مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملت محل: یہاں ہر کمرہ ایک الگ محل لگتا ہے(16)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ہم آپ کو ساتھ لے کر اس شاہی محل کو دیکھتے ہیں۔ اس محل کے کمروں کو کمرہ تو نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ جس کمرے میں بچھے قالین کی طوالت 96 میٹر ہو، ہماری کیا مجال کہ ہم اسے کمرہ کہیں۔ محلات کے جس کمپلکس میں باورچی خانہ ، برتن خانہ، اور ملبوسات خانہ الگ الگ محلات کی صورت میں موجود ہوں اور جہاں دو مطلقہ ملکاؤں ثریا اور تاج الملوک اور ایک آخری ملکہ فرح دیبا، شاہ کی بہن اشرف پہلوی اور بیٹیوں شہناز، فرح ناز اور لیلیٰ کے الگ الگ ملبوسات کے محل ہوں، جہاں بادشاہ کی بہن کی الگ لائبریری ہو وہاں شاہی خاندان کے شب وروز گزارنے کے محل کی کیا حالت ہوگی۔ یہی تو عرض کر رہا ہوں کہ ملت محل کا ہر ایک کمرہ ایک الگ محل نما ہے۔ آپ محل تک پہنچنے کیلئے جو تیس پینتیس سیڑھیاں چڑھتے ہیں، ان سیڑھیوں سے بھی شاہی شان و شوکت ٹپکتی ہے۔ جب آپ کی نظر محل میں رکھے موسیقی کے آلات پر پڑتی ہے تو ذہن میں خودبخود ایرانی موسیقاروں گوگوش، محمد رضا شاجریان، ایبی اور داریوش اقبالی کے سُر فضا میں بکھرتے محسوس ہوتے ہیں۔ اس ملت محل کا فرح آرٹ کمپلکس آپ کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اس محل میں ایک سینما ہال موجود ہے جو غالباً تہہ خانہ میں ہے اورہم تہہ خانہ میں جا ہی نہ سکے۔ یہاں کے ڈریسنگ روم، سکیورٹی روم، ڈائیننگ ہال، بلیئرڈ ہال اورتقریبات کے ہال کی الگ الگ شان ہے۔ جاگیردارانہ معاشرے کی انتہائی نچلی پرت کا خانہ بدوش مجھ جیسا پسماندہ شخص شاہی محل کو کس محویت سے دیکھ رہا ہے اور اس کے قصے بیان کر رہا ہے۔ مگر میں یہ سب کچھ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ میں آپ کو اپنے تجربے میں شریک کروں۔

دس بہت بڑے ہالوں پر مشتمل یہ محل 1931ء میں مکمل ہوا۔ اس محل میں آخری بادشاہ اور اس کی ملکہ فرح دیبا برسوں تک مقیم رہے۔ شاہ کے امور سلطنت کی انجام دہی کا کمرہ بہت زیادہ وسیع وعریض ہے۔ اسے کمرہ تو بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے ہاں تو متوسط طبقہ کے لوگوں کے گھروں کا اتنا بڑا رقبہ نہیں ہوتا۔ اس کمرے میں جو قالین بچھی ہے، اس کی لمبائی 76 فٹ ہے۔ اس کمرے کے قیمتی فرنیچر کے علاوہ یہاں کی قابلِ ذکر چیز یہاں دیواروں پر سلیقے سے لگی پینٹنگز ہیں۔ مصوری کے یہ شاہکار ہسپانوی مصوروں کے مُوقلم اور برش سے نکلنے والے شاہکار ہیں۔ پہلی منزل سے دوسری منزل تک جانے اور آنے کیلئے شاہی زینے کے علاوہ الگ الگ زینے ہیں۔ یہ ہمارے گھروں کی سیڑھیوں جیسی سیڑھیاں ہیں مگر یہ کسی طور پر ایک منزل اوپر جانے کی سیڑھیاں نہیں لگتیں۔ لگتا ہے کہ دو منزلوں کی بلندی جتنا فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچا جاتا ہے اور بالائی منزل سے واپسی کیلئے الگ سیڑھیاں استعمال کی جاتی ہیں۔


ملکہ اور بادشاہ کے سونے کا کمرہ بھی ایک بہت بڑا ہال ہے۔ اس کمرے کو کمرہ کہیں یا محل کہیں، یہ میں یہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ ہمارے ہاں نارتھ ناظم آباد کے شادی ہالوں جتنے رقبے پر سونے کیلئے یہ شاہی کمرہ بنا ہوا ہے۔ اس کے کمرے کا رقبہ 770 مربع میٹر (920 مربع گز) ہے۔ اس کمرے کے برابرمیں سیڑھیاں ہیں جو شاہی زینے سے ہٹ کر ہیں۔ محل کے دوسرے کمرے بھی اس شاہی خواب گاہ سے چھوٹے نہیں ہیں۔ بادشاہ کا دفتر اور ڈائیننگ روم ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ڈائیننگ ہال میں ناشتے، لنچ اور ڈنر کیلئے الگ الگ میز اور کرسیاں بچھی ہیں۔ یہاں پر آرائشی سازوسامان مستزاد ہے۔ ہر چیز کا اپنا حسن ہے۔ چیزوں کے رکھنے اور برتنے کا اپنا اپنا سلیقہ اور اپنا اپنا انداز ہے۔ بادشاہ کے ملاقاتوں کا کمرہ ایک اور بڑا ہال ہے، جہاں درجنوں صوفے اور دیگر آرائشی اسباب موجود ہے۔ میں اس کمرے کو بڑے غور سے دیکھتا ہوں اور اندازے قائم کرتا ہوں۔ اِن صوفوں پر روزویلٹ، اسٹالن اور چرچل بیٹھے ہوں گے، وہاں ولی برانٹ اور پومپیدو کی نشستیں ہوں گی۔ اِس صوفے پر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملاقات کی ہوگی۔ ادھروہاں ذوالفقارعلی بھٹو نے بیٹھ کر گفتگو کی ہوگی۔ اندراگاندھی اُس طرف بیٹھی ہوں گی۔ سلیمان ڈیمرل اور عصمت انونو نے ان صوفوں پر بیٹھ کر مکالمہ کیا ہوگا۔ آخری دور کے آخری ملاقاتی ہمارے ایئرمارشل (اصغرخان) بھی یہاں آئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خطہ میں امریکی اسٹریٹجک مفادات کے نمائندے کے طور پر بادشاہ نے انٹرویو لے کر ہمارے غریب ملک کے حکمران کے بارے فیصلہ کرنا تھا کہ کیا بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ایئرمارشل اصغرخان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اصغرخان کی واپسی پر جنرل ضیاء یہاں اسی ملت پیلس کے اسی ہال میں آکر شاہ ایران سے ملا تھا اور پوچھا تھا کہ مجھ میں کیا بُرائی ہے؟ مجھ سے بہتر امریکی مفادات کی نگہبانی اور کون کر سکتا ہے؟ کہتے ہیں کہ وقت یہ سب کچھ سُن رہا تھا اور زور سے قہقہے لگا رہا تھا۔
ملاقاتوں کے اس کمرے میں رکھی گئی آرائشی چیزوں میں نپولین کا مجسمہ بھی رکھا ہے جو روزویلٹ سے لے کر ضیاءالحق تک ہر حکمران کی باتیں سنتا رہا ہے۔ نپولین کے آخری معرکے واٹرلُو کے میدان میں ہونے والی جنگ کے کئی کردار تاریخ کے جھروکوں سے جھانکتے محسوس ہوتے ہیں۔ پرنس اورنج کئی روز سے نپولین کو الجھا کر مصروف رکھے ہوئے ہے تاکہ جنگ اور مقابلہ اس کے پسندیدہ واٹرلُو کے میدان میں ہی ہو جہاں نپولین کو تین طرف سے گھیر کر کچھار میں لایا جاسکتا ہے۔ لارڈ ویلنگٹن پروشیائی فوجوں کی مدد سے فتح کا سہرا اپنے سر باندھتا ہے اور پورے یورپ کو ناکوں چنے چبوانے والے نپولین کو قیدی بنا لیتا ہے۔ چارلس شاون اب بھی نپولین کو ناقابلِ تسخیر کہہ ایک انتہائی جانبدارانہ رویئے شاونزم کی بنیاد رکھ رہا ہے۔

Advertisement


میں سامنے ایک اور ہال کی طرف بڑھ رہا ہوں جہاں ایرانی لوک داستانوں کی خُوبصورت پینٹنگز لگائی گئی ہیں۔ فردوسی کے شاہنامہ کے کئی کردار یہاں دیواروں سے دیدارِعام کرا رہے ہیں۔ میں اس ہال کی دیواروں پر ضحاک اور کاوہ آہن گر کی پینٹگز ڈھونڈ رہا ہوں۔ پھر اچانک میرا لا شعور مجھ پر یہ منکشف کرتا ہے کہ یہی رضا شاہ پہلوی ہی تو ضحاک ہے۔ فردوسی نے شاہنامہ میں ضحاک کی داستان لکھ کر عوامی مزاحمت کی لازوال داستان رقم کردی۔ فردوسی بتاتا ہے کہ ضحاک ایک حریص شہزادہ ہے جس کے دل میں تخت و تاج کے ارمان مچل رہے ہیں۔ ضحاک کی داستان فردوسی نے لکھی مگر یہ داستان ایران کی لوک روایات اور لوک داستانوں کا حصہ ہے جسے فردوسی سے پہلے بھی راتوں کی محفلوں میں گایا اور سنایا جاتا تھا۔ فارس(ایران) کے قرون وسطیٰ میں اویستا کے متن اور مسودہ میں یہ داستان موجود رہی ہے۔ زرتشت داستانوں میں ضحاک کو اژی دھاک کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس دس ہزار گھوڑے موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ضحاک اہریمن کا بیٹا اور اہورامزدا کا دشمن تھا۔ اژی کا مطلب اویستن ہے جس کامطلب اژدہا یا سانپ ہے۔عربی میں ضحاک کا مطلب وہ شخص ہے جو ہنستا ہے یا قہقہہ لگاتا ہے۔


ایک روز شیطان ضحاک کو اس بات کیلئے قائل کرتا ہے کہ وہ اپنے باپ کو قتل کر کے تاج وتخت سنبھال سکتا ہے۔اس لوک داستان کے ذریعے لوگوں کے سامنے آنے والے نام جمشید، کاوہ، فریدون اور فراناک ایسے ہیں جو ایران میں اب بھی بچوں کی پیدائش پر رکھے جاتے ہیں۔ ضحاک باپ کو قتل کرواتا ہے تو اس کے دونوں کاندھوں پر دو سانپ نکل آتے ہیں جو ہرروز دو نوجوانوں کے سروں سے نکلا ہوا بھیجہ کھاتے ہیں۔ اب شہر میں منادی کرادی گئی کہ لوگ بادشاہ کے سانپوں کی خوراک کیلئے اپنے اپنے نوجوان بچوں کے نام لکھوا دیں۔ یوں بادشاہ کے کندھوں کے سانپوں کی خوراک کیلئے روزانہ دو دو نوجوانوں کی قربانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ایک روز کاوہ آہن گر کے بیٹوں کی باری آتی ہے وہ بیٹوں کو قربانی کیلئے لے جانے کی بجائے بازار میں نکل کھڑا ہوتا ہے اور چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ لوگو بادشاہ کے سانپوں کی خوراک بنانے کیلئے کب تک اپنے بیٹوں کی قربانی دیتے رہو گے۔ لوگ بازار میں جمع ہو جاتے ہیں اور بادشاہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے محل کی طرف چل پڑتے ہیں اور محل پر حملہ آور ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں بادشاہ اور اس کے کندھوں کے سانپ مارے جاتے ہیں اور نوجوانوں کی قربانیوں کا سلسلہ تھم جاتا ہے۔
اس لوک داستان کا حسن یہ ہے کہ ہماری لوک داستانوں کی طرح کوئی ماورائے فطرت ہیرو آکر تنہا بادشاہ، اس کی فوج اور سانپوں کا مقابلہ کرکے فتح مند نہیں ہوتا بلکہ ایک بے بس کاوہ آہن گر بازار میں عوام کے پاس جاتا ہے اور اسے عوام کا اجتماعی مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے اور عوام اپنی اجتماعی جدوجہد سے ضحاک اور اس کے سانپوں سے نجات پاتے ہیں۔
میں لوک داستانوں کے اس کمرے سے نکل کرآخری ہال کو دیکھتا ہوں، جہاں قالین پر شیر کی کھال بچھی ہوئی ہے۔ یہ شیر تزکِ بابری یا آئین اکبری سے نکال کر یہاں نہیں لایا گیا۔ بلکہ یہاں کسی کہانی کے بغیر ہی کسی مقامی یا غیرملکی بازار سے شیر کی کھال خرید کر یہاں پر لائی گئی اور کمرے کی زیبائش کیلئے بچھا دی گئی۔(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: