مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نگران حکومت کو طاقتور وزیر خزانہ کی ضرورت ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انوار الحق کاکڑ کی بطور نگران وزیر اعظم حیران کن تعیناتی نے مجھ سادہ لوح کو یہ باور کرنے کو اکسایا کہ وطن عزیز میں سیاسی منظر نامے تشکیل دینے والی ”ڈیپ سٹیٹ“ یا ”دریں دولت“ نہایت خاموشی سے ایک حکمت عملی تیار کرچکی ہے۔ ممکنہ حکمت عملی کا اولیں ہدف نگران حکومت کو ایسی ٹیم فراہم کرنا ہے جو اقتدار سنبھالتے ہی برسوں سے جمع ہوئے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے برق رفتاری سے ایسے اقدامات لینا شروع کردے جو ووٹوں کی محتاج حکومتوں کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ بدھ کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنے تک مگر نگران حکومت کے کلیدی وزراء کا چناؤ بھی نہیں ہوا تھا۔ اس ضمن میں پریشان کن تاخیر وزیر خزانہ کی تعیناتی کے ضمن میں اختیار ہوئی نظر آ رہی ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ہمیں تواتر سے بتایا جا رہا تھا کہ نگران حکومت کی اولین ترجیح آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد یقینی بنانا ہے۔ اس تناظر میں تغافل عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو ہمارے لئے ایک ارب ڈالر کی ایک اور قسط کے اجراء سے روک سکتا ہے۔ مطلوبہ رقم کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ آئندہ ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کی ٹیم کو اعتبار دلایا جائے کہ ستمبر 2023 ء کے اختتام تک وہ فیصلے لاگو کر دیے گئے ہیں جن کے اطلاق کا وعدہ پہلی قسط کے حصول کے لئے ہوا تھا۔ جن اہداف کا حصول مقصود ہے ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ہمیں ایک با اختیار وزیر خزانہ درکار ہے۔ ایسا ”نابغہ“ وزیر مگر یہ کالم لکھنے تک ”دریافت“ نہیں ہوا تھا۔
ہم صحافیوں کی اکثریت یہ فرض کر چکی تھی کہ آئی ایم ایف کے دیرینہ چہیتے ڈاکٹر حفیظ شیخ نگران وزیر اعظم تعینات کر دیے جائیں گے۔ وزارت خزانہ کا منصب وہ کسی اور کے سپرد نہیں کریں گے اور حلف اٹھانے کے پہلے روز ہی آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ حفیظ شیخ کی تعیناتی کے امکان کو مگر شہباز حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے یکسو ہو کر ناممکن بنا دیا۔ نواز شریف اس امر پر ڈٹے رہے کہ اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل (Continuity) یقینی بنانے کے لئے شہباز شریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہی کو نگران وزیر اعظم تعینات کر دیا جائے۔
آپ سے کیا پردہ۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں اس ”خبر“ کو افواہ تصور کرتا رہا جو دعویٰ کر رہی تھی کہ نواز شریف اپنے قریبی عزیز اسحاق ڈار صاحب کو نگران وزیر اعظم تعینات کروانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مجھے گماں تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کی شرائط پر کامل عملدرآمد نگران حکومت کو عوام کی نگاہ میں غیر مقبول بنا دے گا۔ اس کی جانب سے لئے فیصلوں کی بدولت مہنگائی کے عذاب میں مزید شدت آئے گی۔ ڈار صاحب اگر نگران وزیر اعظم نامزد ہو گئے تو عوام پر مزید مشکلات نازل کرنے کا فقط ان کی ذات ہی کو نہیں بلکہ مسلم لیگ (نون) کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا جو اپریل 2022 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مسلسل اپنے ”ووٹ بینک“ کو تباہ و برباد کرچکی ہے۔
چند باخبر لوگوں نے مگر مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک دو ماہ کی مشکلات کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے برادر ملک کے تعاون سے کچھ ایسے طویل المدت اور ”میگا پراجیکٹ“ کا آغاز ہو سکتا ہے جو لوگوں کے لئے ”اچھی خبر“ یا فیل گڈ ماحول بنانے کا باعث ہوں گے۔ ڈار صاحب نے مذکورہ منصوبوں کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے کیرئیر کے کئی برس انہوں نے متحدہ عرب امارات میں کامیاب کاروباری گروہوں کے ساتھ شراکت میں بھی گزارے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب میں بھی نواز شریف کے دیرینہ خیرخواہ موجود ہیں۔ غالباً انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لئے ہی وہ لندن سے ان دو ملکوں میں چند ہفتے گزارنے آئے تھے۔ اسحاق ڈار کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی کے لئے غالباً وہ اس لئے مصر تھے کہ شہباز حکومت سے معاشی اعتبار سے جڑی ”تلخ ’‘ حقیقتوں کے برادر ممالک کے تعاون سے ازالے کی جو کوششیں ہوں ان کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ (نون) حاصل کرے۔ “ راجہ ریاض ”مگر ڈار صاحب کی تعیناتی پر رضا مند نہ ہوئے۔ حفیظ شیخ اور اسحاق ڈار کے مابین معاملہ“ اٹک ”گیا تو جلیل عباس جیلانی“ ڈارک ہارس ”کی صورت ابھرنا شروع ہو گئے۔
انتہائی باخبر حضرات سے گفتگو کے بعد میں اعتماد سے یہ لکھ سکتا ہوں کہ مقتدر قوتیں جیلانی صاحب کو نگران وزیر اعظم تعینات کرنے پر آمادہ ہو چکی تھیں۔ نواز شریف کو مگر ان کی جماعت نے قائل کر دیا کہ جیلانی صاحب کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی یہ پیغام دے گی کہ مذکورہ عہدے پر ”پیپلز پارٹی کا بندہ“ تعینات ہو گیا ہے۔ وہ ذرائع جن پر میں اعتماد کر سکتا ہوں یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ کاکڑ صاحب کی حیران کن تعیناتی سے فقط ایک دن قبل مسلم لیگ (نون) کے اہم رہ نما سردار ایاز صادق نے راولپنڈی میں ایک اہم شخصیت سے علی الصبح ملاقات کی تھی۔ اس کے دوران جیلانی صاحب کی بابت مسلم لیگ (نون) کے تحفظات کا اظہار ہوا۔ اس کے بعد قرعہ فال کاکڑ صاحب کے نام نکلا جنہیں درحقیقت بلوچستان کا نگران وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے لئے ”تیار“ کیا جا رہا تھا۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو گیا ہے۔ میری اصل فکر مندی وزیر خزانہ کی بدھ کی صبح تک عدم موجودگی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کی تعیناتی کے بغیر ہی منگل کی شب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک اور بھاری بھر کم اضافے کا اعلان ہو چکا ہے۔ مسئلہ فقط اس اضافے تک ہی محدود نہیں رہا۔ منگل کے دن ڈالر کی انٹربینک میں قیمت میں یک دم تین روپے سے زیادہ کا اضافہ بھی ہو گیا ہے۔ بینکوں کے ذریعے ڈالر کی قیمت 291 اور 292 روپے کے درمیان چلی گئی تو کھلے بازار میں اس کی قیمت 300 روپے سے بھی تجاوز کر گئی۔ غیر ملکی کرنسی کی قدر کا پروفیشنل انداز میں جائزہ لینے والے مصر ہیں کہ منگل کے روز ڈالر کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ ”اچانک“ نہیں ہوا۔
منگل کے دن ہمارے بینکوں نے تیل اور دیگر بنیادی اشیاء کی درآمد کے لئے 40 سے 50 ملین ڈالر کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔ غالباً بدھ کے دن بھی ایسی درآمدات کے لئے اتنی ہی رقم کا اجراء لازمی ہو گا۔ لیٹر آف کریڈٹ کی وجہ سے آئے پریشر نے ڈالر کی قیمت کو مہمیز لگادی۔ ڈالر کی قیمت کے بے قابو ہو جانے کا ایک سبب افغانستان بھی ہے۔ ہمارے ہاں افغانستان اور ایران سے آئے ”مال“ کے ”خریدار“ اپنی ”درآمدات“ کی قیمت ڈالروں میں ادا کرتے ہیں۔ جو تجارت ہوتی ہے وہ عموماً باقاعدہ ”نہیں ہوتی۔ اس“ تجارت ”کے حجم کو ذہن میں رکھتے ہوئے کابل کے بازار میں پاکستانی روپے کی قدر بھی ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ منگل کے روز افغانستان کے کرنسی بازار میں ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 312 روپے کے عوض مل رہا تھا۔ ہمارے کرنسی کے بازار اس بھاری بھر کم قیمت کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
قصہ مختصر ڈالر کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک طاقتور اور ”دھندے“ کی باریکیاں سمجھنے والے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو بدھ کی صبح تک دریافت نہیں ہوا تھا۔ اس کی عدم موجودگی مجھے یہ سوچنے کو مجبور کر رہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں بنائی نگران حکومت بھی ”ڈنگ ٹپاؤ“ ہی رہے گی اور اس سے ”انقلابی“ فیصلوں کی توقع خام خیالی ہوگی۔ یہ لکھنے کے بعد اگرچہ گھبرائے دل سے رب کریم سے یہ فریاد بھی کر رہا ہوں کہ میرے خدشات قطعی غلط اور بے بنیاد ثابت ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: