مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رانی پور کی کم سن فاطمہ!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

امی اس وقت تک کپڑے سیتی رہیں جب تک ان کی نظر اور کمر نے ساتھ دیا شاید پینسٹھ چھیاسٹھ کی عمر تک۔ سولہ برس کی لڑکی نے پچاس برس تک یہ اننگ کھیلی اور وہ بھی بلا معاوضہ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

طیبہ، ارم، رضوانہ، زہرہ شاہ، ایمان فاطمہ، عندلیب فاطمہ، سونیا، شبانہ۔ اور اب فاطمہ!
ہائے فاطمہ۔ وہ دل خراش وڈیو جس میں فاطمہ بار بار فرش سے اُٹھنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اُٹھ نہیں پاتی۔ نہ جانے کتنی ہڈیاں ٹوٹی ہیں؟ نہ جانے کہاں کہاں سے خون بہہ رہا ہے؟

بے سدھ سویا ہوا نیم برہنہ مرد اٹھتا ہے، بے دردی سے فاطمہ کا بازو پکڑ کر کھینچتا ہے اور مردہ پا کر پھر سے فرش پر پھینک دیتا ہے۔ وہ اپنی وحشت کی آگ میں فاطمہ کو جلا کر راکھ کر چکا۔ نئی بات نہیں اس کے لیے۔ نہ جانے کتنی فاطمائیں یونہی مر چکیں؟ فاطمہ کا فرش پہ پڑا ٹوٹا پھوٹا جسم مالکان کو انسانی جسم نہیں لگتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ شاید کوئی پلاسٹک سے بنی بیٹری سے چلنے والی گڑیا تھی، جس سے مالک نے کھیلا، توڑا پھوڑا اور پھر پھینک دیا۔ کھیل ختم، پیسہ ہضم!

دل دہل جاتا ہے دیکھ کر۔ کون لوگ ہیں یہ؟ اکیسویں صدی کے فرعون؟
سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔ ‎ ( زہرہ نگاہ)

ہم دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ گول گول، ایک نہ ختم ہونے والا کھیل۔ وحشت و بربریت، غربت اور چھوٹی بچیوں کا کھیل! چہرے بدل جاتے ہیں، دن مہینہ سال وہ نہیں رہتا، شہر بھی کبھی کوئی کبھی کوئی! نہیں بدلتا کچھ تو کردار نہیں بدلتے، سٹیج پر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ کرداروں کی پرفارمنس بھی وہی۔ پچھلے والوں سے ملتی جلتی۔

کہیں پر چہرہ جلتا ہے۔
کہیں ہڈیاں توڑی جاتی ہیں۔
کہیں ٹھنڈے کمرے میں بلا کر ریپ کیا جاتا ہے۔ اور کہیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔

سٹیج پر موجود طاقتور کردار کم سن اداکاروں پر ظلم کی منظر کشی کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ سٹیج کے پیچھے موجود بیوپاری اپنا خام مال بھرتی کروانے سے چنداں دریغ نہیں کرتے اور تماشائیوں کی اکثریت ان ننھے کرداروں کی بلا جواز موجودگی سے نہ چونکتی ہے، نہ احتجاج کرتی ہے۔

بس ہم جیسے کچھ دیوانے کسی گوشے میں بیٹھ کر آنسو بہاتے ہوئے قلم ہاتھ میں تھام لیتے ہیں کہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو نوحہ ہی لکھ ڈالیں۔

کس کس کا لکھیں مگر؟ لرزتا ہوا دل، کانپتی روح اور انگلیاں فگار۔
میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں سے ہم تک یہ اطلاعات پہنچتی ہیں:

2014 میں لاہور کی رہائشی ناصرہ بی بی نے دس سالہ ارم رمضان پہ اس قدر تشدد کیا کہ وہ سروسز ہسپتال پہنچ کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
2014 میں لاہور اندرون شہر کے رہائشی نے پندرہ سالہ عذرا پہ جنسی تشدد کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر مار ڈالا۔
2014 میں لاہور کے رہائشی وکیل نے بچی شازیہ مسیح کا گلا گھونٹ کر مار دیا۔

2016 میں اسلام آباد کے رہائشی جج راجہ خرم علی خان اور بیگم کے ہاتھوں دس سالہ طیبہ پر بری طرح تشدد کیا گیا۔
2016 میں راولپنڈی کے رہائشی مالکان کے گھر سے اکثر رات کو رونے کے ساتھ یہ فریاد سنائی دیتی، باجی مجھے باہر نکالو، میں مر جاؤں گی۔ ہمسایوں نے پولیس کو رپورٹ کیا۔
2016 میں لاہور کی رہائشی مالکن نے دس سالہ نازیہ شوکت کے بازو کی ہڈیاں توڑ ڈالیں۔ گھر آنے والے ایک الیکٹریشن نے پولیس کو اطلاع دی۔

2017 میں ملتان کے رہائشی نے دس سالہ بچی کو مار مار کر جسم پہ نیل ڈال دیے اور جگہ جگہ سے جلد اکھڑ گئی۔

2018 رحیم یار خان کے رہائشی نے تیرہ سالہ بانو کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا جس سے اس کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ چھ ماہ بعد چل بسی
2018 میں راولپنڈی کی رہائشی آرمی میجر عمارہ ریاض نے گیارہ سالہ کنزہ کو بسکٹ کھانے کے جرم میں مار مار کر شدید مضروب کر ڈالا۔

2019 فیصل آباد کے رہائشی سونیا اور رانا اویس نے سات سالہ ماریہ پر بری طرح تشدد کیا۔

2020 فیصل آباد کے رہائشی رانا منیر اور ثمینہ رانا نے گیارہ سالہ بچی صدف کو بری طرح زد و کوب کیا۔
2020 میں راولپنڈی کے حسن صدیقی اور بیگم نے توتے کا پنجرہ کھول دینے کی سزا میں سات سالہ زہرہ شاہ کو اس قدر مارا کہ بچی موت کے گھاٹ اتر گئی۔
2020 میں فیصل آباد کے رہائشی رانا منیر نے گیارہ سالہ صدف پر بری طرح تشدد کیا۔

2021 چک جھمرا کے رہائشی عبدالرزاق، بیوی سونیا اور سسر نے مل کر چودہ سالہ نسرین پر اس قدر تشدد کیا کہ سڑک سے گزرنے والے راہگیر نے نسرین کی چیخیں سن کر پولیس کو اطلاع کی۔
2021 میں لاہور کے رہائشی نے تیرہ سالہ عطیہ کو آدھی رات کو گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ سڑک پر بیٹھی رو رہی تھی کہ کسی نے دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی۔
2021 میں ڈی جی کوٹ کے رہائشی میاں فرخ کے گھر مقیم اٹھارہ سالہ سمیرہ بی بی نے پنکھے سے لٹک کر خود کشی کر لی۔ بچی کے گھر والوں نے بتایا کہ میاں فرخ یار بچی پہ تشدد کرتا تھا۔
2021 ایڈن ویلیو ہومز لاہور کی رہائشی سکول ٹیچر مدیحہ نے گیارہ سالہ بچی کے جسم کو گرم استری سے داغ دیا۔

2022 میں بہاولپور کے رہائشی نے پھل چوری کرنے کی پاداش میں دس سالہ کامران کو اس قدر پیٹا کہ وہ ہسپتال جا کر چل بسا۔

2023 میں اسلام آباد کے رہائشی جج کی بیگم نے چودہ سالہ رضوانہ پر اس قدر تشدد کیا کہ وہ آئی سی یو جا پہنچی۔
2023 میں اسلام آباد کی ایک خاتون نے تیرہ سالہ عندلیب فاطمہ کو گرم چمچ سے مار مار کر جسم کو زخمی کر دیا۔
2023 میں فیصل آباد کے رہائشی افتخار فیملی نے سات سالہ ایمان اور چھ سالہ فاطمہ کے جسم کو گرم چمچ سے جلانے کے بعد پنکھے سے الٹا لٹکا دیا گیا۔ ان پر روٹی چرانے کا الزام تھا۔

فاطمہ کے لیے گریہ کرتے ہوئے ہم نے ان سب بچیوں کو یاد کیا جن کے ساتھ کیا گیا ظلم رپورٹ ہوا۔ ہم نہیں جانتے کہ کتنی گمنام بچیاں اور بچے کہاں کہاں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے؟ ان کی قبروں پہ تو کسی نے کتبہ بھی نہیں لگایا ہو گا۔

جب بھی میڈیا میں خبر آتی ہے بہت سے لوگ دل تھام کر خبر پڑھتے ہوئے خون کے آنسو روتے ہیں، کچھ نوحے لکھتے ہیں۔ پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس وقت تک، جب تک ایک اور کردار سٹیج پر نہ آ جائے۔ مگر ۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ مگر سوچیے کیا اتنا کافی ہے؟

نہیں۔ یہ کافی نہیں! ہم سب کو کھڑا ہونا ہو گا۔ انگلی اٹھانی ہو گی۔ اشارہ کرنا ہو گا۔ جہاں بھی کوئی ننھی بچی یا بچہ اپنے والدین کی بھوک کا جہنم بھرتا ہوا نظر آئے۔

کیوں؟
اس لیے کہ پیدا کرنے والے بھی احساس سے عاری اور دیکھ کر چپ رہنے والے بھی!
اپنی ننھی بچیوں کو کمائی کی غرض سے لوگوں کے گھر بھیجنے والے بھی خود غرض اور اس دھندے کو چلانے والے بھی!
ننھی بچیوں کو اپنے گھروں میں کام پر رکھنے والے بھی ظالم اور ان کے ننھے جسموں کو روندنے والے بھی!

کیا فاطمہ کے بہیمانہ جنسی قتل سے دین کی حرمت متاثر نہیں ہوتی کہ نہ مسجدوں میں اعلان ہوتا ہے نہ کوئی ہجوم اکٹھا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ان پیروں فقیروں کا گریبان پکڑتا ہے؟

بات کو سمیٹنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ یونی سیف کی رپورٹ کے مطابق غریب ملکوں میں تیس فیصد بچے مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بارہ ملین بچے مزدوری کرتے ہوئے رزق کما رہے ہیں۔ وہی رزق جس کے متعلق ان کے ماں باپ کا خیال ہے کہ ہر بچہ اپنا رزق لے کر پیدا ہوتا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ روز حساب مالک کے حضور آپ کے روزنامچے پر چھوٹے بچوں کے تشدد پہ خاموش رہنے کا الزام نہ لکھا ہو تو مطالبہ کیجیے کہ بچوں کی مزدوری پر پابندی لگائی جائے۔ اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، انگلی اٹھا کر اشارہ کیجیے جہاں بھی کوئی بچہ موجود ہو۔ کہیے کہ یہ غلط ہے۔ بتائیے کہ آپ ایسے لوگوں سے سماجی تعلق نہیں رکھنا چاہتے جہاں کوئی بھی بچہ گھر میں کام کرتا ہوا نظر آئے۔ حقہ پانی بند کیجیے!
شاید کوئی بچہ بچ جائے!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: