اپریل 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کلٹ کلچر – اینڈ گیم (فرقہ عمرانیہ) ۔۔۔|| اظہر عباس

کلٹ کو ممکنہ یا نئے بھرتی کرنے والوں کے لیے خاص طور پر پرکشش بنایا جاتا ہے، اراکین کو عام طور پر یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ دوستانہ، دلچسپ چیز جس کے لیے انہوں نے سائن اپ کیا ہے، یہ گروپ جس نے بہت سارے وعدے کیے ہیں اور اچانک انھیں اپنے تعلق اور اپنائیت کا احساس اور بہت سے دوست اور ساتھی فراہم کیے ہیں، دراصل ایک کلٹ ہے۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(آخری حصہ)

ایک حقیقی کلٹ کے رہنماؤں کی خصوصیت ‘تنقید کے لیے عدم برداشت’ ہے اور یہی خصوصیت خان صاحب اپنی ناکام پالیسیوں کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے دکھاتے رہتے ہیں۔ انکی ٹرول بریگیڈ ہر ناقد پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتی پائی گئی یہ دیکھے بغیر کہ وہ ناقد خاتون ہے یا مرد۔

آر اے شہزاد ایک یورپ بیسڈ ویل بئینگ اسپیشلٹ/ ماہر نفسیات ہیں انکا تجزیہ ہے کہ:

نیازی ایک Cult Leader ہے اور Pathological Narcissist ہے ہر کلٹ میں لیڈر کا بت تراشا جاتا اسے قطب ولی بنایا جاتا ہے اور ہر نرگسیت پسند تنقید برداشت نہی کرتا

اب سوچیں یہ آن لائن ٹرول، گالی بریگیڈ کس نے اور کیوں بنائی ہے؟

مقصدنیازی پر تنقید پر لوگوں کو ڈرا کر ہراساں کر کے روکا جا سکے۔”

ان کا مزید کہنا ہے کہ: "ایک مشہور ماہر نفسیات ہے جس نے پچھلی صدی کے تمام بڑے کلٹ لیڈران کی پوری زندگیوں پر مکمل ریسرچ کی ایسے تمام لیڈران Pathological Narcissist ہوتے اپنے فالورز سے مکمل وفاداری مانگتے اور تنقید برداشت نہی کرتے ہیں۔ وہ اپنی برطرفی پر سازشی تھیوریاں تیار کرتے ہیں، روزانہ کی بنیاد پر قتل کی کوششوں کا دعویٰ کرتے ہیں، سیاسی جماعتوں اور فوج پر اپنے خلاف گروہ بندی کا الزام لگاتے ہیں، اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ ان کے بغیر پاکستان ٹوٹ جائے گا۔

اپریل 2017 کے لائیو سائنس کے ایک مضمون میں، "کلٹ لیڈرز میں کیا مشترک ہے”، کے عنوان سے، میگن گینن لکھتی ہیں:

‘ہر کلٹ لیڈر نرگسیت پسند ہوتا ہے۔’ وہ مزید کہتی ہیں کہ کلٹ لیڈر کرشماتی ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وعدے بھی کرتے ہیں، ‘ وہ یہ بھی مشاہدہ کرتی ہے کہ کلٹ کے رہنما ‘افراتفری’ پر پروان چڑھتے ہیں، ‘بحرانی حالات’ پیدا کرتے ہیں اور ‘اکثر طاقت کے بھوکے اور آمرانہ رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔’ کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت کے تحت وہ اپنے پیروکاروں کو مکمل اطاعت پر مجبور کرتے ہیں ‘ان کے نزدیک رہنما کے لئے مکمل احترام ایمان کی طرح شرط ہے.’

ضروری نہیں کہ تمام فرقے مذہبی ہوں، کچھ عقائد اور نظریے پر بھی بنتے ہیں۔ عمران خان صاحب نے سیاست کے ساتھ مذہب کو صحیح تناسب میں ملایا ہے، اس طرح مذہب اور بدعنوانی کے غلغلے والی ریاست میں فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں۔ اپنے پیروکاروں سے بات کرتے ہوئے، انہیں اکساتے ہوئے، عمران خان صاحب کہتے رہے کہ، "پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج/ جیل میں ڈالے جانے کی فکر نہ کریں۔ اس طرح اللہ لوگوں کو آزماتا ہے۔ اگر تم صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح اجر دے گا جیسا کہ اس نے مدینہ کے مسلمانوں کو دیا تھا۔ پولیس جو آج آپ پر لاٹھی چارج کر رہی ہے کل آپ کو سلام کرے گی”۔ اس طرح کے پیغامات ایسے گمراہ کن لیڈروں کی طرف سے آتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر جیت کے خواہاں ہوتے ہیں، اپنے حامیوں کے زخموں کو نظر انداز کرتے ہوئے، جو انکے طویل مدتی منصوبوں میں غیر متعلق ہوتے ہیں۔

خان صاحب، جیسا کہ زیادہ تر کلٹ لیڈرز کرتے ہیں، لاہور کے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر ریاست کے اندر ایک ریاست بنائی ہے، اپنے حامیوں کو اس بات پر ایمان لانے پر قائل کیا کہ حکومت انہیں ختم کرنے کے درپے ہے اور اس لیے انہیں تشدد کو استعمال کرنے سمیت گرفتار کرنے کی کوششوں کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ان کی نجی فوج نے خان صاحب کی عزت اور طاقت کے دفاع کے لیے ریاستی افواج کے خلاف سخت لڑائیاں لڑیں۔

خان صاحب اس بات سے آگاہ تھے کہ تشدد اور ہلاکتیں ان کے حق میں کام کریں گی، خان صاحب نے تشدد کی حوصلہ افزائی کی اور حکومت کے محدود اختیارات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس نے انہیں ایک قانونی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

خان صاحب کی تقاریر، کسی بھی کلٹ کے سربراہ کی طرح، نرگسیت، عظمت، ایمانداری اور پاکستان کو بدلنے کے وعدوں سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ فوج کے حاوی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول ہے لیکن عوام کی خواہش ہے۔ وہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں، جس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ وہ کسی بھی نظام انصاف سے بالاتر ہیں

اپنے گھر کے محاصرے کے دوران عالمی میڈیا نیٹ ورکس سے خطاب کرتے ہوئے، خان صاحب نے ذکر کیا کہ وہ سلاخوں کے پیچھے رہنے کو تیار ہیں لیکن ہتھیار نہیں ڈالیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز کو ان کے حامیوں کی ہیومن شیلڈ سے لڑنا پڑے گا، اس طرح خون بہے گا اور خان صاحب یہ خون سیاسی طور پر چاہیں گے کہ اسے استعمال کر سکیں۔

خان صاحب نے اپنے کلٹ کی پیروی کو بڑھانے کے لیے ہر طریقہ اپنایا ہے جس میں اپنے برین واشڈ پیروکاروں کی جانیں قربان کرنا بھی شامل ہے۔ عالمی میڈیا کے ساتھ ان کی بات چیت ان کے اس عقیدے کو ظاہر کرتی ہے کہ ریاست کی طاقت کا استعمال ان کے ساتھ اس لیے کیا جا رہا ہے، کہ وہ فوج کی مرضی کے سامنے جھکنے سے انکاری ہیں۔

کلٹ کو متشدد کرنے/ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے کسی ڈرگ پر لگایا جائے۔ گزشتہ دور حکومت میں اسکولوں، کالجز/ یونیورسٹیز میں آئس عام ہوئی۔ نسوار کو ایک برانڈ کی شکل میں برانڈنگ اور لانچنگ آپ کو یاد ہوگی۔ اس کے Ingrediants آج تک کسی لیبارٹری سے چیک نہیں ہوئے کہ کیا ہیں۔ حالیہ 9 مئی کی جتھہ بند ریلیوں اور حملوں کی ویڈیوز میں آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے متشدد حامی کچھ فقرے بار بار دہراتے رہے۔ یہ کیسی برین واشنگ ہے ؟ آپ کو یہ متشدد جتھے اجتماعی طور پر ایک ٹرانس میں نہیں لگے ؟ یہ آئس یا کرسٹل کی تھوڑی مقدار بھی ہو سکتی ہے ٹافی کی شکل میں یا کسی اور پراڈکٹ میں۔

خان صاحب کی رہائش گاہ سے حالیہ پولیس ریڈ کے دوران گولہ بارود اور پیٹرول بموں کی دریافت نے اشارہ دیا ہے کہ خان صاحب ایک طویل محاصرے کے لیے تیار تھے اور کسی بھی پولیس کارروائی کو روک سکتے تھے، یہ دنیا بھر میں کلٹس کے سابقہ واقعات کی یاد دہانی ہے جہاں فرقے کے رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔

عمرانی فرقہ پاکستان میں گہری جڑیں پکڑ چکا ہے۔ اگر اسے فوری طور پر روکا نہ گیا تو یہ ایک چیلنج ہو گا، کیونکہ یہ ایک ایسے آمر کے ظہور کے لیے حالات پیدا کر سکتا ہے، جو قانون کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی خواہشات اور خواہشات کے مطابق حکومت کرے گا، جسے برین واش کیے گئے پیروکاروں کی ایک عوامی تحریک کی حمایت حاصل ہے۔

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: