نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیمرا کے قواعد وضوابط کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں پر ’’حساس‘‘ موضوعات کو زیر بحث لانا ان دنوں پل صراط پر چلنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے۔ مجھ جیسے بے ہنر افراد زندہ رہنے کے لئے مگر بولنے اور لکھنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ دریافت ہی نہیں کرپائے۔عمر کے اس حصے میں بھی آچکے ہیں جہاں کوئی اور وسیلہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اپنی اوقات میں رہتے ہوئے رزق کمانے کا فریضہ نبھائے جارہے ہیں۔
منگل کی شام اپنے ٹی وی شو کا آغاز چینی انجینئروں پر دہشت گرد حملے سے کرنا تھا۔ اسے بیان کرنے کے لئے مناسب ومحتاط الفاظ ڈھونڈ ہی رہا تھا تو اچانک خبر ملی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6معزز ججوں نے چیف جسٹس صاحب کو ایک خط لکھ دیا ہے۔ مذکورہ خط کا متن عجلت میں ڈھونڈ نکالا تو میرے پروگرام کے آغاز کا وقت ہوگیا۔ آن ایئر جانے سے قبل سرعت سے عزت مآب ججوں کے لکھے خط کا متن پڑھ لیا۔ یہ مگر طے نہ کرپایا کہ بشام میں ہوئی دہشت گردی کے بعد مذکورہ خط کو بھی زیر بحث لایا جائے یا نہیں۔
خالصتاََ صحافتی تقاضوں کی بنیاد پر میری خواہش تھی کہ چینی انجینئروں پر ہوئے حملے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔آئی ایم ایف سے امدادی رقوم کے حصول کی خاطر ایڑیاں رگڑتے پاکستان کو معاشی استحکام کی جانب فقط غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ہی دھکیلا جاسکتا ہے۔نظر بظاہر پاکستان کے ریاستی ادارے بھی اس حقیقت کو بخوبی جان چکے ہیں۔ اسی باعث ’’ایس آئی ایف سی‘‘ کے نام سے بہت سوچ بچار کے بعد ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سول اور دفاعی حکام اس کے پلیٹ فارم پر یکجا ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاری کو ’’ون ونڈو‘‘ والی آسانیاں فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
منگل کی سہ پہر بشام میں چینی انجینئروں پر حملے کی خبر آئی تو میں اس فکر میں مبتلا ہوگیا کہ مذکورہ حملے کے بعد دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری بھی محفوظ نہیں۔ دیگر ممالک کے سرمایہ کار یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر ’’سمندروں سے گہرے اور پہاڑوں سے بلند‘‘ تصور ہوتے دوست ملک کے ہنر مند بھی پاکستان میں نظر بظاہر محفوظ نہیں تو وہ اس ملک میں اپنا سرمایہ کیوں لگائیں۔ یہ سوال اٹھانا مگر ’’ملک دشمنی‘‘ شمار ہوسکتا ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے برجستہ انداز میں گفتگو کے بجائے اپنے ذہن میں آئے خیال کو اشاروں کنایوں اور محتاط انداز میں پیش کرنا لازمی تھا۔
محتاط انداز اختیار کرنے کے باوجود دل ودماغ میں یہ سوال بھی گردش کرتا رہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھے خط کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے۔اسے نظرانداز کیا جاسکتا تھا کیونکہ میرا ٹی وی شو رات 8بجے سے شروع ہوا تھا اور مذکورہ خط کی نقل ساڑھے سات بجے کے بعد میڈیا کو میسر ہونا شروع ہوئی تھی۔ ’’وقت کی کمی‘‘ اس خط کو نظرانداز کرنے کا سبب ٹھہرائی جاسکتی تھی۔ زندہ رہنے کے جبر سے تھکے ہارے دل ودماغ میں ’’ضمیر‘‘ نام کا جو رتی برابر حصہ باقی رہ گیا ہے اس نے مگر اس عذر پر تکیہ کرنے سے گریز کیا۔ خط اور اس کے متن کا محتاط ترین الفاظ میں ذکر بالآخر کرہی دیا۔
ٹی وی شو کے بعد گھر لوٹتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6عزت مآب ججوں کی جانب سے لکھا خط اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے پاکستان میں تفریق کو مزید نمایاں کرے گا۔ یہ سوچتے ہوئے بدھ کی صبح اٹھ کر جو کالم لکھا اسے چینی انجینئروں پر ہوئے حملے تک ہی محدود رکھا۔ مجھے امید تھی کہ بدھ کے دن چیف جسٹس صاحب یہ طے کرلیں گے کہ مذکورہ خط کے عوام کے روبرو آجانے کے بعد کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ دوپہر تک اس ضمن میں تاہم کسی پیش رفت کی اطلاع نہیں آئی۔ بالآخر ساڑھے چار بجے کے قریب 24/7چینلوں نے ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ دی کہ سپریم کورٹ کا فل اجلاس شروع ہوگیا ہے۔پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے تمام ججوں پر مشتمل ایسے اجلاس کی خبر آنے کے بعد میرے دلِ خوش فہم نے امید یہ بھی باندھ لی کہ مذکورہ اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری ہوگا جو ہمیں خواہ مخواہ کی قیاس آرائیوں سے بچالے گا۔بدقسمتی سے مجھے جس اعلامیہ کی توقع تھی وہ منظر عام پر نہیں آیا۔
جمعرات کی صبح اٹھ کر اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے میں بدھ کی شام منظر عام پر آئے خط کو نظرانداز کروں تو عافیت کی طلب کے علاوہ یہ صحافتی بددیانتی بھی شمار کروں گا۔سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ لکھوں تو کیا لکھوں۔ جن عزت مآب ججوں نے یہ خط لکھا ہے ان میں سے دو کے ساتھ میری دوستی نہیں لیکن دیرینہ شناسی ہے۔میں انہیں محنتی ،لائق اور دیانتدار تصور کرتا ہوں۔عرصہ ہوا ان سے میری کسی سماجی تقریب میں بھی سلام دعا نہیں ہوئی۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ وہ چار دیگر ججوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا خط لکھنے کو کیوں آمادہ ہوئے جس نے ہمارے عدالتی ہی نہیں بلکہ ریاستی نظام کے بارے میں بھی بے تحاشہ سوالات اٹھادئیے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ جن واقعات کا مذکورہ ججوں نے اپنے مشترکہ خط میں ذکر کیا ہے ان کی تصدیق کے لئے عزت مآب چیف جسٹس صاحب فوری طورپر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی قیادت میں ایک کمیشن کے قیام کا اعلان کردیتے۔ اس کمیشن کو دو یا تین ہفتوں کی مہلت یہ طے کرنے کو دی جاتی کہ اسلام آباد کے 6عزت مآب ججوں نے اپنے مشترکہ خط میں ان پر آئے ریاستی اداروں کے دبائوکے بارے میں جو الزامات لگائے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں۔ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ’’کلیدی‘‘ سوال میری عاجزانہ رائے میں اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم کی نذر ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف والے خط لکھنے والے ججوں کو قوم کے ہیرو قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کی دانست میں ان منصفوں پر ’’دبائو‘‘ بڑھانے کی وجہ یہ خواہش تھی کہ وہ عمران خان کو ’’رگڑا‘‘ لگانے میں ریاست کی معاونت کریں۔تحریک انصاف کے مخالفین سوکنوں کی طرح خط لکھنے والوں کو طعنے دے رہے ہیں کہ ماضی میں جب فیض حمید جیسے ریاستی کارندے جسٹس شوکت صدیقی سے اپنی خواہش کے مطابق فیصلے لینے کے لئے دبائوبڑھارہے تھے تو ان کا ضمیر کیوں سویا رہا۔ شوکت صدیقی پر نازل ہوئے عتاب کے دوران ان کی زبانیں گنگ کیوں رہیں۔ ’’ضمیر‘‘ عمران خان کی محبت ہی میں کیوں انگڑائی لے کر جاگ اٹھا ہے۔ دونوں جانب سے اٹھائے سوالات کا مناسب جواب فراہم کرنے کے لئے میرے پاس مستند اطلاعات موجود نہیں ہیں۔ وہ اگر موجود بھی ہوتیں تو ریاست کے دئے لائسنس کی بدولت چھپتے اخبار میں انہیں بیان کرنے کی حماقت سے گریز کرتا۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر