مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کاخ سعدآباد، ملت شاہی محل عجائب گھر بن گیا(15)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہی محل

کاخ سعدآباد، ملت شاہی محل عجائب گھر بن گیا

پینٹنگز کے محل سے آگے ظروف اور جیومیٹری کے آلات کا عجایب گھر آتا ہے۔ یہاں جست اور شیشے کی صراحیاں اردو اور فارسی شاعری کی صراحیوں کی طرح دعوتِ نظارہ دیتی نظر آتی ہیں۔ پھربہماس پیلس اور گرین پیلس کی دیواریں نظر آتی ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے محلات کے اس کمپلکس میں شاہی سواریوں اور قیمتی گاڑیوں کا ایک الگ محل ہے۔ اس محل میں جاپانی یاماہا اور جرمن بینز کے موٹرسائیکل، مرسیڈیز، رولزرائیس، شیورلیٹ اور بی ایم ڈبلیو کی درجنوں کاریں کھڑیں ہیں۔ یہ غالباً آخری بار 1979ء میں استعمال ہوئی تھیں، ہوسکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی استعمال ہوئی ہوں۔ مگر ان کی چکا چوند کر دینے والی چمک دمک سے یوں لگتا ہے کہ انہیں ابھی ابھی کسی شاہی شوروم سے لاکر یہاں کھڑا کیا گیا ہے۔
علی فاطمی ہمارے سعد آباد پیلس میں داخلے کے ٹکٹ لے کر ہمیں اندرونی مرکزی دروازے سے محل کی حدود کے اندر لے جاتے ہیں۔ محمد بھائی بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ہم شاہی ہتھیاروں کے محل، ملبوسات محل، پینٹنگز محل، ظروف محل، شاہی خاندان کی تصویروں کے محل اور شاہی گاڑیوں کے پُول کے محل پر اچٹتی نظریں ڈالتے آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کمپلکس کے احاطے میں سرسبزوشاداب درختوں کے بیچوں بیچ بل کھاتی ایک کھلی سڑک آگے کو جا رہی ہے اور ہم اسی سڑک پر پیدل چل رہے ہیں۔ جنگل کے پرندے اپنی اپنی بولیاں بولتے اِدھراُدھر اُڑتے پھر رہے ہیں۔ ہم مختلف محلات کی جانب رہنمائی کرنے والے راستوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک خاص محل کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم میرعماد خوشخطی میوزیم، فائن آرٹ میوزیم، ماسٹر بہزاد میوزیم اور خصوصی شاہی باورچی خانہ کے میوزیم سے آگے بڑھ کر دائیں جانب کو مڑ گئے۔ یہ قاجار اور پہلوی شاہی خاندانوں کی یادگاروں کے عجائب گھر ہیں۔ ہم تو چند ایک کا ہی تذکرہ کر پائے مگر یہاں پر 18 محلات ہیں جو ایک عالم کیلئے تماشہ بنے ہوئے ہیں۔


ہمیں دور سے ایک سفید عمارت نظر آتی ہے۔ یہ ملت محل ہے۔ اسے وہائٹ پیلس بھی کہا جاتا ہے۔ ہم نے 45 سال پہلے اپنے سوات کے شہر مینگورہ میں والئ سوات میاں گل جہانزیب سے ملاقات کی تھی۔ ہم اُن کے صاحبزادے میاں گل امیرزیب اور اُن کی بہو جمیلہ دختر فیلڈمارشل ایوب خان کی ملکیت مرغزار میں واقع وہائٹ پیلس کو دیکھنا چاہتے تھے۔ ہمیں وہ محل دیکھنے کی اجازت مل بھی گئی تھی۔ پھر برسوں بعد میں نے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ بھی مرغزار کا وہائٹ پیلس دیکھا تھا۔ میں جاگیردارانہ معاشرے کے خانہ بدوش خاندان کا جدلیاتی مادیت کے علم کا ادنیٰ سا شاگرد اتنے بڑے محلات کے حسن و جمال کا موازنہ اور مقابلہ نہیں کر سکتا بلکہ میں دنیا بھر کے محلات کو ایک بڑے انقلابی عمل کے بعد عجائب گھروں میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں۔

Advertisement

ملت محل کے سامنے ایرانی لوک داستانوں کے ایک افسانوی تیرانداز کسی ہیرو کا مجسمہ زمین سے قدرے بلندی پر نظرآ رہا ہے۔ اس تیرانداز نے افسانوی ہیرو کی طرح معجزاتی انداز میں ملت محل کی حفاظت کرنی تھی۔ مگر محل مکینوں سے خالی ہوکر انقلاب کی ضربیں کھا کھا کر عجائب گھر بن چکا ہے مگر تیرانداز اب بھی جوں کا توں کمان کو دہرا کئے ہوئے ہے۔ اس کے ترکش میں تیروں کے ساتھ تلوار بھی موجود ہے مگر صرف تماشہ کیلئے ہے۔ درختوں کے جھنڈ میں یہ مجسمہ خاصہ ہیبت ناک لگتا ہے مگر مجسمہ ہی تو ہے۔ جب عوام کو مجسمہ کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو وہ ہر خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ ایران کے عوام جب سچ مچ کے تیراندازوں اور خنجربکف، بندوق بردار پھرتیلے شاہ پرستوں کے خوف سے باہر آگئے تھے اور جان گئے تھے کہ اُن کے پاس کھونے کیلئے زنجیریں اور ذلت امیز سانسیں اور پانے کیلئے پورا ایران پڑا ہے تو تیرانداز اور جنجر بکف بندوق برداروں کو اپنی سانسوں کے لالے پڑے تھے اور وہ تھرتھر کانپ رہے تھے۔ 


یہاں ایک منزل تہہ خانہ ہے۔ لو بھائی محفوظ تہہ خانے بھی وقت آنے پر عالم پناہوں کو نہ بچا پاتے ہیں اور یہ ہی پناہ دے سکتے ہیں۔ ملت محل پورے سعدآباد کمپلکس کے سارے محلات سے زیادہ خوبصورت محل ہے۔ مجھے اس محل کی بنیادوں میں ان گنت ایرانیوں کے لہو کی بُو محسوس ہو رہی ہیں۔ مغلوں کے دہلی کے لال قلعہ کو میں نے نہیں دیکھا، میں نے اپنے لاہور کا شاہی قلعہ دیکھا ہے جہاں سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی چیخیں رات کے پچھلے پہروں میں پرانے لاہور کی تنگ گلیوں میں پھیل جاتی ہیں۔ مگر یہاں ملت محل کا تہہ خانہ بند ہے پھر یہ کیا ہے ۔یہاں تو دن کے اُجالے میں خوفزدہ شاہی خاندان کی 15 اور 16 جنوری 1979ء کی رات کی سرگوشیاں اور سسکیاں سنائی دے رہی ہیں۔ 16 جنوری کا سورج طلوع ہونے سے ذرا پہلے یہ سسکیاں اور سرگوشیاں ملت محل سے باہر نکل کر مہرآباد کے ہوائی اڈے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ آزادی ٹاور آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ شاہی خاندان ایک جہاز کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایئرپورٹ پر ایک سپاہی بھاگتا ہوا شاہ کی طرف آتا ہے اور اس کے قدموں سے لپٹ جاتا ہے۔ کچھ لوگ سرگوشیاں کرتے ہیں کہ بادشاہ علاج کیلئے امریکہ جا رہا ہے مگر امریکہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ عوام کے یکے کی مار کھائے تھکے بادشاہ کو تاش کے پتوں سے اُٹھا کر اپنے ہاں پناہ دے۔ شاہ اپنی بڑی بیٹی شہناز پہلوی کی ماں شاہ کی طلاق یافتہ ثریا اور اس کے بھائی سابق شاہ فاروق کے وطن مصر کا رُخ کرتا ہے، جہاں سوڈانی ماں کا حبشی بیٹا مصری صدر انوارالسادات اپنی بیوی جیہان سادات سے بے وفائی کر کے شاہ ایران کی بیوی ملکہ فرح دیبا کے التفات کیلئے ہر جتن کرتا ہے جس کی طلب شاہ کی موت بن جاتی ہے۔


ہم ملت محل میں داخل ہوتے ہیں۔ میں ایک جانب شاہی صوفوں کی تصویر بناتا ہوں۔ شاہی مہمان خانے کا آئینہ بہت خاموشی سے میرا عکس محفوظ کر لیتا ہے۔ میرے عقب میں منظر نقوی کسی اور کمرے کا کوئی منظر کیمرے میں محفوظ کر رہے ہیں۔ شاہی آئینہ اُن کو بتائے بغیر پیچھے سے اُن کے عکس کو بھی محفوظ کرلیتا ہے۔ یہاں کروڑوں کی مالیت کے خوبصورت قالین بچھے ہیں۔ ان قالینوں کےمنظروں پر ایران کا انقلاب چہل قدمی کرتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں موجود ایک خاتون ہمیں اِن کمروں، کمروں میں رکھے فرنیچر، قالینوں، فانوسوں، یہاں مختلف آرائشی اشیاء پر استعمال ہونے والے سونے اور ہیروں کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ہم شاہی خواب گاہوں کے شاہی پلنگوں اور بستروں میں ہونے والی سونے کی چیزوں کی چمک دمک دیکھتے ہیں۔ہم بالائی منزل کی طرف لے جانے والے شاہی زینے کو دیکھتے ہیں جس کے آگے فرنیچر رکھ دیا گیا جو اس بات کا اعلان ہے کہ ان زینوں کو اب استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شاید انقلاب نے ان زینوں کے استعمال کی ممانعت کر دی ہے۔ ایک طرف کو وسیع ڈرائینگ روم ہے جس میں نصف درجن صوفہ سیٹ تین درجن لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش بنا رہے ہیں۔ محل کے ڈائیننگ روم میں پڑی ڈائیننگ ٹیبل پر بیک وقت 16 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

Advertisement

میں اس محل میں وہ مقام تلاش کر رہا ہوں جہاں دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں مبینہ نازی ازم اور فاشزم کے خلاف اتحادی سُپر پاورز کے سربراہوں نے آخری مشورے کئے تھے، جن میں امریکی صدر روزویلٹ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور سوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جوزف اسٹالن شامل تھے۔ تہران کے اسی محل میں سُپر پاورز کے سربراہی اجلاس میں روزویلٹ نے جنگ کے خاتمے کیلئے آخری حربے کے طور پر ایٹم بم کے استعمال کی طرف اشارہ کیا تھا اور روزویلٹ کے خیال میں اسٹالن یہ اشارہ نہیں سمجھے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹالن خود ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ چکے تھے جس کے باعث امریکہ کو عالمی سطح پر پال نطشے کے تیار کردہ منصوبے کے مطابق ایک عالمی سرد جنگ کا آغاز کرنا پڑا۔
ملت محل کے شاہی پلنگ کے ساتھ لکڑی کی ایک میز پر سونے کا ایک ٹیلیفون سیٹ ، خشک میوہ جات کیلئے سونے کا ایک ہینگر، سونے اور ہیرے کی ایک گھڑی ، سونے کا ایک ڈیکوریشن پیس اور سونے کا تین تصویروں کا ایک آرائشی فریم رکھا ہوا ہے۔جس میں رضا شاہ پہلوی، فرح دیبا اور سابق ولیعہد رضا کی تصویریں لگی ہیں۔(جاری ہے) 

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: