اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
– کیا پرویز خٹک کو کے پی کے میں لانچ کر کے جے یو آئی کو نقصان پہنچایا گیا ؟
– کیا میاں نواز شریف کو جو یقین دہانیاں کرائی گئیں ان سے یکدم پیچھے ہٹ گئے ہیں ؟
– کیا باپ کو کھڑا رہنے کا کہہ کے پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود رہنے کا پیغام دیا گیا ؟
– کیا صدارتی ٹویٹ کسی کی آشیرباد سے ہوا یا صدر صاحب خود ہی اپنے آپ کو آشیرباد دے رہے تھے ؟
– کیا چیف جسٹس کا متحرک ہو کے چھوٹی عدالتوں میں زیر سماعت مقدموں پر سماعت شروع کرنا بغیر کسی حمایت سے ہے ؟
– کیا صدر اور چیف جسٹس اپنی آخری جنگ کا آغاز کر چکے ؟
لیکن ہماری ایک ٹوٹر فیلو فرح ذوالقرنین جو کہ ایک ماہر نفسیات ہیں کے ایک ٹویٹ نے توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ دیکھئے وہ کیا کہتی ہیں:
"یہ عمران نامہ بھی اب بند ہونا چاہئیے۔ وہ قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ اس نے جو بویا وہ کاٹ لے گا اللہ کا نظام بہت زبردست ہے۔
اپنے معاملات کی طرف توجہ دیں۔ ہنسی مذاق ضرور کریں لیکن ایک حد تک۔ ہر وقت کے عمران نامے نے بھی لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی ہوئی ہے۔
شکریہ!
پارٹی وابستگیوں سے بالا تر ہو کے سوچئیے کہ ہم واقعی اپنے مسائل کی جڑ تک ہم اس لئے بھی نہیں پہنچ پا رہے کہ ہمارا Rationale ایک ہی جگہ پھنس چکا ہے۔ جس دن ہم اس سے نکل آئے شاید ہم اس قابل ہو سکیں کہ معاملے کی جڑ تک پہنچ جائیں اور متعلقہ لوگوں سے پوچھ سکیں کہ ہمارا حق کہاں لگایا جا رہا ہے ؟
5 دہائیوں سےپاکستان کے وسائل کو افغانستان کی بھٹی میں جھونکا جا رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمیں کیا خوف ہے کہ افغانستان میں اسٹریٹیجک ڈیپتھ ڈھونڈتے پھرتے ہیں ؟
یقین مانیں عوام اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اس پر کوئی بھی ملک قبضہ جما لے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔
دو وقت کا کھانا بھی اب ختم ہو کے ایک کے لالے پڑے ہوئے ہیں
ایک ڈالر کا ایک لیٹر پیٹرول تو شاید امریکہ میں بھی نہیں ہوگا۔ کبھی کیلیکولیٹ تو کریں کہ ایک یونٹ بجلی کتنے میں پڑ رہی ہے۔
ان حالات میں بھی جیوڈیشری اور بیورو کریسی چاہے وہ عسکری ہو یا سول مفت بجلی اور مفت پیٹرول کے مزے اڑا رہی ہے۔
کیا مملکت کو بچاتے بچاتے عوام کا دیوالیہ نہیں نکل چکا ؟
ذرا سوچئے !!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر