان صاحب کے ایک دیرینہ وفادار اور شاہ خرچ تصور ہوتے علیم خان صاحب جہانگیر ترین کی چھتری تلے جمع ہوئے تحریک انصاف کے ناراض اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے ملنے چلے گئے۔ انہیں رام کرنے کو گورنر سندھ فی الفور لاہور پہنچے۔ عمران اسماعیل کا علیم خان صاحب سے کیا تعلق ہے اس کی بابت مجھے ککھ خبر نہیں۔ بہر حال دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ گورنر سندھ اب ”ناراض“ اراکین کی شکایات عمران خان صاحب تک پہنچائیں گے۔ غالباً یہ تجویز بھی دیں کہ ”بحران“ پر قابو پانے کے لئے عثمان بزدار کی جگہ علیم خان صاحب کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کر دیا جائے۔

عمران خان صاحب ہمیشہ ”کسی سے بھی بلیک میل“ نہ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ اقتدار بچانے کے لئے تاہم چنگیز خان اور سکندر اعظم جیسے فاتحین کو بھی کبھی کبھار لچک دکھانا پڑتی ہے۔ فرض کیا وہ علیم خان صاحب کو وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کردیں تب بھی انہیں پنجاب اسمبلی سے باقا عدہ منتخب ہونا پڑے گا۔ اپنے انتخاب کے لئے انہیں مسلم لیگ (ق) کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ مجھے خبر نہیں کہ گجرات کے جاٹ لاہور سے ابھرے ککے زئی کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ ”تخت لہور“ سے علیم خان صاحب کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی تحریک انصاف میں شامل کئی اراکین پنجاب اسمبلی کو ”سرائیکی وسیب“ کے دکھ بھی یاددلاسکتی ہے۔ عمران خان صاحب کے لئے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کا نیا وزیر اعلیٰ لگانا اس کی وجہ سے دشوار تر ہو سکتا ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے حامی بھی ممکنہ تناظر میں ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ ماضی کی تلخیاں بھلاتے ہوئے شہباز شریف صاحب چند روز قبل چودھریوں کے لاہور والے گھر حاضر ہوئے تھے۔ میرے جھکی ذہن نے اسے کارزیاں ٹھہرایا۔ شہباز صاحب نے بالآخر مذکورہ حاضری سے اپنی ذات اور جماعت ہی کو شرمندہ کیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ان کی رہائش پر جوابی حاضری دینے سے بھی گریز کیا۔

شہباز صاحب کے گھر جانے سے انکار کے باوجود پرویز الٰہی صاحب کے فرزند اور سیاسی وارث چودھری مونس الٰہی نہایت خلوص سے خواہش مند تھے کہ کراچی سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی صورت بڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری جب گجرات پہنچیں تو ان کے آبائی گھر ”چائے پانی“ کے لئے رکیں۔ پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین کو تاہم آصف علی زردار ی صاحب نے منع کر دیا۔ دوکشتیوں میں بیک وقت سواری کے خواہاں افراد کے ساتھ ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں۔ چودھریوں نے فیصلے کی گھڑی میں لیت ولال سے کام لیا۔ ان کے رویے نے جو خلاء پیدا کیا اسے علیم خان جہانگیر ترین کی چھتری تلے جمع ہوئے ”ناراض“ افراد کی معاونت سے پر کرنے میں مصروف ہو گئے۔ بات چل نکلی ہے دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ ایک بات اگرچہ عیاں ہو گئی اور وہ یہ کہ چسکہ فروش میڈیا کی توجہ اب عمران خان صاحب کا مقدر طے کرنے کے بجائے عثمان بزدار کا احوال جاننے پر مرکوز ہو گئی ہے۔ دریں اثناء وہ ”48 گھنٹے“ بھی گزرچکے ہیں جن کے دوران مولانا فضل الرحمن صاحب نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے ”خزاں“ کی جگہ ”بہار“ کی نموداری کو ممکن بنانا تھا۔

یہ کالم لکھ کر دفتر بھجواچکا تو خبر آئی کہ اپوزیشن جماعتوں نے بالآخر وزیر اعظم صاحب کے خلاف قومی اسمبلی کے دفتر میں تحریک عدم اعتماد جمع کروادی ہے۔ یوں ہمارے ٹی وی چینلوں کو اپنی سکرینیں پررونق رکھنے والا تماشا فراہم کر دیا گیا ہے۔ یہ رونق ہمیں اس حقیقت کو بھلادینے میں آسانی مہیا کرے گی کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی بدولت نئے ریکارڈ بنانا شروع ہو گئی ہے۔ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنیوں والے پاکستانیوں کے لئے اس کے اثرات جان لیوا ہوں گے۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author