مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تہران میں 7لاکھ مربع فٹ رقبہ پر کتابوں کا باغ(6)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تہران

تہران میں 7لاکھ مربع فٹ رقبہ پر کتابوں کا باغ

رضا شعبانی انقلاب اور دفاع میوزیم سے باہر نکلتے ہوئے ہم سے تھکاوٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم ایران دیکھنے آئے ہیں، تھکاوٹیں اُتارنے نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر یہاں سے پیدل چلتے ہوئے ہم “بوستان کتاب ” کی کتاب کی جانب چلتے ہیں۔ اب ہم چلتے چلتے انقلاب اور جنگ کے عجائب گھر کے احاطے سے نکل کر ایک کشادہ راستے پر آگئے۔ ہمارے دائیں جانب گھاس، پودوں، پھولوں، تالابوں، فواروں، جھیلوں اور خوشبوؤں کا ایک باغ ہے۔ بائیں جانب ایک دیوار ہے جسےمختلف قسم کی بیلوں نے مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے۔ دائیں جانب کے باغ میں لوگ سیروتفریح کر رہے ہیں۔ کوئی ہجوم نہیں، کوئی شوروغل نہیں، کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی اشیائے خوردونوش بیچنے والوں کی آوازیں نہیں، کہیں بھوک سے بلبلاتے، چیختے چلاتے بچوں کی آوازیں نہیں۔ یہ ایک تھکے ہوئے، ناانصافی کی مار کھائے، پابند اور اسیر سیاسی عمل کی مار کھائے ہوئے سماج کے لوگ نہیں۔ یہ ایک انقلاب کے تجربے سے گزر اور پتھروں کو پیسنے والی میں نکل کر زندگی کی راہداریوں میں آئے ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو جنم جنم سے خوابوں کے سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک کر اُکتا چکے ہیں۔ لہذا ہم کہیں ایسے باغوں کو دیکھ لیں تو ہماری حسرتیں جاگ پڑتی ہیں۔
ہم ایک ایسے چوک پر آتے ہیں جہاں مختلف مقامات کی سمتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ باغِ ہنر، باغِ نمائش، دریاچہ نہر اور موزہِ(میوزیم) دفاع مقدس ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں۔ جبکہ باغِ کتاب، باغِ غذا اور کتابخانۂ ملی تک پہنچنے کیلئے آگے چلنے کی رہنمائی کی گئی ہے۔ ہم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
باغ کتاب کو سات لاکھ مربع فٹ رقبہ پر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں پر مختلف مضامین، موضوعات ، علوم اورفنون پر لاکھوں کتابیں رکھی گئی ہیں۔ رضا شعبانی بتاتے ہیں کہ باغِ کتاب کا تصور 2004ء میں مسلسل کتب میلوں کے انعقاد سے سامنے آیا۔ تہران میں سال بھر کتب میلوں کا انعقاد ہوتا رہتا تھا، جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی اور مختلف موضوعات کی کتابوں میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتی۔ ایسے کتب میلے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر تواتر سے منعقد ہوتے رہتے۔ خاص طور پر بین الاقوامی کتب میلہ لوگوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتا ۔ تہران کے شہری سال بھر اس عالمی کتب میلہ کا انتظار کرتے۔
باغ کتاب، کتابوں کا ایسا مرکز ہے، جہاں صرف بچوں کیلئے چار لاکھ مختلف موضوعات کی کتابیں ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہاں بچوں کیلئے مجموعی طور پر چارلاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہے بلکہ چار لاکھ الگ الگ ٹائیٹل کی اس تعداد سے کہیں زیادہ کتابیں صرف بچوں کیلئے موجود ہیں۔
یاد رہے کہ گنیز بُک ریکارڈ کے مطابق 1999ء تک دنیا کا سب سے بڑا انفرادی بُک اسٹور نیویارک میں پانچویں ایونیو پر بیمز اینڈ نوبل نامی اسٹور تھا جو ایک لاکھ 54 ہزار فٹ رقبہ پر پھیلا ہوا تھا۔ اور تہران کے باغِ کتاب کے بارے میں آپ جان چکے ہیں کہ یہ سات لاکھ فٹ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

Advertisement

ہم باغِ کتاب میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اویس ربانی کتابوں کے باغ دُور تک چلے جاتے ہیں، زین نقوی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ میں منظر نقوی اور رضا شعبانی کے ساتھ مختلف علوم کتابوں کے شیلفوں کے ساتھ ساتھ آرام سے چلتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں۔ یہ زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ یہاں کتابوں کے خریدار ٹرالیاں ہاتھ میں لئے مختلف شیلفس کے پاس جا کر کتابوں کا یوں انتخاب کر رہے ہیں جیسے وہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر راشن یا کسی دوسری ضروری استعمال کی اشیاء کی خریداری کرنے آئے ہوں۔
ہزاروں ریکس میں رکھی کتابیں اپنا علم منکشف کر رہی ہیں۔ وہ یہاں آنے والے کتب بینوں سے مکالمہ کرتی ہیں۔ دیواروں پر اور خلاء میں ایرانی شاعروں، سائنسدانوں، دانشوروں، مصوروں، ہنرمندوں، کاریگروں، ادیبوں اور مصنفین کی تصاویر لٹکی ہوئی ہیں۔ یہاں مختلف شعبوں کی الگ الگ کتابیں رکھی گئی ہیں۔ شاعری، ناول، داستان، افسانہ، سائنس، سائنسی فکشن، ریاضی، طبعیات، کیمیا، طب، انجینئرنگ، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، آرکیالوجی، علم نجوم، فلکیات، نظم، غزل، حکایات، مثنویاں اوردیگر ادبی، سیاسی، سائنسی، سماجی اور فقہی موضوعات پر الگ الگ شعبوں میں الگ الگ کتابیں رکھی ہیں۔ یہاں میر انیس یاد آتے ہیں، حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔
اگر اس کتاب باغ کے رقبے میں ایکڑوں میں پیمائش کی جائے تو یہ کتاب باغ 37 ایکڑوں پر محیط ہے۔ میٹروں میں اس کا رقبہ 65 ہزار مربع میٹر ہے۔ اس کی تین منزلہ عمارت کی چھت پر 25 ہزار مربع میٹر کا باغ ہے۔ اس کتاب باغ کے 13 الگ الگ بلاک ہیں اور ہر بلاک کی کشش ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ فرش پر پیلے رنگ کے چپس لگائے گئے جو ذہن پر کوئی بوجھ نہیں ڈالتے۔ کہیں کہیں فرش کو جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے۔ بالائی منزل پر دائیں جانب یونیورسٹیوں کے طالب علموں کیلئے مطالعہ گاہیں بنائی گئی ہیں، جہاں الگ الگ کیبنوں میں میز کرسیاں اور ڈیجیٹل آلات، کمپیوٹر اور دیگر اشیا رکھی ہیں۔ ان کیبنوں میں طلباء اور طالبات کہیں اجتماعی اور کہیں انفرادی مطالعہ کرنے میں مصروف ہیں۔
میں منظر نقوی صاحب کے ساتھ کتابوں کے ریکس کی طرف بڑھ جاتا ہوں۔ میری کولمن پارکس کا مُرشد رومی کے ترجمے پر نظر پڑتی ہے۔ اس کے برابر میں فریڈرک نطشے کا زرتشت اپنے ضرب الامثال جیسے جملوں سے ہم سے داد سمیٹنے کا آرزومند ہے۔ ساتھ میں کیمیا خاتون کی کتاب “فاختہ اور پُراسراریت”نئے راز منکشف کرنے کیلئے بیتاب ہے۔ اس کے برابر میں ڈی ایچ لارنس کی کتاب”بیٹے اور محبتی” دعوت مطالعہ دے رہی ہے۔ یہاں عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر زبانوں میں لاکھوں کتابیں ایران میں ایک خاص علمی فریضہ انجام دینے کا جتن کر رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں معیشت دان کم فی کس شرح آمدنی پر پریشان ہیں۔ یہاں ایرانی ماہرین فی کس شرح خواندگی بڑھانے کیلئے بھرپور کاوشیں کر رہے ہیں۔ تہران کا یہ باغ کتاب شہر کا ایک بڑا تہذیبی اور ثقافتی مرکز بن کر ابھر رہا ہے۔ اس باغِ کتاب کا بلاک اے بہارستان کے نام سے موسوم ہے۔ جو کمسن بچوں اور نوعمر لڑکوں کیلئے مخصوص ہے۔ یہاں پر تیس کے لگ بھگ کارٹون کیریکٹرز کے مجسمے رکھے گئے، جن سے بچے اور لڑکے بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ یہاں بلاک بی خیالستان ہے۔ یہ 60 میٹر طویل راہداری ہے، جہاں پیدل چلنے والوں کو دونوں جانب طاقتور پروجیکٹرز پر تصاویر اور ویڈیوز دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب باغ کا بلاک سی نگارستان ہے جہاں پر 11 سینما اور تھیٹرز ہیں۔ ایک آرٹ کی دکان ہے، یہاں سات سے بارہ سال کے بچوں کیلئے سائنس باغ ہے۔ اس باغ کا بلاگ ڈی ساروستان ہے۔ یہ کتابوں اور ثقافتی اشیاء کا اسٹور ہے۔ کتاب باغ کی چھت پر کیفے، ریسٹورنٹس اور سچ مچ کی ہریالی اور باغ ہے۔ ہم عالم محویت میں کتاب باغ کو ایک کونے سے دوسرے کونے تک دیکھتے چلے جاتے ہیں مگر اس کے کسی بھی کونے کو آخری کونا نہیں کہا جا سکتا ۔ اویس ربانی کو یہ شکایت ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے کتاب باغ سمجھے یا کہے جانے والے مقام پر اردو کی ایک کتاب بھی نہیں ہے۔ یہاں پر آزری، آرمینیائی، اُزبک اور تاجک زبانوں کی کتابیں ہیں تو اردو کی کتابیں کیوں نہیں ہیں۔ اویس ربانی کا اقبال پر بہت وسیع مطالعہ ہے اور ایرانی بھی علامہ اقبال کو اقبال لاہوری کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں مگر اس کتاب باغ میں نہ جاوید نامہ ہے نہ بالِ جبرائیل، نہ اسرارِ خودی ہے نہ ضربِ کلیم۔ یہاں اقبال کا کوئی اردو یا فارسی دیوان موجود نہیں۔ اویس ربانی ، رضا شعبانی کے ذریعے اس کتاب باغ کی انتظامیہ سے باقاعدہ اپنی شکایت درج کرانا چاہتے ہیں۔
آج ایران میں ہمارے پہلے روز کا پہلا سورج غروب ہو چکا ہے۔ رات کا پہلا پہر شروع ہو چکا ہے۔ رضا شعبانی پیدل چل کر ہوٹل چلنے کی تجویز دیتے ہیں مگر ہم مسافر گاڑی کے ذریعے ہوٹل چلنے کیلئے اصرار کرتے ہیں۔ گاڑی تک چل کر جانے کیلئے بھی خاصا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ جب گاڑی ہوٹل کیلئے روانہ ہوتی ہے تو وہ واقعی اتنا سفر کرتی ہے کہ اگر ہم پیدل چل ہوٹل جاتے تو آدھی رات کو وہاں پہنچتے ہیں۔ بہرحال ہوٹل پہنچ کر ہم رات کا کھانا کھاتے ہیں اور اپنے اپنے کمروں کی طرف چل پڑتے ہیں۔ کل ہم نے اسلامک ریپبلک نیوز ایجنسی ارنا میں جانا ہے جو ایران کی سب سے بڑی خبررساں ایجنسی ہے اور جہاں سے ایران کے بارے میں مصدقہ خبریں دنیا کے کونے کونے میں بھیجی جاتی ہیں۔ (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: