اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توہین کی تلاش۔۔۔||محمد حنیف

توہین کی تلاش کا ہمارا سفر طویل ہے اور یہ وہ سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک چرچوں میں، مقدس انجیل میں، مندروں میں، غریب مسیحیوں کی جھونپڑیوں میں، احمدی عبادت گاہوں کے میناروں میں، ان کے قربانی کی جانوروں میں توہین ڈھونڈی ہے۔

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے سینسر نے پاس کی پھر فل سینسر بورڈ نے پاس کی۔ پھر ارادہ بدل کر شریعت کونسل کے پاس بھیج دی۔ وہاں سے سینیٹ پہنچ گئی، سینیٹ نے بھی پاس کر دی۔ سینسر بورڈ نے دوبارہ پاس کر دی لیکن فلم ’زندگی تماشا‘ سینماؤں تک پھر بھی نہ پہنچ پائی۔

فلم کے خالق سرمد کھوسٹ نے بڑی عاجزی کے ساتھ گزشتہ دنوں یہ فلم یوٹیوب پر ریلیز کر دی۔ اس درخواست کے ساتھ کہ اگر دل کرے تو ٹکٹ لے لیں یا ٹکٹ کے پیسے ہدیہ کر دیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ فلم سے کسی کی توہین تو نہیں ہوتی۔

میں اور کچھ دوست فلم کو سینسر بورڈ کے پاس جانے سے پہلے دیکھ چکے تھے اور ہم سیانے یہ مشورہ بھی دے چکے تھے کہ فلم میں کوئی بھی قابل اعتراض چیز نہیں بلکہ ایک دوست نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میاں سرمد تم نے یہ فلم بنا کر اپنی آخرت کا بندوبست کر لیا کیونکہ فلم دیکھ کر سینما سے نکلتے ہوئے لوگ درود شریف پڑھ رہے ہوں گے اور ثواب فلم ساز کو مل رہا ہو گا۔

فلم نے یوٹیوب پر کھڑکی توڑ رش لیا ہے، چند ہی دنوں میں لاکھوں لوگوں نے دیکھ ڈالی۔ میں چونکہ فلم کی کہانی میں ہونے والی ٹریجڈی اور فلم کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی دونوں سے واقف تھا، اس لیے متجسس تھا کہ فلم دیکھنے کے بعد ناظرین کیا کہیں گے۔

فلم کو پسند کریں گے یا نہیں کریں گے سے زیادہ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا انھیں اس فلم میں کسی طرح کی توہین، بدتمیزی، گستاخی ملے گی۔ فلم کو زیادہ تر لوگوں نے پسند کیا، بہت سا پیار بھی فلم بنانے والوں کو ملا، کچھ لوگوں نے کہا یہ تو آرٹ فلم ہے، کچھ کو ذرا سست رو لگی لیکن سب ناظرین نے اس حیرت کا اظہار کیا کہ اس فلم میں تو کچھ بھی ایسا نہیں پھر فلم کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا۔

یہ معصومانہ سی حیرت اس قوم ہاشمی کا خاصہ بنتے جا رہی ہے۔ میں نے ملک کے نئے نئے حکمران اور سب سے بڑے منصفوں کو جڑانوالہ کے بعد تاسف سے (اور مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ تاسف انھوں نے محسوس کیا لیکن جلنے والے چرچوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان کی بدنامی کے ڈر سے) سر ہلاتے دیکھا کہ یہ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔

میں نے بھی کہا یہ فلم میں نے کئی بار پہلے بھی دیکھی ہوئی ہے۔ آپ نے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر پادری اس وقت دیکھے ہوں گے جب ان کے گھر اور عبادت گاہیں جل چکی پوتی ہیں، جب کسی کو زندہ جلا کر مار دیا جاتا ہے، پھر بھی یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کیمرے پر ان کے ساتھ مولانا طاہر اشرفی کو بھی ضرور بٹھایا جائے۔

میرے ذہن کی سکرین پر ایک اور فلم چلنے لگی، جس کے مرکزی کردار کے ساتھ ’زندگی تماشا‘ کے مرکزی کردار سے کہیں زیادہ برا ہوا۔ اس فلم کا مرکزی کردار ایک یونیورسٹی کا استاد ہے اور گزشتہ دس سال سے ایک جیل میں قید تنہائی کاٹ رہا ہے۔ اس کے وکیل کو قتل کیا جا چکا ہے۔ اس استاد کا نام اس لیے نہیں لکھا جا سکتا کہ اس کے خاندان اور دوستوں کو ڈر ہے اگر اس کا نام میڈیا میں آیا تو جیل میں بھی قید تنہائی میں بھی اس کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

دنیا میں ہر جگہ کلاس روم کو ایک محفوظ جگہ سمجھا جاتا ہے۔ بچے اور نوجوان جو باتیں اپنے ماں باپ سے نہیں پوچھتے، استاد سے پوچھ سکتے ہیں۔ استاد بھی ان پر نئے خیالوں کے دروازے کھول سکتے ہیں لیکن اس ملک میں ادب کی ایک کلاس میں گھس کر استاد کی کتابوں میں، اس کے نوٹس میں توہین ڈھونڈی گئی۔

کبھی نہیں بتایا گیا کہ کیا توہین ہوئی تھی۔ وکیل کو اس لیے مار دیا کہ وہ توہین کرنے والے کی وکالت کر رہا تھا جو کہ ظاہر ہے ایک توہین ہے۔ عدالت نے سزا سنا دی، جن کو اپیلیں سننی ہیں وہ جڑانوالہ میں جا کر کیمروں کے سامنے شرمسار ہو رہے ہیں۔

فلم ’زندگی تماشا‘ میں گستاخیوں کا متلاشی ایک کردار دھمکی دیتا ہے کہ میں لگوا دوں نعرہ۔ فلم دیکھنے والے کئی لوگوں نے کہا کہ انھیں اس منظر سے خوف آیا کیونکہ سب کو اندر سے پتا ہے کہ ایک دفعہ نعرہ لگ جائے تو وہ نعرہ واپس نہیں ہوتا۔ بستیاں جل جاتی ہیں، زندگیاں اجڑ جاتی ہیں لیکن کوئی منصف، کوئی صحافی، کوئی سیاستدان یہ نہیں پوچھ سکتا کہ کیا توہین ہوئی۔ کیوں؟ اس لیے کہ سوال پوچھنا بھی توہین کے زمرے میں آئے گا۔

توہین کی تلاش کا ہمارا سفر طویل ہے اور یہ وہ سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ہم نے اب تک چرچوں میں، مقدس انجیل میں، مندروں میں، غریب مسیحیوں کی جھونپڑیوں میں، احمدی عبادت گاہوں کے میناروں میں، ان کے قربانی کی جانوروں میں توہین ڈھونڈی ہے۔

ہم نے یونیورسٹی کی ادب کی کلاسوں میں، عشق رسول میں ڈوبی ہوئی فلموں میں، سیاست دانوں کی تقریروں میں، بلاگوں اور وی لاگوں میں، ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے والوں اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والوں میں، ججوں اور وکیلوں میں، اپنے گانوں اور ترانوں میں توہین ڈھونڈی ہے۔

تلاش اب بھی جاری ہے۔

نعرہ لگ چکا ہے اور جلی ہوئی بستیوں کی راکھ میں اپنے سلامتی والے دین کی نیک نامی اور اپنے پیارے ملک کی بدنامی ڈھونڈ رہے ہیں۔ کوشش جاری رکھیں، شاید مل ہی جائے۔

( بشکریہ : بی بی سی اردو )

 محمد حنیف کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: