مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب اپنے چاہنے والوں پر رحم کریں۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ کے نظریات سے مجھے شاذہی اتفاق رہاہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا لیکن رواں صدی کے آغاز میں فروغ شروع ہوا تو میں بھارت کے بارہا سفر کی بدولت اس کی وجوہات اور نمایاں کرداروں کو بہتر انداز میں بیان کرنے کے قابل ہوگیا۔ڈاکٹر صاحبہ ان دنوں پی ٹی وی کے کرنٹ افیئرز سے متعلق ایک پروگرام کی میزبان ہوا کرتی تھیں۔اکثر اپنے شو میں مدعو کرلیتیں۔پروگرام شروع ہونے اور اس کے خاتمے کے بعد میں ان سے پھکڑپن کی لبرٹی لیتا۔ میری جرأت کی چند ٹھوس وجوہات تھیں جو ذاتی رشتوں اور واسطوں پر مبنی ہیں۔ان کا ذکر لازمی نہیں۔

پھر یہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ تحریک انصاف کو ’’پیاری‘‘ ہوگئیں۔عمران خان کے نظریات کے دفاع میں ’’شاہ سے زیادہ…‘‘ والا رویہ اپنا لیا۔ ان کی گفتگو سن کر مجھے دُکھ ہوتا۔دیانت داری سے محسوس کرتا تھا کہ بین لاقوامی سیاست کی سنجیدہ طالب علم ہوتے ہوئے ان کا لب ولہجہ ’’جارحانہ‘‘ نہیں بلکہ ’’استادوں‘‘ جیسا ہونا چاہیے۔ہمارے مابین مشترکہ دوستوں کے ہاں ملاقاتوں کا سلسلہ اگرچہ بدستور جاری رہا اور وہاں معمول کے مطابق میں پھکڑپن سے انہیں تنگ کرتا رہا۔

ڈاکٹر صاحبہ کی ہونہار بیٹی ایمان سے میری فقط ایک بار ملاقات ہوئی ہے۔ اس ملاقات سے کئی سال قبل مگر تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول نے ان کے چند ٹویٹس کو بنیاد بناکر اپنی روایات کے مطابق ڈاکٹر صاحبہ کے لتے لینا شروع کردئے۔عاشقان عمران کے غول سے خوفزدہ تحریک انصاف کے کسی رہ نما کو جرأت نہ ہوئی کہ ڈاکٹر صاحبہ کا دفاع کریں۔بہرحال وہ ان کی وفادارساتھی ہونے کے علاوہ ایک خاتون بھی تھیں۔ میری برداشت البتہ جواب دے گئی۔

غالباََ 2010ء یا 2011ء کی بات ہے۔ ان دنوں مشتاق منہاس کے ساتھ میں ’’آج‘‘ ٹی وی کے لئے شو کرتاتھا۔مشتاق عمران خان کا شدید ناقد تھا۔ میں اگرچہ اس وقت تحریک انصاف کے اندازِ سیاست کے بارے میں گومگو کے عالم میں تھا۔مشتاق کا ڈاکٹر صاحبہ او ر ان کے خاندان سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔اس کے باوجود بلاچوں وچرا میری تجویز پر آمادہ ہوگیا کہ ہم ڈاکٹر صاحبہ کو اپنے شو میں مدعو کریں اور ان کی ذات پر سوشل میڈیا پر ہوئے رکیک حملوں کی ڈٹ کر مذمت کریں۔میں ہرگز دعوے دار نہیں کہ مذکورہ پروگرام کی بدولت ڈاکٹر صاحبہ کی عمران خان سے ’’صلح صفائی‘‘ ہوگئی۔ وجہ جو بھی رہی ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ چند ماہ کی ناراضگی کے بعد تحریک انصاف میں لوٹ کر ایک بار پھر متحرک ہوگئیں۔ اس جماعت کے بیانیے کو اپنے مخصوص انداز میں فروغ دیتی رہیں۔

بالآخر اگست 2018ء آگیا۔ ڈاکٹر صاحبہ کو ’’انسانی حقوق‘‘ کی وزیر بنادیا گیا۔ میری خواہش تھی کہ ’’سیم پیج‘‘ کی برکتوں سے سانس لیتی حکومت میں ڈاکٹر صاحبہ’’انسانی حقوق‘‘ کی ’’نگہبانی‘‘ کا بوجھ نہ اٹھائیں۔اپنی خواہش کے اظہار کے لئے ان سے رابطہ کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا تو مجھے ایک صحافتی ادارے کے چلائے ٹی وی شو سے فارغ کروادیا گیا۔

عمران حکومت کی فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحبہ پر ریاستی دبائو کا آغاز ہوا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے قوی امید تھی کہ ڈاکٹر صاحبہ مذکورہ دبائو کے آگے ڈٹ جائیں گی۔ ان کی دختر ایمان حاضر مزاری بھی ایک جی دار خاتون ہیں۔ریاستی جبر کا شکار ہوئے بلوچ طالب علموں کی ’’بازیابی‘‘ کیلئے عدالتوں میں پھیرے لگاتی رہتی ہیں۔مشکل حالات میں چند صحافیوں کو بلا معاوضہ قانونی کمک بھی پہنچاتی رہی ہیں۔

میری توقعات کے قطعی برعکس تاہم ڈاکٹر صاحبہ محاورے کی زبان میں ’’ٹوٹ‘‘ گئی ہیں۔منگل کے دن ان کا سوشل میڈیا پر اس ضمن میں دیا بیان ضرورت سے زیادہ وائرل ہوگیا۔ عاشقان عمران کی ایک بہت بڑی تعداد طلعت حسین کے ایک ٹی وی شو میں ان کی بابت ادا کردہ کلمات سے ان دنوں مجھ سے بہت ناراض ہے۔ سوشل میڈیا پر چھائی ان کی سپا ہ ٹرول ایک بار پھرمختلف تصاویر،آڈیولیکس اور فرضی کہانیوں کے ذریعے مجھے ’’لفافہ‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’بدکردار انسان‘‘ بھی ثابت کررہے ہیں۔اپنے ساتھ جاری سلوک کی وجہ سے مجھے ڈاکٹر صاحبہ کی ’’ہمت ہاری‘‘ وڈیو کی وجہ سے تحریک انصاف کے مخالفین کی جانب سے روایتی اور سوشل میڈیا پر جاری ’’پھکڑپن‘‘ میں حصہ ڈالنے کو راغب ہونا چاہیے۔

کھلے دل سے مگر اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ ڈاکٹر صاحبہ سے وابستہ وڈیو کلپ کو میں صرف ایک بار دیکھ پایا ہوں۔اسے دیکھتے ہوئے مجھے حقیقی دُکھ یہ ہوا کہ وہ ایک ’’تحریری بیان‘‘ پڑھ رہی تھیں۔ڈاکٹرصاحبہ جیسی بے ساختہ اور برجستہ خاتون جب کوئی ’’تحریری بیان‘‘ پڑھتے ہوئے اپنی ’’جند‘‘ چھڑاتی نظر آئیں تو ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں اس ’’دبائو‘‘ کا اندازہ لگاسکتا ہوں جس نے انہیں اس جانب دھکیلا۔ ریاستی جبر اس کا کلیدی سبب یقینا ہے۔ یہ مان لینے کے باوجود مگر ہمیں یہ بھی احساس کرنا چاہیے کہ پتھر دل دیوتا کے رویے والے عمران خان اپنے پیروکاروں کو غیر سیاسی اور انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے ریاست کی قوت کے روبرو کمزور سے کمزور تر بنارہے ہیں۔خدارا اپنے چاہنے والوں پر رحم کریں۔اپنے طرز سیاست کو نظرثانی کی چھلنی سے گزاریں۔عوام میں جو مقبولیت عمران خان کو اس وقت میسر ہے وہ صدارہنے والی نہیں۔ وقت کے ساتھ مقبولیت کے اسباب بھی بدل جاتے ہیں۔خدارا آپ کے نصیب میں جو جیتنے والے پتے آئے ہیں انہیں احتیاط سے آخری بازی جیتنے کے لئے بچاکررکھیں۔

۔

بشکریہ : نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: