دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

”اوریجنل اور غیر اوریجنل کے مابین فرق۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریباََ دو ہفتے قبل ایک دوست کے ہاں رات کے کھانے کے لئے مدعو تھا۔ وہاں چند سفارت کاروں کے علاوہ نہایت پڑھے لکھے دوست بھی موجود تھے۔ گفتگو کا رخ مقامی سیاست کے بجائے عالمی حالات کی جانب مڑ گیا۔ تمام مہمان اس حقیقت کے بارے میں فکر مند تھے کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل کے دور کی طرح دنیا ایک بار پھر انتشار کا شکار ہورہی ہے۔ مختلف ا قوام تاریخ کا یرغمال ہوئی جدید ترین مہلک ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے ذریعے اپنی جداگانہ شناخت اور بالادستی اجاگر کرنے کے جنون میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ روس یوکرین کو عظیم تر روس کا جزو لاینفک شمار کرتا ہے۔اسی باعث فروری 2022ء میں اسے ہڑپ کرنے کو لاﺅلشکر سمیت حملہ آور ہوگیا۔کئی ہفتے گزرجانے کے باوجود مگر روس اپنے ہدف کے حصول میں قطعاََ ناکام رہا ہے۔

روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے پورے عالم میں تیل وگیس کی قیمتیں ناقابل برداشت ہوچکی ہیں۔ گندم کے حصول کے لئے دیگر ممالک پر انحصار کے عادی افریقہ اور ایشیا کے بے تحاشا ممالک میں اس کی وجہ سے غذائی بحران بھی سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے۔ ”عالمی ضمیر“ نام کی کوئی شے بیدارہوکر مگر روس کو”اخلاقی اعتبار“سے یہ سوچنے کو مائل نہیں کر پائی ہے کہ عظیم تر روس کا جنون دنیا بھر کے غریب اور بے وسیلہ لوگوں کی زندگیوں کو محاذ جنگ سے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ جیسے اداروں کا قیام قوم پرستی پر مبنی جنون کی پھیلائی وحشت کو قابو میں لانا تھا۔وہ یہ فرض نبھانے میں کئی دہائیوں سے مسلسل ناکام ہورہی ہے۔

 

روس-یوکرین جنگ کی بدولت دنیا میں پھیلی مایوسی کے بادل ابھی چھٹے ہی نہیں تھے تو رواں برس کے اکتوبر میں حماس نے اسرائیل کو بوکھلادیا۔ غزہ کی پٹی سے مزاحمت کاروں کی صہیونی آباد کاروں کی بستیوں میں سنسنی خیز آمد نے صہیونی ریاست کو آتش انتقام میں اندھا بناڈالا۔کئی ہفتوں سے غزہ کی پٹی تک محصور اور محدود ہوئے 23 لاکھ فلسطینی خواتین اور بچوں سمیت میدان جنگ میں متحرک سپاہ کی صورت شمار کئے جارہے ہیں۔ اسرائیل انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کو تلابیٹھا ہے۔ آتش انتقام کی وجہ سے وحشیانہ نفرت وبدلے کا نشانہ بنے خواتین اور بچوں کی حالت زار بھی ”عالمی ضمیر“ نامی کسی شے کو جگانے میں ناکام رہی ہے۔ ان نام نہاد ”مسلم امہ“ کی اجتماعی بے بسی کو بھی مسلسل بے نقاب کئے چلے جا رہے ہیں۔ ہم مگر اپنی بے بسی کو کبوتر کی طرح بند آنکھوں سے نظرانداز کرنے والے کاربے سود میں الجھے ہوئے ہیں۔

تمہید لمبی ہونے پر معافی کا طلب گار ہوں۔ آج کے کالم میں روس-یوکرین جنگ یا اسرائیل کی آتش انتقام کو زیر بحث لانا مقصود نہیں تھا۔ کالم کے آغاز میں جس محفل کا ذکر ہوا وہاں ایک نوجوان برطانوی بھی موجود تھا۔ روس-یوکرین جنگ اور اسرائیل کی آتش انتقام کا ذکر کرتے ہوئے مذکورہ محفل میں موجود ایک مہمان نے برطانیہ کے ”زوال“ کا ذکر بھی چھیڑدیا جو ان دنوں ایک جزیرے تک سکڑانظرآرہا ہے۔ وہاں کی حکومت مستقل عدم استحکام کا شکار ہے۔ اندرونی مسائل میں الجھا برطانیہ کوئی ”عالمی کردار“ ادا کرنے کی قوت سے کاملاً محروم نظرآتا ہے۔

مذکورہ محفل میں موجود برطانوی مہمان نے اپنے ملک کے بارے میں بیان کردہ تصورات کو نہایت توجہ اور وقار سے سنا۔ تبصرہ آرائی ختم ہوئی تو فقط ایک فقرہ ادا کرتے ہوئے اپنی جند چھڑالی۔ انگریزی میں ادا ہوئے اس مختصر فقرے کی بدولت مہمانوں کو فقط یہ بات یاددلانے کی کوشش ہوئی کہ برطانیہ ایک Original Power ہے۔

اس یک سطری جواب نے مجھے حیران کردیا۔اوریجنل کا لغوی مطلب حقیقی یا اصلی ہوتا ہے۔ جس تناظر میں لیکن اس روز یہ لفظ استعمال ہوا وہ حقیقی یا اصلی کے استعمال سے بیان نہیں ہوسکتا۔ ”ازلی بھی شاید اس کا مفہوم کماحقہ انداز میں بیان نہیں کر سکتا۔ کئی روز گزر جانے کے باوجود میرا کند ذہن یہ کالم لکھتے ہوئے بھی یہ طے کرنے سے قاصر ہے کہ جس محفل کا میں ذکرکررہا ہوں وہاں موجود برطانوی مہمان نے اوریجنل کاجو لفظ استعمال کیا تھا اسے اردو میں کیسے بیان کیا جائے۔غالباََ وہ یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ برطانیہ ایک پرانا اور مستند طاقت ور ملک ہے۔اس کی اہمیت کو نظرانداز نہ کیا جائے۔

”اوریجنل“ کا ایک محفل میں زیر بحث موضوعات کے تناظر میں برطانیہ کے لئے استعمال مجھے اتوار کی رات سے بہت یاد آرہا ہے۔ ہوا یوں کو ہفتے کی صبح سے مسلسل سفر میں رہنے کے بعد شام سات بجے کے بعد گھرلوٹا تو ٹی وی سکرین پر آسڑیلیا اور بھارت کے مابین ورلڈ کپ کا فائنل میچ ہو رہا تھا۔اس کالم کے دیرینہ قاری جانتے ہیں کہ کرکٹ کا میں شیدائی نہیں۔ اس کھیل سے تقریباََ لاتعلق ہونے کے باوجود میں صوفے پر نیم دراز ہوکر فائنل دیکھنا شروع ہوگیا۔ مجھے یہ میچ دیکھنے کو مجبور کرنے والے آسٹریلیا کے دوبلے باز تھے جو تین وکٹوں کے نقصان کے بعد میدان میں ڈٹے رہے۔ بھارتی صوبہ گجرات کے احمد آباد میں قائم ہوئے دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم میں ایک لاکھ تیس ہزار تماشائیوں کی ”اجتماعی انرجی“ کو نہایت اعتماد سے نظرانداز کرتے ہوئے وہ دونوں کھلاڑی کرکٹ کی پرکاریوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اپنی ٹیم کو فتح کی جانب بہت دھیمے انداز میں بڑھاتے رہے۔ کھیل کی تکنیک پر کامل مہارت کی بدولت جب وہ فائنل کا نتیجہ طے کرنے کے قابل نظرآئے تو تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے اسٹیڈیم میں خجالت آمیز خاموشی چھا گئی۔

کرکٹ کو میرے بچپن میں جنٹل مین یا اشرافیہ کا کھیل ٹھہرایا جاتا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے دودہائیوں سے مگر اسے منافع بخش دھندے میں بدل ڈالا ہے۔ مذکورہ نظام کی بدولت ہی اب بھارت میں ایسا طبقہ نمودار ہوا ہے جسے ہم ”نودولتیا“ کہنے کو مجبور ہیں۔ ”نودولتی“ کا چھوٹا پن آسٹریلیا اور بھارت کے مابین ہوئے فائنل کے درمیان مجھے تکلیف پہنچاتا رہا۔ خدارا اعتبار کیجئے میں نے اس چھوٹے پن کو پاکستانی ہونے کی وجہ سے متعصب ہوئی نگاہ سے دریافت نہیں کیا ہے۔ حقیقت کو محض ایسے ہی دیکھا جیسے وہ نظرآرہی تھی۔میچ ختم ہوا تو برطانوی نوجوان کا اداکردہ ”اوریجنل“ یادآگیا اور یہ کالم لکھتے ہوئے بھی اوریجنل اور غیر اوریجنل کے مابین فرق کو بھارتی تماشائیوں کے اجتماعی رویے کی بدولت ٹھوس انداز میں سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author