مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معافی، مقدمہ اور نئی کہانی||حیدر جاوید سید

پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دینے والے ان نوری نتوں کے خلاف آئین کے ٓآرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور اس کے لئے خود اسٹیبلشمنٹ حکومت کو لکھے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے سانحہ 12مئی 2007ء پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ
’’ 12مئی کو ہم استعمال ہوئے اس پر شرمندگی ہے‘‘۔کیا فقط شرمندگی محسوس کرنا اور معافی مانگنا ہی کافی ہے؟ ایک لحاظ سے یہ اچھی بات ہے چلیں دیر سے سہی انہیں احساس تو ہوا کہ وہ استعمال ہوئے۔
اب مقتولین کے ورثاء ان کی معذرت قبول کرتے ہیں یا نہیں اس سے ہٹ کر ایک سوال ہے وہ یہ کہ سانحہ 12مئی 2007ء کے اصل مجرم اُس وقت کے غاصب صدر جنرل پرویز مشرف کے وکیل تو ایم ایم کیو کے سینیٹر اور اِس وقت وفاقی وزیر قانون ہیں۔ مقتولین پر فائرنگ کرنے والے بڑے کرداروں میں سے ایک وسیم اختر اب بھی بہادر آباد گروپ کی ناک کا بال۔ اب کیا وہ اپنی جماعت میں موجود سانحہ 12مئی کے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے۔
اصولی طور پر کرنی چاہیے یہی سیاسی اخلاقیات کا تقاضا ہے۔ مقتولین کے ورثاء اور ان کی جماعتوں کے پاس انہیں وفود کی صورت میں جانا چاہیے۔ اگر وہ چلے جاتے ہیں تو اس سے تلخیاں کم ہونے میں مدد ملے گی۔
سانحہ بارہ مئی میں لگ بھگ 50سیاسی کارکن قتل ہوئے تھے اسی شام اسلام آباد میں جنرل پرویز مشرف ایک اجتماع میں مکے لہراتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’دیکھی میری طاقت‘‘۔ اس وقت مشرف کے ساتھ سٹیج پر موجود ایم کیو ایم کے رہنمائوں کو بھی سانحہ کے متاثرین سے معافی مانگنی چاہیے۔
رہا اس سوال کا معاملہ کہ مقتولین کے ورثا خالد مقبول کی معذرت اور معافی کیوں قبول کریں کیونکہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین چند دن قبل بہادر آباد گروپ کے بارے میں دوٹوک انداز میں کہہ چکے کہ اس گروپ کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں۔
ممکن ہے ہماری رائے غلط ہو لیکن ایم کیو ایم کا بہادر آباد گروپ ہی اس وقت ایم کیو ایم ہے۔ اسلام آباد میں کچھ ملاقاتیں ہوچکیں اور کچھ ’’مزید‘‘ ہوں گی۔ پھر ایک دن آپ کو یہ خبر پڑھنے کو ملے گی کہ بہادر آباد گروپ نے اپنے بانی قائد سے رجوع کرلیا ہے اور قائد نے بھی خطائے اجتہادی کو درگزر کردیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ سانحہ بارہ مئی کے علاوہ بھی انہی دنوں میں کراچی کی ایک بلڈنگ میں کچھ وکلاء قتل کئے گئے تھے اس کا الزام بھی ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور رئوف صدیقی پر عائد ہوا تھا۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ایک قدم اور آگے بڑھ کر اس سانحہ کے حوالے سے بھی دوٹوک موقف اپنائیں ا ور معذرت کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
اسلام آباد پولیس نے وفاقی وزیر انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری اور یوٹیوبر اسد طور سمیت 200افراد کے خلاف دفعہ 120بی،147، 149، 186، 188، 353، 500 اور دفعہ 504 کے تحت تھانہ کوہسار میں ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں شامل دفعہ 120بی لوگوں کو بغاوت پر اکسانے اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوناہے جس سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ ہو۔
بغاوت اور دوسری دفعات کے تحت درج کئے جانے والے اس مقدمے میں ایمان زینب مزاری یوٹیوبر اسد طور اور بلوچ طلباء نامزد ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مقدمہ نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ طلباء پر بلاجواز وحشیانہ لاٹھی چارج پر اٹھنے والے سوالات سے جان چھڑانے کے لئے درج کیا گیاہے ،

ابتدائی اطلاع یہ تھی کہ مقدمہ میں مختلف جماعتوں کے چند ارکان پارلیمنٹ اورکچھ صحافی بھی ملزم نامزد ہوئے ہیں۔ پولیس حکام ارکان پارلیمنٹ کے ناموں کی تردید کررہے ہیں البتہ اس سوال پر کہ مقدمہ میں کتنے اور کون کون سے صحافی شامل ہیں؟ یہ کہہ دیا گیا کہ اعلیٰ حکام سے بات کریں۔
جس دن کے واقعہ پر مقدمہ درج ہوا اس دن پولیس کے وحشیانہ لاٹھی چارج سے قبل ڈپٹی کمشنر اسلام آباد احتجاج کرنے والے بلوچ طلباء سے مذاکرات کے لئے پریس کلب کےباہر پہنچے تھے ، ان کی بات چیت جاری تھی کہ ڈی سی کے ہمراہ موجود ایک سفید پوش نے درشت انداز میں یاوہ گوئی شروع کردی یہ یاوہ گوئی مزید احتجاج کا باعث بنی۔
پولیس نے وحشیانہ لاٹھی چارج بھی اسی ’’سادہ پوش‘‘ کے حکم پر شروع کیا۔ یہ شخص کون تھا اس کا جواب پولیس دے سکتی ہے یا ڈپٹی کمشنر۔
بلوچ طلباء اپنے ان ساتھیوں کے لئے احتجاج کررہے تھے جو پچھلے کچھ عرصہ میں اسلام آباد سے اغوا ہوئے ہیں۔
اس لاٹھی چارج کا جو افسوسناک (لاٹھی چارج بذات خود بھی افسوسناک ہی ہے) پہلو ہے وہ یہ ہے کہ پولیس کے ساتھ موجود چند سادہ پوش افراد نے تاک تاک کر بلوچ طلباء کے سروں پر لاٹھیاں ماریں جس سے متعدد طلباء کے سروں پر گہرے زخم آئے۔ کس کے کہنے پر طلباء کے سروں پر لاٹھیاں ماری گئیں ظاہر ہے کہ اسی کے کہنے پر جس نے لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ بلوچ طلباء پر ہونے والے اس وحشیانہ لاٹھی چارج کو کم از کم ہم طلباء پر نہیں ملکی یکجہتی پر لاٹھی چارج سمجھتے ہیں۔
وحشیانہ لاٹھی چارج کی کالک ہی کم تھی کہ اب بغاوت کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
کیا ’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘ "لاٹھی گولی نامنظور”، ” بلوچوں کو جینے کا حق دو” "بندوق نہیں علم” کے نعرے لگانا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے؟ ثالثاً یہ کہ لاٹھی چارج اور مقدمہ درج کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی؟
مکرر عرض ہے جو ہوا اچھا نہیں ہوا یہ جس نے بھی کروایا اس نے فیڈریشن کے خلاف سازش کی ہے۔ اس لاٹھی چارج اور مقدمہ درج کئے جانے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ طلباء کو انصاف مل سکے۔
نئی کہانی یہ ہے کہ پچھلے تین چار دنوں سے عسکری دانش کے کچھ نوری نت سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر ’’اٙت‘‘ اٹھائے ہوئے ہیں ان نوری نتوں کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے امریکہ ہے۔ امریکہ اس لئے ہے کہ عمران خان نے نومور کہنے کی جرات کی۔
اب امریکہ کے منع کرنے کے باوجود روس کا دورہ کیا۔ نوری نت صاحبان نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف امریکہ اور اپوزیشن کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ سیاسی معاملات میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مداخلت کی دعوت دینے والے ان نوری نتوں کے خلاف آئین کے ٓآرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور اس کے لئے خود اسٹیبلشمنٹ حکومت کو لکھے۔
ثانیاً یہ کہ امریکہ کیوں مخالف ہے اس حکومت کا جبکہ اس حکومت اور معاونین و سرپرستوں پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے 5اگست کے بھائی اقدام سے قبل جولائی میں امریکہ کو اس معاملے میں رضامندی دے دی گئی تھی۔
رضامندی دینے والوں میں ان دو صاحبان کے نام لئے جارہے ہیں جنہوں نے پینٹاگون اور وائٹ ہائوس کا دورہ کیا تھا ، اس دورہ اور رضامندی میں سی پیک کو "رول بیک” کرنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔
عین ممکن ہے کہ یہ دونوں الزامات درست نہ ہوں مگر الزام لگانے و الے ایکسٹینشن کو اسی رضامندی سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ ایکسٹینشن کا معاملہ بھی پینٹاگون اور وائٹ ہائوس میں طے پاگیا تھا۔
امریکی اس بات پر قائل تھے کہ جو امور طے کئے جارہے ہیں ان پر عمل کے لئے ضروری ہے کہ چہرے تبدیل نہ کئے جائیں۔

پچھلے دو برسوں سے یہ الزام تواتر کے ساتھ دہرایا جارہا ہے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کی تردید کرنے کی بجائے اِدھر اُدھر کی بہت باتیں کرلیں۔
امریکہ کی ناراضگی کی وجوہات مختلف ہیں ان میں ایک کا تعلق افغانستان سے امریکہ نیٹو افواج کے انخلاکے وقت کے کچھ معاملات ہیں۔ لازم نہیں کہ امریکی الزامات کو من و عن تسلیم کیا جائے
مگر یہ ضروری ہے کہ ان الزامات کے حوالے سے کم از کم پارلیمنٹ میں تو کھل کر بات کی جائے اور پوزیشن واضح کی جائے۔
اسی طرح حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک قدم آگے بڑھ کر ہی سہی پارلیمنٹ میں ہی مقبوضہ کشمیر اور سی پیک کے حوالے سے امریکہ کو کرائی گئی یقین دہانیوں کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات پر وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کریں۔
یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس حوالے سے کچھ کہانیاں بیرونی اخبارات میں شائع ہوچکیں۔ بھرپور انداز میں وضاحت سے ہی عوام کے سامنے اصل حقائق رکھے جاسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: