اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"استاد” اطہر محبوب اور جامعہ بہاولپور  !||رانا محبوب اختر

انسانیت کی تاریخ کا یہ اہم ترین مقدمہ 399 قبل مسیح میں چلایا گیا۔ عدالت پارلیمان کے پانچ سو ارکان پر مشتمل تھی۔ سقراط پر دو الزام تھے۔ ایک یہ کہ وہ ایتھنز کے خداؤں کو نہیں مانتا اور دوسرا یہ کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ھے۔  مقدمے کی کاروائی نو سے دس گھنٹے جاری رہی۔ اپنے دفاع میں سقراط نے جو تقریر کی وہ خطابت اور فلسفے کی تاریخ کا شاہکار ہے!

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” میری عمر ستر سال ہے۔ مجھے تقریر کے فن میں مہارت ہے اور نہ ہی خطابت میرا میدان ہے۔ عمر کے اس حصے میں آپ کو لچھے دار باتوں سے لبھانے کا کوئی شوق نہیں۔ میں پہلی بار کسی عدالت میں پیش ہوا ہوں ۔آپ نے میرے سٹائل پر نہیں جانا اور بس یہ سوچنا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے یا نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے شہر کی اشرافیہ کمینی ہے !” سقراط ایتھنز کی عدالت میں اپنا دفاع کر رہے تھے۔
انسانیت کی تاریخ کا یہ اہم ترین مقدمہ 399 قبل مسیح میں چلایا گیا۔ عدالت پارلیمان کے پانچ سو ارکان پر مشتمل تھی۔ سقراط پر دو الزام تھے۔ ایک یہ کہ وہ ایتھنز کے خداؤں کو نہیں مانتا اور دوسرا یہ کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ھے۔  مقدمے کی کاروائی نو سے دس گھنٹے جاری رہی۔ اپنے دفاع میں سقراط نے جو تقریر کی وہ خطابت اور فلسفے کی تاریخ کا شاہکار ہے!
سقراط نے کہا: ” میرے اوپر الزام ہے کہ میں لوگوں کو بدی کی طرف مائل کرتا ہوں۔ سوال کرنا سکھاتا ہوں۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ میں ایک ایسا استاد ہوں جو پڑھانے کا معاوضہ لیتا ہے۔ آپ میرے ہمسایوں سے معلوم کر سکتے ہیں کہ میں مشاہرے کے لئے کام نہیں کرتا۔ ایتھنز والو! سنو میرے پاس کوئی الوہی دانائی نہیں ہے۔ ایک عام آدمی ہوں۔ عقل میری رہنما ہے۔ میرا جرم یہ ہے کہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ جو مشہور ہیں بہت جاہل ہیں اور جو خاک نشیں ہیں وہ زیادہ دانا اور نیک ہیں۔”
موسی سے مارکس تک ماضی، حال اور مستقبل کی تاریخ  سقراط کے ایک جملے میں بند ہے۔ تاریخ کا ارتقاء محنت کشوں، کسانوں، کمیوں، اچھوتوں، موہانوں، ملاحوں، ہنرمندوں اور سقراط صفت فلسفیوں کی محنت اور دانائی کا قصہ ہے۔ مارکس سے بہت پہلے سقراط نے یہ کہا کہ یہ جو عام لوگ ہیں؛ تاریخ کی شونیتا ہیں ۔ اشرافیہ ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ گڈریے،بھیڑوں کی نہیں اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں!
ایتھنز کے مقدمے میں شاعروں، سیاستدانوں اور ہنر مندوں کے نمائندے سقراط کے خلاف دلائل دینے آئے۔ ملیطس، شاعروں اور انیطس دباغوں اور موچیوں کی طرف سے پیش ہوئے۔ لائیقان نے خطیبوں کی طرف سے سقراط کے خلاف دلائل دینے۔ سقراط نے اپنے جواب میں کہا کہ سیاستدانوں، شاعروں اور ہنرمندوں میں سے کوئی  دانا نہیں ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ یہ سب اپنے آپ کو دانا سمجھتے ہیں۔ اس لئے جب چیروفون نے ڈیلفی کے اوریکل سے پوچھا کہ ایتھنز میں دانا کون ہے تو غیبی آواز نے کہا کہ سقراط سب سے زیادہ دانا ہے اور وہ اس لئے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ دانائی اپنی اصل میں نہ جاننے کے شعور کا نام ہے۔ نہ جاننا، جاننے کی بنیاد ہے۔ سوال اتم دانائی ہے!
سقراط سے گیانی کو اپنی انسانی خامیوں کا احساس تھا۔ ڈیلفی کی دیوبانی کے بعد سقراط کو خیال آیا کہ وہ ایتھنز میں کسی دانا آدمی کو ڈھونڈھے اور اس بات کا رد سامنے لائے کہ وہ دانا نہیں۔ افلاطون کا استاد ایسا دیوانہ تھا کہ دیوتاؤں کی بات پر سوال اٹھاتا تھا۔ اپنے بارے میں دانائی کی بات سقراط کو کَھلنے لگی تھی۔ اسے زیادہ دانا آدمی کی تلاش تھی۔ اس لئے سقراط سب سے پہلے ایک ایسے سیاستدان کے پاس گیا جو دانش مند مشہور تھا۔ سقراط نے عدالت کو بتایا کہ :” اس سیاستدان کو کچھ معلوم نہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ اسے سب معلوم ہے۔ میرے خیال میں اس لحاظ سے میں اس سے برتر ہوں” سیاستدانوں سے مایوس ہو کر سقراط نے شاعروں کو دانائی کی کسوٹی پہ پرکھا۔ ان کے پیچیدہ کلام کو سمجھنے کی کوشش کی۔ شعراء کے بارے میں سقراط اس نتیجے پر پہنچا :” شاعر، اپنی شاعری دانائی کی بجائے فطری صلاحیت اور القاء سے تخلیق کرتے ہیں ۔شاعر بھی مشہور ہو کر سیاستدانوں کی طرح یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انھیں سب کچھ معلوم ہے۔ جب کہ یہ سچ نہیں ہے۔ میں کسی ایسی چیز کو جاننے کا دعوٰی نہیں کرتا جو مجھے معلوم نہ ہو۔” ہنرمندوں اور دست کاروں کے بارے میں سقراط نے عدالت کو بتایا : ” سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت سی چیزیں مجھ سے بہتر جانتے تھے۔ ہنر مند، کاریگر اور کمی مجھ سے دانا ہیں۔ لیکن ہنرمند بھی شاعروں کی طرح یہ مانتے ہیں کہ ان کی ہنرمندی نے انھیں دانائی عطا کر دی ہے۔”
سقراط نے کہا کہ فلسفہ دانائی کی تلاش کا نام ہے اور سب سے افضل علم ہے۔ دانائی کے اوتار، سقراط کو یونانی پارلیمان کے پانچ سو ارکان میں سے 280 ممبران نے موت کی سزا سنائی۔ سقراط زہر کا پیالہ پی کر امر ہو گیا اور اس کے قاتل تاریخ کے ہاتھوں مارے گئے!
ستائیس سو سال پہلے مرنے والا سقراط انسانیت کی تاریخ میں دانائی کا استعارہ بن کر زندہ ہے اور ملیطس ، انیطس، لائیقان جیسے وکلاء اور جیوری کے ممبران کے نام آدمی کے حافظے سے حذف ہو گئے ہیں۔ تاریخ کی عادت عجب ہے۔ عالی مرتبت لوگوں کو مار کر امر کرتی ہے اور کمینوں کو زندہ رکھ کر مارتی ہے۔ زمین اور عورتیں اپنے لئے مرنے والے صادقین اور عاشقین کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ محمود درویش بتاتے ہیں:
میں جانتا ہوں، عورتیں آئینوں کے سوا
اپنے تمام عاشقوں کے لئے بے وفا ہوتی ہیں
وہ اپنے تمام عاشقوں کو بھول جاتی ہیں
سوائے ان کے جو مر چکے ہوں
زمین بھی جان دینے والوں کے سوا
اپنے تمام عاشقوں کو بھول جاتی  ہیں
دکھ یہ ھے کہ استاد سقراط کے ساتھ مجھے بہاولپور یونیورسٹی کے "استاد” اطہر کا ذکر کرنا ہے۔  ملتان کی جامعہ بہائیہ اور اچ کے مدرسہ فیروزیہ کی مسلم صوفی فتوح کی روایت اور بہاولپور کے قدیم سوئی وہار کی علمی روایت ٹیکسلا، وکرم شیلا اور نالندہ جیسی جامعات کی شونیتا سے ملی ہوئی ہے۔ پاننینی کی گرائمر، بہاؤالدین زکریا کا فتا کا فلسفہ اور منھاج سراج جیسے علم و عرفان کے استعارے ہماری تاریخ ہیں۔ سندھ وادی ایتھنز سے قدیم اور بڑی ہے۔ ہم عصر تاریخ میں "استاد” اطہر جیسے لوگ علم اور سچائی کا استعارہ نہیں، کولونیل نظام اور نصاب کے پیدا کردہ عفریت ہیں! جامعہ بہاولپور کے شاندار اساتذہ کی اکثریت، ہونہار طلباء ، سیٹھ عبید الرحمن کے خاندان کے گورنر اور ڈویژن کے نیک نام کمشنر کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہر سال داخلوں کے موسم میں ڈیرہ اسماعیل خان سے بہاولپور تک کی جامعات میں جنسی شورش کا غلغلہ کیوں بلند ہوتا ہے؟ آدم سے آج تک، ہر زمانے میں جنس، آدمی کی مخفی کہانی کا اہم جزو رہی ہے، مگر اسے پوری داستان اور کُل سمجھنا حماقت ہے۔ راسپوٹین انسانی تاریخ کے حاشیے پر ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ "استاد” اطہر اور جھوٹے سیاستدانوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں مگر اساتذہ کی غالب تعداد، طلباء اور والدین سے عقیدت بھری محبت ہے اور ان سے عرض ہے کہ ” یہ بھی گزر جائے گا۔”
سقراط سے معذرت کے ساتھ ہم "استاد” اطہر کے لئے اک بیان لکھوائے دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے وکیل ہونے کے باوجود ہم نے یہ بیان "استاد” کے لئے بغیر فیس کے لکھا ہے۔ "استاد” یہ بیان عدالت میں پیش کرکے ہر الزام سے بری ہو سکتے ہیں :
” میری نظر میں اساتذہ حقیر ہیں اور افسر، سیاستکار اور صحافی معزز ہیں۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ نوآبادیاتی ملکوں میں نظام کولونیل ہے۔ بیویاں ظالم ہیں۔ اشرافیہ کمینی ہے۔ سٹرکچرل کولونیل ازم میں جکڑے ہوئے سماجوں میں کمینگی اور بدعنوانی قواعد اور قوانین کے مطابق ہوتی ہے۔ اشرافیہ  سفارش اور skewed process سے استاد کو وی سی بناتی ہے۔ وی سی ہونا بادشاہ ہونا ہے اور بادشاہ کا بدعنوان ہونا تاریخ کا عمومی عمل ہے۔ میں نے جرم نہیں، بادشاہی کی ہے۔  بہاولپور اور سرائیکی خطے کی مقامی دانش طاقت کی حماقتوں سے واقف ہے۔ وسیب کے مقامی لوگ بیوقوف آدمی کو ” بادشاہ”  کہتے ہیں۔” معاوضے کے لئے کام کرنے والے "استاد” اطہر محبوب نے ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے ایسا شاندار دفاع کیا کہ ٹیم نے زحمت کے لئے معذرت کی اور "استاد” کو کلیں چٹ دائیں ہاتھ میں تھما دی !

%d bloggers like this: